یوں تو شمار اس کا مرے بھائیوں میں تھا

عرفان وحید

یوں تو شمار اس کا مرے بھائیوں میں تھا

میں تھا لہو لہو وہ تماشائیوں میں تھا

چہرے سے میں نے غم کی لکیریں مٹا تو دیں

لیکن جو کرب روح کی گہرائیوں میں تھا

وہ حوصلہ کہ پھیردے دو جو آندھیوں کے رخ

وہ حوصلہ ابھی مری پسپائیوں میں تھا

دیتا ہے روز اک نیا الزام آج کل

پہلے وہ شخص بھی مرے شیدائیوں میں تھا

کہتے ہیں ایک میں نہ تھا بدنام شہر میں

چرچا ترے بھی نام کا رسوائیوں میں تھا

عرفاں وہ کم نصیب کہ تھا جانِ انجمن

یاروں کے بیچ رہ کے بھی تنہائیوں میں تھا

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    یہ مانی ہوئی بات ہے کہ شعرا مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں،
    مگر میں باقاعدہ اقرار کرتا ہوں کہ میں غیر شاعر ہوں اور جو کہہ رہا ہوں وہ مبالغہ نہیں، حقیقت ہے۔۔۔!!!

    "محترم عرفان بھائی سراپا محبت ہیں، محبت ہی محبت ہیں، انہیں محبت دینا آتا ہے، محبت پانا آتا ہے۔
    یہ الگ بات ہے کہ یہ محبت کے معاملے میں احسان پسند ہیں نا کہ نیکی پسند۔۔۔!!!
    ان میں ذرا سا فرق ہوتا ہے اہل نظر سمجھ سکتے ہیں۔
    اللہ تعالی انہیں راہِ زیست میں تمام تر آسانیوں سے نوازے، ان کی ہر مراد بر آئے، ہر خواہش مکمل ہو، دنیا و آخرت میں کامیابیاں، کامرانیاں مقدر ٹھہریں اور ہاں اللہ تعالی ہماری باہمی محبتوں کو دوام بخشے۔۔
    آمین ثم آمین

تبصرے بند ہیں۔