یکساں سول کوڈ! مسلمانوں کو ہندوانے کا حربہ!

پورے عالم میں مسلمانوں کو ان کے دین و شریعت سے بر گشتۂ و بیزار کرنے کی مختلف کوششیں ہو رہی ہیں۔ عراق، شام، افغانستان، یمن، لیبیا اور مصر کے علاوہ پورے عالمِ اسلام میں جو قیامت برپا ہے اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمان اپنی مذہبی شناخت اور دینی امور کی ادائیگی چھوڑ کر مغرب کے بتائے ہوئے راستہ پر آنکھ بند کر کے چلنے لگیں۔  عالمی صہیونی طاقتوں کی کی جانب سے داعش جیسی سفاک و ظالم تنظیموں کو اسلام کے نام سے پیش کرنے کے پیچھے نئی نسل کو دینِ اسلام سے بیزار و بدظن کرنے کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
وطنِ عزیز ہندوستان میں بھی سات دہائیوں سے مختلف شکلوں میں  مسلمانانِ ہند کو اس امتحان سے گزرنا پڑرہا ہے، بے پناہ فرقہ وارانہ فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا ہزاروں بلکہ اربوں کروڑوں کا مالی نقصان اور اب تعلیم یافتہ بے قصور مسلم نوجوانوں دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں جیلوں میں سڑا کر ان کی زندگی برباد کرنا  گھر واپسی لو جہاد اور یکساں سول کوڈ (مشترک قانون) کا مطالبہ اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ فسادات کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے؛ آپ کو معلوم ہوگا کہ جن شہروں کی صنعت مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی جہاں مسلمان خوشحال و خود کفیل تھے وہاں ان کو بھکاری اور مزدور بنانے کے لئے سیکو لرازم کی علمبردار کانگریس پارٹی کے دورِ حکومت میں پورے کے پورے شہر فسادیوں اور ظالم پولیس اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ میرٹھ، علی گڑھ، مرادآباد، بھاگل پور اور بھیونڈی کے علاوہ اکثر فساد زدہ مقامات کی صنعتیں مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی۔ آزادی کے بعد باستثنائے چند سالوں کے ملک میں کانگریس ہی برسرِ اقتدار رہی ہے اس لئے یہی کہا جائے گا کہ کانگریس نے مسلمانوں کے ساتھ وہ سب کچھ کیا جس سے مسلمان  دین و شریعت کوچھوڑ کر اپنے جان و مال کی خیر منا نے میں لگ جائیں، یہ کانگریس کا نرم ہندو توا ہے۔ دوسری طرف آر ایس ایس اور بی جے پی ہے، جو ملک کو علی الاعلان ہندو اسٹیٹ بنانے کی وکالت کرتے ہیں،  رام مندر کی تعمیر کے ساتھ یکساں سول کوڈ بی جے پی کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ ہندوتوا نظریہ کے حامل افراد برسوں سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ملک میں ہر طرح کے پرسنل لا کو ختم کرکے مشترک قانون کو نافذ کیا جائے مئی 2014  سے اس مطالبہ میں شدت پیدا ہوگئی اور اپنے اس پرانے موقف کے ساتھ سامنے آنے لگے کہ مسلم پرسنل لا کے تحت جو شرعی قانون نافذ ہیں، ان میں سے بعض کی بنا پر عورتوں اور بچوں کے  بہت سے حقوق ضائع ہورہے ہیں اس لئے اسکے سدِ باب کے لئے قانونِ شریعت (مسلم پرسنل لا) کے بجائے مشترک سول کوڈ نافذ کیا جائے، حال ہی میں اترا کھنڈ کی ایک مسلم خاتون سائرہ بانو نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے اور پرسنل لا سے متعلق قوانین کو مسلم خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، جس پر سپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لا سے متعلق شادی اور طلاق سے جڑے معاملات میں مرکزی حکو مت کو نوٹس جاری کیا ہے، جسکی وجہ سے ایک بار پھر فرقہ پرستوں کو مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا موقع مل گیا، جو لوگ قانونِ طلاق پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مرد اسکے ذریعہ عورت کو پریشان کرتا ہے اور طلاق کا اختیار صرف مرد کو ہی ہے وہ اپنے اس حق کو استعمال کرکے کبھی بھی عورت سے خلاصی پا سکتا ہے، جبکہ عورت