یکساں سول کوڈکے مطالبہ کے پیچھے کیاسازش ہے؟

ایک دلت دانشوروی .ٹی. راج شیکھرکا مدلل اورجامع تبصرہ

ترتیب : عبدالعزیز
آج کامن سول کوڈکامطالبہ جمہوری اداروں میں موجودعوامی نمائندوں کے ہاتھوں نہیں بلکہ حدسے زیادہ جوشیلے ، بے علم، مسلم دشمن ، احمقوں کی طرف سے ہورہاہے ۔جونئے نئے بنائے گئے عوامی مفادکی چارہ جوئی (Public Interest Litigation)کے بہانے اپنی ہی قسم کے دماغ والے سپریم کورٹ کے ججوں کے سامنے عرضیاں ڈال کرکرتے ہیں۔ ایسے جج جوسپریم کورٹ کی کرسیوں پربیٹھنے کے فوراً بعد سرکارکوہدایت دیتے رہتے ہیں کہ دستورکی دفعہ 44کے تحت کامن سول کوڈکاقانون بنائے۔ ایسااس لئے ہوتاہے کہ اس کے ذریعہ ان کے مسلمانوں سے نفرت کے جذبات کواطمینان ملتاہے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ کے ججوں ، جسٹس وکر م جیت سین ورشیوکیرتی سنگھ نے سرکارکوسختی سے چیلنج کیااورکہاکہ ’’آخراس (کامن سول کوڈ) کاکیاہوا۔اگرتم واقعی کرناچاہتے ہوتوتمہیں کرناچاہئے ۔ تم لوگ کیوں اس کونہیں بناتے اورلاگونہیں کرتے ۔‘‘عدالت نے حکومت سے یہ بھی پوچھ ڈالاکہ آخرتم لوگ یہ کام کب کرنے جارہے ہو۔ (دکن ہیرالڈ، مؤرخہ (13-10-2015
اس کے پندرہ دن گزرنے کے بعد دوججوں، انیل.آر.داوے اوراے .کے. گویل کواسی مسلم خواتین پرالفت ہوگئی جوجنسی بے انصافی کاشکارہوکرطلاق اورسوکن کے ساتھ شوہرکی شادی سے پریشان ہیں اورانہوں نے ایک مفادعامہ کی عرضی (Public Interest Prtition)کے بارے میں احکامات جاری کئے کہ اس کوایک نئے بنچ کے سامنے رکھیں اورچیف جسٹس سے درخواست کی کہ ایک مناسب بنچ بٹھائی جائے۔
قابل رحم ہیں یہ جج جومسلم خاتون کے اس معاملے میں پریشان نہیں ہوتے کہ اس کوسرکاری ، نیم سرکاری اورچناؤکے اداروں میں بینکوں میں ، سرکاری دفتروں میں، یونیورسیٹیوں ، کالجوں،نیم سرکاری اداروں وغیرہ میں مناسب داخلہ ملیں، جہاں اس کا 0.01 فیصدکی حدتک بھی وجودنہیں ہے ۔ جب کہ اونچی ذاتیوں کی خواتین بہت بڑی حصہ داری رکھتے ہیں۔
ان ججوں کویہ پریشانی بالکل بھی نہیں ہے جوبے انصافی دوسرے معاملات میں سب کے ساتھ ہورہی ہے جس کے بارے میں دستورکے دفعات 39(a) سے 39(f)تک میں موجودمعاملات ہیں۔ مطلقاًان معاملات کوردکردیاگیاہے۔ جیسے:
: 39(a)کے تحت سب کے لئے زندہ رہنے کامساوی حق۔
: 39(b)ملک کے وسائل پربرابرکاکنٹرول اوراس کی تقسیم ایسی ہوجس سے سب کابھلاہوتاہو۔
: 39(c)مال ودولت کاکسی کے پاس ذخیرہ نہ ہونے دینا۔
: 39(d)ایک ہی قسم کے کام کی ایک ہی قسم کی اجرت وغیرہ وغیرہ۔
اس بات کوجاننے کی ضرورت ہے کہ دفعہ 39دفعہ 44سے 4 قدم پہلے آتی ہے ۔سپریم کورٹ نے اس پرغورنہیں کیاکہ دستوربنانے والوں نے ان دفعات کوزیادہ اہمیت دی اورمقدم رکھاہے ۔ان کے مفادات کچھ لوگوں کے لئے نہیں جیسے کہ صرف مسلم خاتون کے حق میں ہیں۔بلکہ تمام کے تمام 120کروڑشہریوں کے لئے ہیں اورہرکسی کے لئے ہرطرح کے فائدہ رکھتے ہیں۔
