قرآن کا پیغام والدین کے نام – والدین کب تک ذمہ دار ہوتے ہیں؟؟ (2)

’’وَوَصَّیَ بِھَآ اِبْرَاھِیْمْ بَنِیْہِ وَ یَعْقُوْبُ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمْ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتَ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ قَالُوْا نَعْبَدُاِلٰھَکَ وَ اِلٰہَ اٰبَآءِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحَقَ اِلٰھاً وَّاحِداً وّل نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ‘‘ (البقرہ:۱۳۲۔۱۳۳)
ترجمہ:151 ’’اور ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو اس (دین پر چلنے) کی وصیت کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب علیہ السلام اپنی اولاد کو کر گئے تھے۔انہوں نے کہا تھا کہ’ میرے بچو! اللہ نے تمہارے لئے یہی دین پسند کیا ہے ۔ لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا ‘ پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے۔ انہوں نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا بچو میرے بعد تم کس کی بندگی کروگے؟ ان سب نے جواب دیا ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیم ، اسماعیل اور اسحاق نے خدا مانا ہے اور ہم اسی کے مسلم ہیں‘‘۔
مندرجہ بالا دونوں آیات میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یعقوب ؑ کے پدرانہ حیثیت کی ایک تصویر پیش کی گئی ہے۔ اس تصویر سے درج ذیل رہنمائیاں ملتی ہیں:
۱۔ مسلمان والدین کے لئے اپنی اولاد کے سلسلے میں اصل فکر مندی کی چیز یہ ہے کہ ان کی اولاد کون سا طرز زندگی اختیارکرتی ہے؟ وہ دین اسلام کو اختیار کرتی ہے یا کوئی اور دین اپنالیتی ہے؟ وہ والدین کے جیتے جی یا ان کے مرنے کے بعد ایک اللہ کی بندگی کرتی ہیں یا اللہ کی بندگی سے منھ موڑ لیتی ہے۔ ابراہیم اور یعقوب علیہم السلام کا اسوہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بحیثیت باپ ہمیں اپنی اولاد کو دین اسلام اختیار کرنے، اس پر تاحیات قائم رکھنے کی ہر آن فکر لاحق رہنی چاہئے جیسا کہ انہیں زندگی کے آخری لمحات میں بھی اپنی اولاد کیلئے یہی فکر لاحق رہی۔ بد قسمتی سے ہماری صورت حال بالکل الٹی ہے۔ ہمیں اپنی اولاد کے سلسلے میں کھانے، پینے پہننے اوڑھنے ، دو ا علاج، عیش و آرام اور دنیا سنوارنے کی فکر تو لاحق رہتی ہے لیکن ان کی عاقبت سنوارنے اور دین اسلام کی راہ پر انہیں چلانے کی فکر یا تو نہیں رہتی یا بہت کم رہتی ہے ۔ اپنا یہطرز فکر بدلے بغیر ہم واقعی مسلمان والدین نہیں قرار دئیے جاسکتے۔
۲۔ والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لئے وصیت و نصیحت کا اہتمام کریں بالخصوص ان پہلوؤں پر ضرور توجہ دلائیں جنہیں وہ ان کی بہتری کے لے ضروری اور مفید خیال کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جنہیں معلوم تھا کہ ان کے بیٹے انتہائی نیک اور صالح ہیں پھر بھی انہوں نے اس کا اہتمام کیا تو ہم آپ جو اپنی اولاد میں بے شمار خامیاں اور کمیاں محسوس کرتے ہیں انہیں تو اس کا اور زیادہ اہتمام کرنا چاہئے بالخصوص ان پہلوؤں کے حوالے سے ضرور وصیت کرنی چاہئے ۔ جہاں ہم ان کے اندر کمزوری محسوس کرتے ہیں اور جو ان کے لئے خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
ہمارے اسلاف تو اس کا بڑا اہتمام کرتے تھے حتیٰ کے اپنی وصیت و نصیحت لکھ جاتے تھے جو اولاد کے لئے مشعل راہ کا کام دیتی تھی۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی تھی قرآن مجید میں اس کا بڑے اہتمام سے ذکر آیا ہے۔ آج تک وہ مشعل راہ بنی ہوئی ہے بلکہ رہتی دنیا تک مشعل راہ بنی رہے گی۔ سورہ لقمان :۱۳ تا ۱۹ میں اسے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ اب یہ قدریں اٹھتی جارہی ہیں۔ انہیں دوبارہ زندہ کرنے اور جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
نفسیاتی طور پر انسان آخری لمحات کی وصیت و نصیحت کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور اسے نبھانے کی حتی المقدور کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا اس نفسیاتی کیفیت کو اصلاح و تعمیر کے لئے ضرور استعمال کرنا چاہئے۔
۳۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر عام طور سے یہ ذہن پایا جاتا ہے کہ اولاد پڑھ لکھ کر کھانے کمانے کے لائق ہو جائے اور ان کی شادی کردی جائے تو والدین کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اولاد صحیح یا غلط جو کچھ کرے وہ آپ اپنی ذمہ دار ہے۔ والدین پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ خیال درست نہیں ہے۔ والدین تا حیات والدین ہوتے ہیں اور اولاد کے سلسلے میں ان کی ذمہ داری باقی رہتی ہے۔ یہی احساس ذمہ داری تھا جس کی وجہ سے یعقوب علیہ السلام نے مرتے وقت بھی فکر مندی کا مظاہرہ کیا۔ آج کے حالات تو اور زیادہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ والدین زندگی کے تمام مراحل میں اپنی اولاد کے لئے فکر مند رہیں ورنہ اولاد زندگی کے کسی بھی موڑ پر عزت افزائی کے بجائے رسوائی کا سبب بن سکتی ہے؟ اگر فکرمندی اور کوشش رہی تو یہ چیز مزید عزت افزائی کی راہیں کھولیں گی جیسا کہ ابراہیم و یعقوب علیہما السلام کی اولاد نے ان کے نام روشن کئے۔ اللہ تمام والدین کو اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین

تبصرے بند ہیں۔