کو طلاق کا حق نہ ہو نے کی وجہ سے خواہی نا خواہی اسکے ساتھ ہی رہنے پر مجبور ہوگی ان کے لئے عرض ہے کہ شریعت میں صلح صفائی کے ذریعہ عورت بھی علیحد گی اختیار کرسکتی ہے، اگر کوئی عورت اپنے شوہر کو کسی وجہ سے اتنا ناپسند کرتی ہو کہ اسکے ساتھ کسی قیمت پر نبھاؤ ممکن نہ رہا ہو تو اسکا بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ وہ شوہر کو سمجھا بجھا کر طلاق  دینے پر آمادہ کردے ایسی صورت میں شوہر کو بھی چاہیے کہ جب وہ نکاح کے رشتہ کو خوشگواری کے ساتھ نبھتا نہ دیکھے  اور یہ محسوس کرے کہ اب یہ رشتہ دونوں کے لئے ناقابلِ برداشت بوجھ کے سوا کچھ نہ رہا تو وہ شرافت کے ساتھ اپنی بیوی کو ایک طلاق دے کر چھوڑ دے تاکہ عدت گزرنے کے بعد وہ جہاں چاہے نکاح کرسکے، لیکن اگر شوہر اس بات پر راضی نہ ہو تو عورت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ شوہر کو کچھ مالی معاوضہ پیش کرکے اسے آزاد کرنے آمادہ کرسکتی ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں اس عمل کو ” خلع “کہتے ہیں۔
اس تفصیل کے بعد بھی یہ اعتراض رہ جاتاہے کہ عورت شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع نہیں لے سکتی جبکہ مرد عورت کی رضامندی کے بغیر اس کو طلاق دے سکتا ہے، اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مرد کے لئے یہ حق وحیِ الہی سے ثابت ہے اور وحیِ الہی سے ثابت ہو نے والے احکام کی کئی مصلحتوں اور حکمتوں کو عقل کے دائرہ میں نہیں لایا جاسکتا، اس کو یوں سمجھیے کہ انسانی اعضا کے کام کر نے کے دائرہ محدود ہیں اور ہر عضو صرف اپنی حدتک ہی کام کر سکتا ہے، مثلا آنکھ کا دائرۂ کار دیکھنے اور کان کا سننے تک محدود ہے اسی طرح عقل کا دائرہ یہ ہے کہ وہ ایک حد تک سوچ سکتی ہے، وحی سے ثابت ہو نے والے حقوق و احکام عقل کے دائرۂ کار سے باہر ہیں، اس لئے جو شخص نصِ شرعی سے ثابت شدہ حکم کو یہ کہہ کر رد کردے کہ یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے تو گویا وہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ مجھے کانوں سے دکھائی نہیں دے رہا یا آنکھوں سے سنائی نہیں دے رہا، کیونکہ جس طرح سننا آنکھ کے دائرہ اور دیکھنا کان کے دائرہ سے باہر ہے ٹھیک اسی طرح احکامِ الہی کی مصلحتیں اور حکمتں عقل کے دائرہ سے باہر ہیں،
دوسری بات جو اس سلسلہ میں زور و شور سے اٹھائی جا رہی ہے وہ تین طلاقوں کو ایک قرار دینا، اس سلسلہ میں بس اتنا عرض ہے کہ پوری دنیا میں کوئی شخص نہیں ہوگا جو تین کے عدد کو ایک شمار کرے تین کو تین ہی کہا جائے گا ایک نہیں،  دوسرے یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تین طلاقوں کے وقوع پر صحابۂ کرام کا اجماع ہو چکا، لہذا اس اجماع کے بعد جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ اس اجماع کو توڑ نے والا ہوگا اور کسی مسئلہ میں اتفاق ہونے کے بعد کوئی شخص اس میں اختلاف کرے تو جمہور کے نز دیک اسکا اختلاف کرنا معتبر نہیں۔
تین طلاقوں کو نہ ماننے والوں سے ایک  سوال ہے کہ کیا وہ متعہ کی حرمت کو بھی نکار دیں گے کیونکہ متعہ کی حرمت پر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہی اجماع ہوا ہے، حافظ ابنِ حجرؒ فتح الباری میں اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ بعینہ “متعہ” کے مسئلہ کی نظیر ہے چنانچہ متعہ کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ حضور اقدس ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دورِ خلافت میں “متعہ” کیا جاتا تھا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس سے منع کردیا تو ہم اس سے باز آگئے اور دونوں مسئلوں میں راجح قول یہ ہے کہ متعہ حرام ہے اور طلاقِ ثلاثہ واقع ہوتی ہیں۔ ان دونوں مسئلوں پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور اسکا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی ایک نے بھی ان دونوں مسئلوں میں اس اجماع کی مخالفت کی ہو (فقہی مقالات مفتی محمد تقی عثمانی)