ہماراعدلیہ دفعہ 38 سے آگے بڑھنے کے لئے دفعہ 39اور39 (a) کی منزلیں طے کرنے کے بعدرفتہ رفتہ 44کوپہنچنے کے بجائے اچھل کرکیوں دفعہ 44پرجاکرایک ہی جست میں چھلانگ لگاکرقدم جماتاہے ۔ جب تک دفعہ 44کے پہلے کے دفعات پرعملداری نہیں ہوتی دفعہ 44کے معاملے کواُٹھانے میں کوئی سمجھداری نہیں ہے۔
لاکھوں دلت، پچھڑے، اقلیتی مزدور، سرکاری اداروں کے اندرروزانہ کے مزدوروں کے روپ میں(Work Charged established)میں انتہائی غریبی کی حالت میں سڑ رہے ہیں۔ان کوکام کی ضمانت ، چھٹیوں کی سہولیات، علاج وغیرہ کے جوازات نہیں ہیں۔ ان کی تنخواہیں باقاعدہ سرکاری ملازموں کی تنخواہوں کے چوتھائی حدتک ہیں۔ یعنی دوسرے 100روپئے لیتے ہیں توان کوصرف 25ملتے ہیں۔ جب ان کی یہ حالت ہے توباقاعدہ کے سرکاری ملازم آرام دہ کرسیوں پربیٹھے ہیں اوریہ تقریباًتمام کے تمام اونچی ذاتوں کے ہیں۔ عدلیہ نے حکومت کویہ احکامات کیوں نہیں دیئے کہ سرکار، ان کوبھی دفعہ 39(d) کے تحت مساوی تنخواہیں دے اورملازمت کی ضمانت دے ۔اورآج تویہ معاملہ ہوگیاہے کہ اونچی ذات کے مالداروں کومزدورمہیاکرنے کے کنٹریکٹ (Labour Contract)دے دیتے ہیں۔ان کے حق میں ہرمزدورکے لئے زیادہ مزدوری مقررہوتی ہے اوران کے پاس سے ملنے والی مزدوری بہت ہی کم ہوتی ہے ۔ سب سے زیادہ فائدہ Labour Contractorsکاہوتاہے ۔یہ تمام باتیں دفعہ 39کے بالکل خلاف ہیں۔
اس طرح اس بات کی گنجائش ہے کہ سب سے بڑے عدلیہ کی طرف سے کامن سیول کوڈکی جوبات اُٹھائی جاتی رہتی ہے اس میں خلوص نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ کسی نہ کسی بہانے سے اسلامی شریعت کے ساتھ کھلواڑکرنامقصودہے ۔ مسلم دشمنی آرایس ایس کافلسفہ ہے ۔ بی جے پی کاسیاسی نظریہ ہے اوراس کواونچی ذاتیوں کے دانشمندوں نے ایک مذہبی رنگ دے دیاہے ۔اورایساکرنے والوں میں تھوڑے بہت اونچے درجے کے جج بھی شامل ہیں۔
اب کی بارسپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بڑی ہی خطرناک بات کہدی کہ کامن سول کوڈکامعاملہ صرف اس وقت لیاجاسکتاہے جب کہ بے انصافی کی شکار(یعنی مسلم خاتون) خودحق طلبی کے لئے آگے بڑھ کرآتی ہے ۔ (دکن ہیرالڈ(8-12-2015یہ گویامسلم خواتین کودعوت ہے کہ وہ آگے بڑھ کرآئیں اورمسلم دشمن پی آئی ایل کی چارہ جوئی کرنے والوں کوہدایت ہے کہ وہ خوداکیلے نہ آئیں بلکہ کچھ پڑھائی سکھائی گئی۔ ان کے جھانسے میں آنے والی خاتون کوتلاش کریں۔ جس کی پیٹھ کے پیچھے سے اسلام کے خلاف زہریلے تیرچھوڑے جاسکیں۔ ہم نے پہلے ہی یہ دیکھ رکھاہے کہ ایک اَن پڑھ خاتون شاہ بانوؔ کواسی طرح چن لیاگیاتھاکہ اس کے نام سے قرآن ، مسلم علماء اوراسلام پرسخت نکتہ چینی کی گئی تھی ۔مگرحقیقت جان لینے کے بعدشاہ بانونے عدالت کی طرف سے اس کے حق میں دی گئی یہ رقم کویہ کہہ کرٹھکرادیاتھاکہ ’’جس رقم کے دینے کے لئے میرے رسول نے پسندنہیں کیاتھاوہ میں نہیں لوں گی۔‘‘
