یوگی راج میں 66 بچوں کی موت یا قتل؟

عبدالعزیز

یوگی ادتیہ ناتھ اتراکھنڈ کے اپنے ماں باپ کے گھر سے نکل کر سنیاسی کی حیثیت سے گورکھپور کے مٹھ میں آئے تھے۔ سنیاسی تو لباس کا پتہ دیتا تھا مگر اندر سے وہ سیاسی قسم کے سنیاسی تھے۔ اپنے گرو کی طرح وہ سیاست کے میدان میں سرگرم عمل ہوگئے۔ کئی بار گورکھپور حلقہ سے اپنے گرو کے بعد لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے۔ ان کی ذات گرامی کچھ ایسی تھی کہ گورکھپور اور آس پاس کے علاقہ میں ان کی فرقہ پرستی اور نفرت کے پرچار کی وجہ سے کئی فسادات برپا ہوئے۔ ایک بار انھیں 14دنوں تک جیل کی ہوا کھانی پڑی تھی۔ ان پر کئی مقدمات اب بھی زیر سماعت ہیں ۔ جب وہ وزیر اعلیٰ ہوئے تو الہ آباد ہائی کورٹ کو ان پر مقدمہ چلانے کیلئے حکومت اتر پردیش سے اجازت لینے کی ضرورت پڑی مگر یوگی حکومت کیسے اور کیونکر مقدمہ چلانے کی اجازت دے سکتی ہے؟ یوگی مودی سے زیادہ مجرمانہ حرکتوں کے مرتکب ہیں ۔

ان کے ویب سائٹ پر ان کے جارحانہ اور اشتعال انگیز بیانات درج رہتے تھے۔ ان کے بیانات اخبارات اور سوشل میڈیا میں آچکے ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف ان کی جارحیت اور فرقہ پرستی ان کی شہرت کیلئے کافی تھی۔ وہ ہر لحاظ سے ہندوتو کے کٹر قسم کے نمائندہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کے مکھیا اور بی جے پی کے مکھیا نے انھیں اتر پردیش جیسی بڑی ریاست کی گدی سونپی۔ گدی پر بیٹھتے ہی پورے اتر پردیش میں مسلمانوں کی زندگی تنگ کر دی گئی۔ کبھی رام مندر کی تعمیر، کبھی گھر واپسی کی بات، کبھی لو جہاد، کبھی گائے ذبیحہ اور سلاٹر ہاؤس کے بند کرنے کا معاملہ ۔ یہ سب تو تھا وہم پرستی اور رومیو اسکواڈ کا ایک لا متناہی سلسلہ بھی سنیاسی وزیر اعلیٰ نے شروع کردیا۔

 اب گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج اور اسپتال کا سانحہ پیش آیا ہے جہاں آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے صرف 48گھنٹے میں 30بچوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہ تعداد بڑھ کر اب 66تک پہنچ گئی ہے۔ جس رات کو 30 بچوں کی موت ہوئی اس رات کو ڈاکٹر کفیل احمد کو بچوں کی جان بچانے کیلئے اپنی گاڑی لے کر گورکھپور کے گھر گھر کی خاک چھاننی پڑی۔ وہ کئی جگہوں سے گیس سلنڈر لانے میں کامیاب ہوگئے جس کی وجہ سے کئی بچوں کی جان بچ گئی۔ اس کار خیر اور دوڑ دھوپ کی وجہ سے وہ پورے ہندستان میں آناً فاناً مشہور ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر ان کا یہ کارنامہ وائرل ہونے لگا۔ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان ڈاکٹر  مشہور و معروف ہوجانا آر ایس ایس اور بی جے پی کو کیسے ہضم ہوسکتا تھا۔ یوگی حکومت کے ایک فرمان کی وجہ سے ان کو اسپتال کی ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا تاکہ میڈیا والے ان سے ملاقات یا بات چیت نہ کرسکیں ۔ یہ ہے یوگی راج کا کارنامہ! اچھا کام کرنے سے برا انجام بھگتنا پڑتا ہے۔ جن کی وجہ سے معصوم اوربے گناہ بچوں کی جان گئی وہ گدی پر براجمان ہیں اور فرمان پر فرمان جاری کر رہے ہیں اور جن لوگوں نے اپنے فرائض ادا کئے ان کو ہٹانے کا کام کر رہے ہیں ۔ یہ دونوں فرائض یوگی جی اور ان کی حکومت انجام دے رہی ہے۔ مرکزی حکومت کا منہ بند ہے۔ وزیر اعظم کے کان تک آواز نہیں جارہی ہے۔ وہ بھی گونگے اوربہرے بنے ہوئے ہیں ۔ یہی چیز اگر کسی کانگریسی حکومت میں ہوا ہوتا تو سنگھ پریوار والے آسمان سر پر اٹھا لیتے۔

 بہر حال یہ واقعہ چونکہ بچوں کی موت سے جڑا ہوا ہے، اس لئے مودی پرست میڈیا کو بھی جاگنا پڑا اور اسپتال سانحہ کو اپنے ٹی وی چینلوں کے ذریعہ منظر عام پر لانا پڑا۔ اپوزیشن پارٹیوں میں سے کچھ لوگ یوگی کے ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ کچھ لوگ معافی مانگنے کی مانگ کر رہے ہیں ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹروں کے خاص طور سے ڈاکٹر کفیل نے حکومت کو اطلاع دے دی تھی کہ آکسیجن کی اسپتال میں بیحد کمی ہے۔ اس سے بڑا سانحہ ہوسکتا ہے مگر حکومت خرافات میں کھوگئی ہے۔ اسے اچھے اور صحیح کام کیلئے فرصت ہی نہیں مل رہی ہے۔ اسے رام مندر چاہئے، گائے کا تحفظ چاہئے، مدرسوں میں وندے ماترم کا نغمہ مطلوب ہے۔ ان چیزوں سے فرصت ملے تو کہیں آکسیجن کی بات کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یوگی کو یوگی یا مودی سزا نہ دے سکتے ہیں نہ دلا سکتے ہیں ۔

جب تخت شاہی پر مجرم بیٹھے ہوں تو گلستاں کا کیا انجام ہوگا؟ کیا اتر پردیش کے ووٹروں کا خواب بی جے پی کو ووٹ دے کر پورا ہورہا ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ اتر پردیش کے لوگ کب خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہیں ؟ کیا بچوں کی موت یا قتل کا سانحہ اتر پردیش کو جگا سکتا ہے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب اتر پردیش کے عوام و خواص کو دینا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