بات ذرا دوسرے رخ پہ چلی گئی دراصل آج کل کچھ نام نہاد روشن خیال، ترقی پسند مسلمان بھی عائلی قوانین کو جمہوریت اور ترقی میں رکاوٹ مان رہے ہیں ان کے لئے یہ تفصیل ضمناً لکھ دی گئی، جو لوگ مسلم پرسنل لا میں ترمیم یا تنسیخ کے ذریعہ مسلمان عورتوں کو ان کے مردوں کی زیادتیوں سے بچانے کی فکر کر رہے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ان کو فسادات کا زخم کھانے اور سراپا فریاد نظر آنے والی ان عورتوں کے عام شہری حقو ق (جان و مال و آبرو) کے تحفظ کی فکر ہوئی ؛؟؟؟۔
عجیب بات ہے کہ عائلی قوانین کی رو سے مظلوم و مقہور نظر آنے والی عورت اس وقت مظلوم نہیں لگتی جب مرادآباد، میرٹھ، مظفرنگر، علی گڑھ، بھاگل پور، گجرات اور ممبئی میں اسکے شوہر کو آگ کے حوالہ کر دیا جاتا ہے، فسادیوں کے ذریعہ آبرو ریزی کرکے اسے داغدار کیا جاتاہے، اور وہ پچیس تیس سالوں تک انصاف کے چکر میں عدالتوں کے چکر کاٹ کر بھی محروم رہ جاتی ہے،1991 میں پیلی بھیت میں گیارہ سکھ نوجوانوں کو پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پہ فرضی  انکاؤنٹر میں مار گرایا تھا اس معاملہ میں گزشتہ مہینہ سی بی آئ کی خصوصی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اس میں ملوث 47 پولیس اہلکاروں کو عمرقید کی سزا سنائی ہے۔ عدالت نے متأثرہ خاندانوں کو 14، 14 روپئے کا معاوضہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے، دوسری طرف ہاشم پورہ ہے، جہاں 1987 میں 47 بے گناہ مسلم نوجوانوں کو پی اے سی کے جوان ٹرک میں بھر کے لے گئے اور ان کو گولیوں کا نشانہ بنا بنا کر نہر میں بہا دیا، اس معاملہ میں گزشتہ برس تیس ہزاری عدالت کا جو فیصلہ آیا وہ نہ ہاشم پورہ کے فساد متأثرین کے لئے مایوس کن تھا بلکہ تمام انصاف پسندوں کو اس نے حیران کردیا کہ 47 افراد کے بہیمانہ قتل کے معاملہ میں ایک آدمی کو بھی معمولی سی سزا تک نہیں ہوئی، مسلم عورتوں کے حقوق کی دُہائی دینے والوں کو اس موقع پہ ان کی بے بسی مجبوری اور حق تلفی نظر نہیں آئی، آپ کو اگر انصاف دینا ہے؛ مسلم خواتین سے ہمدردی جتانی ہے؛ تو فسادات میں ملوث افراد کو سزا دیجئے، دہشت گردی کے جھو ٹے الزامات میں کسی کے بھائی کسی کے بیٹے کسی کے شوہر کی زندگی خراب کرنے والے افسران پر کارروائی کیجئے، جس معاملہ میں پوری قوم کو شکایت ہو وہاں نہ تو کسی فرد نے نہ کسی ادارہ نے آج تک سچ مچ کا کوئی ایک قدم اٹھایا مگر مسلم پرسنل لا کا معاملہ، جس میں شکایت کا کوئی قابلِ ذکر ریکارڈ نہیں ہے، اس میں فرض شناسی دکھانے کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ بے شمار افراد میدان میں کود پڑتے ہیں، ہندوستان کی حد تک ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ وطنِ عزیز میں جو کوئی بھی مسلمان عورت سے ہمدردی کرتا ہے، اسے سب سے پہلے فسادات کی اس مصیبت کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، جو آزادی کے بعد سے لاتعداد مسلمان عورتوں کی زندگی کو جہنم بناچکی ہے اور جس کا سلسلہ ہر آنے والے دن میں مختلف شکلوں میں خوفناک ہوتا جارہا ہے، جب تک یہ عظیم اور ہمہ گیر مصیبت ہندوستان کی مسلمان عورت کے سر سے نہیں ٹلتی اس وقت تک مسلم معاشرہ میں عورت کی مظلومیت کے خلاف حکومت کا دروازہ  کھٹکھٹانے والا کوئی شخص ہو یا ادارہ، اسے شرفِ توجہ بخشنے والی حکومت؛ کسی کو بھی یہ توقع نہیں رکھنی چاہیےکہ یہ فعل کسی ادنٰی خلوص پر محمول کیا جائے گا، بلکہ اس کو یکساں سول کوڈ کے پردہ میں مسلمانوں کو ہندوانے کے حربہ سے تعبیر کیا جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