قرآن کا پیغام والدین کے نام – اولاد کی خیر خواہی کے بنیادی تقاضے؟ (13)

مولانا عبد البر اثری

’’وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَھُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لاَ تُشْرِکْ بِاﷲِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۔ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلیٰ وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ ۔ وَاِنْ جَاھَدٰکَ عَلیٰ اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْھُمَا وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفاً وَّ اتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ یٰبُنَیَّ اِنَّھَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِھَا اﷲُ اِنَّ اﷲَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ۔ یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اصْبِرْ عَلیٰ مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۔ وَلاَ تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلاَ تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحاً اِنَّ اﷲَ لاَ یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ۔وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ‘‘ (لقمان:۱۳۔۱۹)
ترجمہ: ’’یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کررہا تھا تو اس نے کہا ’’بیٹا! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرناحق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہنچانے کی خود تاکید کی ہے۔ اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے(اسی لئے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا ، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے ۔ لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے اُس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو(اور لقمان نے کہا تھا کہ)’’بیٹا، کوئی چیزرائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اُسے نکال لائے گا۔ وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ بیٹا، نماز قائم کرنیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے اور لوگوں سے منھ پھیر کر بات نہ کر ، نہ زمین پر اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اوراپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے‘‘۔
سورہ لقمان مکی سورہ ہے ۔ لقمان بڑے دانا اور حکیم تھے۔ عرب ان کی باتوں کی بڑی قدر کرتے تھے۔ ’’صحیفہ لقمان ‘‘ کے نام سے ان کے اقوال کا مجموعہ مشہور تھا ۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک انصاری سوید بن صامت سے رسول اللہ ﷺ کی پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے بڑے اہتمام سے آپ ﷺ کو ’’صحیفہ لقمان‘‘ سے کچھ اقوال سنائے ۔ آپ ﷺ نے پسند فرمایا اور کہا اس سے اچھا میرے پاس ہے پھر آپ نے انہیں قرآن سنایا۔ وہ بہت متاثر ہو ئے اور ایمان لے آئے۔
مندرجہ بالا آیات میں لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو کی گئی وصیتیں منقول ہیں۔ ان وصیتوں کے نقل کرنے کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر جو نوجوان ایمان لارہے تھے ان کے والدین ان پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ ایمان سے دست بردار ہو جائیں اور آبائی دین شرک و بت پرستی پر قائم رہیں۔ ایسے والدین کو لقمان علیہ السلام کا آئینہ دکھایا جارہا ہے کہ تمہارے ہر دلعزیز لقمان حکیم کا طریقہ تو یہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے اور تمہارا حال ہے کہ اپنی اولاد کو شرک پر مجبور کرتے ہو آخر یہ اپنی اولاد کے ساتھ بد خواہی ہے یا خیر خواہی؟