ان باتوں کی روشنی میں ان باتوں کی اشاعت حالات حاضرہ کے تحت بہت ضروری ہے تاکہ ہندوستان میں امن رہے ۔اوراس کی ترقی برقراررہے ۔ کامن سول کوڈکے معاملے میں سب سے مناسب حل یہ ہے کہ دستورکی دفعہ 44کودستورمیں سے مطلق مٹادیاجائے اوراس شرارت کوہمیشہ کے لئے ختم کردیاجائے۔ مسلمانوں کوچاہئے کہ آنے والے چناؤکے وقت اس معاملے کوضروری موضوع بنائیں تاکہ انہیں اپنے دوست اوردشمن کاپتہ چلے۔
ہندوستان کاحکمران طبقہ معاملات کی الٹ پھرکرنے میں ماہرہے ، تاکہ عوام کاخیال اِدھراُدھربھٹک جائے ۔اوروہ غلط راستے پرپڑجائیں۔ چونکہ تمام اخبارات اس کے قبضے میں ہیں وہ سب کچھ بناسکتاہے اوربگاڑسکتاہے ۔ایک معمولی سی بات کو،زمین کواُلٹ پلٹ کرنے والاواقعہ بناسکتاہے ۔ یہی بات ہے جوآج مسلم پرسنل لاء کے تعلق سے ہورہی ہے ۔ اس کی پہل مسلم عورت کوظلم وستم سے بچانے کی چیخ وپکارسے ہوئی ۔پھرمسلم پرسنل لاء کی تبدیلی کے نعرے بلندہونے لگے اورآخرکاراب یہ چیخ وپکارکامن سول کوڈکے بنانے پرآکرٹہرگئی ۔ پہلے پہل تواس کامقصدمسلمانوں کوپریشان کرنااورخوفزدہ کرناتھا، اس لئے کہ مسلمان برہمنیت کے سب سے سخت جان اورناقابل شکست دشمن ہیں ۔لیکن آج ایساظاہرہوتاہے کہ کامن سول کوڈکے ذریعہ ہندوبھی مسلم پرسنل لاء کواختیارکرناچاہتے ہیں۔اونچی ذات کے ہندوؤں کی شادی اوروراثت کے قانون کاکھوکھلاپن اورمسلم پرسنل لاء کی بہتری ظاہرہوچکی ہے ۔ اس بات کاثبوت یہ ہے کہ آہستہ آہستہ اورباقاعدگی کے ساتھ جوبھی تبدیلیاں ہندوقانون میں لائی گئی ہیں وہ مسلم پرسنل لاء کی ترقی یافتہ خصوصیت کی نقل ہیں۔مثلاًطلاق، عورت کووراثت میں حق ، بیوہ کی شادی وغیرہ ۔ چونکہ ہندوقانون اب تک بھی تیاری کے دورسے گزررہاہے ۔ اس کی آخری مسلم پرسنل لاء کے اختیارکرنے پرہی ہونے والی ہے ۔لیکن مسلم پرسنل لاء کی برتری کوسیدھے طورپرقبول کرنے میں ہندوتکبراورہٹ دھرمی چوٹ لگتی ہے۔ اس لئے ظاہرہوتاہے کہ کامن سول کوڈکابہانہ تراش لیاہے ۔کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان اپنے قانون سے ایک انچ بھی ہٹنے والے نہیں ہیں۔اوراگروہ کامن سول کوڈکومان لیں گے تواس بات پرپورازورڈالیں گے کہ اُن کاہی قانون پورے کاپورااختیارہوناچاہئے ۔اورہندوایساہی کرناچاہتے ہیں۔وہ مسلمانوں کوبظاہراپنی خلوص نیت دکھاناچاہتے ہیں لیکن حقیقت میں خودمسلم پرسنل لاء کافائدہ اٹھاناچاہتے ہیں۔یہ ہے وہ ’ راز ‘ جوبہت سارے مسلمان سمجھ نہ سکے ہیں۔ (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