اردو زبان میں وصیت اس نصیحت اور ہدایت کو کہتے ہیں جو بڑے بزرگ یا ماں باپ زندگی کے آخری لمحات میں اپنے بعد آنے والوں کو کرجاتے ہیں۔ اس نصیحت اور ہدایت کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے اس لئے عموماً لوگ اسے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عربی زبان میں وصیت کا مفہوم اس خاص موقع کے ساتھ محدود نہیں ہے بلکہ ہر اس بات اور ہدایت کو وصیت کہتے ہیں جو زور دے کر اور تاکید کے ساتھ کسی کے سامنے رکھی جائے ۔ اس طرح اس کا مفہوم وسیع ہو جاتا ہے ۔
ان آیات میں جہاں کفارو مشرکین کو راہِ راست کی تلقین کی گئی ہے۔ وہیں ہرانسان کو والدین کی شکر گذاری کی تاکید کی گئی اور والدین کو بڑی رہنمائیاں فراہم کی گئی ہیں:
(1) والدین کو اہم امور کے سلسلے میں اپنی اولاد اور ماتحتین کیلئے وصیت کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ ہمارے اسلاف کا یہ معروف طریقہ رہا ہے ۔ قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام او ریعقوب علیہ السلام کی وصیتیں بھی نقل ہوئی ہیں۔ حکمراں عموماً اپنی اولاد کو اقتدار منتقل کرتے وقت ضروروصیت کرتے تھے۔ مغربی تہذیب اور کلچر کے گرداب میں اب یہ روایت دم توڑ تی جارہی ہے۔ اسے زندہ و پائندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے اپنے دور رس اثرات پڑتے ہیں۔
(2) عموماً مال و دولت ، گھریلو مسائل اور شخصی احوال کے سلسلے میں وصیت کا چلن پایا جاتا ہے۔ لیکن ان آیات میں وصیت کا جو نمونہ پیش کیا گیا ہے وہ انتہائی اعلیٰ ، ہمہ گیر اور وسیع نقطہ نظر کی غماز ی کرتا ہے۔ ذرا آپ وصیت کے اہم نکات ملاحظہ فرمائیں۔
شرک سے اجتناب اور توحید و آخرت کی تعلیم کے ذریعہ جہاں اصلاح عقائد کا سامان کیا گیا ہے وہیں اقامت نماز کی تاکید کے ذریعہ اصلاح اعمال کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے) کی وصیت کرکے جہاں اصلاح معاشرہ کی ترغیب دی گئی ہے ۔ وہیں کبرو غرور سے اجتناب ، میانہ روی اور معتدل و خوش کن آواز اپنانے کی تلقین کرکے آداب معاشرت سکھائے گئے ہیں۔ ان تمام پہلوؤں پر غور کریں آخر زندگی کا کون سا گوشہ خالی رہ گیا ۔ اپنے آپ میں یہ بڑی ہمہ جہت اور مکمل وصیت ہے۔ کیا آج کے والدین اپنی وصیتوں میں ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں، ہرگز نہیں۔ ضرورت ہے کہ وہ تمام گوشوں پر نظر رکھیں۔ اہم اورتمام امور پر توجہ دیں۔
(3)ان وصیتوں پر نظر ڈالنے سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ وصیتوں میں ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ لقمان علیہ السلام نے سب سے پہلے شرک سے اجتناب کی وصیت کی گویا ان کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ یہی تھا۔ آج بھی والدین کیلئے سب سے زیادہ فکر مندی کی چیز یہی ہے۔ چنانچہ انہیں اپنی اولاد کو سب سے زیادہ شرک سے بچانے کی فکر کرنی چاہئے اور وصیت نصیحت میں بھی اسی پہلو کو ترجیح حاصل رہنی چاہئے ۔
(4) آج کل والدین کا عمومی ذہن یہ ہے کہ اپنے آپ سے مطلب رکھنا چاہئے ۔ دوسروں سے سروکار رکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہی طرز عمل وہ اپنی اولاد کو بھی سکھاتے ہیں حالانکہ سماجی و معاشرتی اعتبار سے یہ بالکل درست نہیں۔ ایسے والدین ذرا غور کریں لقمان علیہ السلام کی اس وصیت پر کہ ’’نیکی کا حکم دے ، بدی سے منع کر اور جو مصیبت بھی آن پڑے اس پر صبر کر بے شک یہ عزیمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔گویا انہوں نے اپنے بیٹے کووصیت کی کہ معاشرتی مسائل سے جڑے رہنا اور پریشانیاں جھیل کر بھی ان کے اصلاح کی کوشش کرناکہ سماج کو بہتر بنائے بغیر خود بہتر زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ اگر سماج بگڑا رہا تو اس کے اثرات بد کا تم بھی شکار ہوسکتے ہو۔ ضرورت ہے کہ آج کے بگڑے ماحول میں والدین اپنی اولاد کو لقمان علیہ السلام جیسی وصیت کریں اور اسی نہج پر ان کو ڈالیں تاکہ اصلاح کی راہیں ہموار ہوں نہ کہ بگاڑ بڑھتا جائے ۔

تبصرے بند ہیں۔