یہی اسلام ہے 

مدثر آحمد

ماہ صیام کے آتے ہی جہاں رحمتوں و برکتوں کی بارش اللہ تبارک کی جانب سے برسنا شروع ہوجاتی ہے اسی رفتار کے ساتھ ساتھ انسانوں میں بھی بڑی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں، مسلمان اس مہینے کو بابرکت مہینہ مانتے ہیں اور اپنی ہر عبادت کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں۔ نماز، روزہ تو اس مہینے کی خاص عبادتیںہے ہی، اسکے علاوہ مسلمان زکوٰۃ، صدقہ و خیرات کو بھی بڑے پیمانے پر اہمیت دیتے ہیں۔ قابل استطاعت ہر مسلمان یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اس ماہ مبارک میںاللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرے، اس خر چ کے دوران اکثر ہم مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم جس نیت کے تحت اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں کیا وہ حقیقی اللہ کے مستحق بندوں تک پہنچ رہاہے۔

رمضان کامہینہ آتے ہی مدارس اسلامیہ کے سفیر، گداگر، فقیر سب نکل جاتے ہیں لیکن عام طورپر ہم کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ مانگنے والے کیا واقعی میں لینے کے قابل ہیں ؟۔ کچھ سفیر جو مکتبوں سے جڑے ہوتے ہیں وہ بھی زکوٰۃ کا مطالبہ کرتے ہیں اورکچھ سفیر ایسے مدرسوں کے ہوتے ہیں جہاں پر پانچ تا دس طلباء زیر تعلیم ہوتے ہیں اور وہ اپنا تعارف سینکڑوں و درجنوں طلباء کے مدارس کے طورپر کرواتے ہیں، انکے سچ و جھوٹ کا حساب تو اللہ ہی لینے والا ہے مگر ہم انسان عقل سلیم کے مالک ہیں تو ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان معاملات میں چھان بین کرکے ہی خرچ کریں۔

پچھلے دنوں اسوسیشن آف مسلم پروفیشنلس نامی ایک ین جی او نے ملک بھر میں سروے کیا کہ آخر زکوٰۃ کی رقم مسلمان کس طرح سے خرچ کرتے ہیں؟ اس رپورٹ میں جو انکشافات کئے ہیں وہ واقعی میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ مسلمان اپنےزکوٰۃ کے کروڑوں روپیوں کو بے مقصد خرچ کررہے ہیں جبکہ اسلام میں زکوٰۃ کا مقصد ہی یہی ہے کہ جب کسی مسلمان کو کو ئی زکوٰۃ دے تو وہ اگلے سال مانگنے والا نہ بنے بلکہ زکوٰۃ دینے والا بن جائے، یا پھر اگلے سال اسے زکوٰۃ کی حاجت نہ ہو۔ لیکن ہم اپنے زکوۃٰ کی رقم کو اس طرح سے بانٹ دیتے ہیں جیسے قربانی کے ایام میں گوشت کے حصے، اس سے کسی کی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔

 سفیروں اور فقیروں کے علاوہ بھی کچھ لوگ تنظیمیں بناکر لوگوں سے روپئے اینٹھتے ہیں، ایسی تنظیموں کے تعلق سے مسلمانو ں میں نہایت مثبت خیال پایا جاتاہے لیکن مسلمانوں کو اس بات پر سوچنے کی ضرورت ہے کیا وہ تنظیمیں مقامی سطح پر پیسے خرچ کرتے ہیں ؟۔ مقامی لوگوں کے مسائل پورے کرتے ہیں ؟۔ کیا وہ زکوٰۃ کی لی جانے والی رقم کا حساب اجتماعی طور پر قوم کو دیتے ہیں۔ حالانکہ کچھ تنظیمیں جو ملکی و ریاستی سطح پر کام کرتی ہیں وہ رنگین صفحات پر شائع کردہ پفلٹ و بروچرزکو دکھا کر لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں، مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب زکوٰ ۃ کو مقامی سطح پر خرچ کرنے کے لئے شریعت نے ہی احکامات دیئے ہوں تو تنظیمیں کیسے مقامی سطح پر جمع کی جانے والی زکوٰۃ کی رقم کو باہر خرچ کرسکتے ہیں ؟۔ دراصل زکوٰۃ کے تعلق سے کئی ایسے مسائل ہیں جو ہمارے اہل علم حضرات عام مسلمانوں کے درمیان پیش کرنے سے گریز کرتے ہیں کیو نکہ اسی زکوۃٰ پر ان اہل علم حضرات کی روزی روٹی بھی ٹکی ہوتی ہے۔

قرآن پاک میں زکوٰۃ کو کہاں کہاں خرچ کرنا ہے اس پر صاف بیان دیاگیا ہے لیکن ہمیں اب بھی یہ بات معلوم نہیں ہے کہ زکوٰۃ کو کیسے اور کن شعبوں میں خرچ کیاجائے۔ ہم اپنے گھروں و خاندانوں میں ایسے ضرورتمندوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو واقعی میں زکوٰۃ کے مستحق ہوتے ہیں لیکن وہ نہیں مانگتے۔ ہم ان لوگوں کو ہی اہل قرار دیتے ہیں جو مانگتے ہیں۔ جب گھر اور خاندان میں ہی اندھیرا چھایا ہوا ہو تو کیسے گلی، محلے اور ملک میں زکوٰۃ کی رقم کے ذریعے سے روشنی پھیلائی جاسکتی ہے ؟۔ کیا اس روشنی کے کوئی معنی ہونگے ؟۔

اللہ نے ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے، اس سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کااستعمال کرتے ہوئے ہم اللہ کی راہ میں صحیح اور بہتر ڈھنگ سے زکوٰۃ جیسی نعمت کو خرچ کرسکتے ہیں اور یہی اسلام ہےکہ ہم اپنی عبادت کی رضا، اسکے رسول ﷺ کی پیروی اور اللہ کے بندوں کی خدمت کریں۔ اسلام صرف یہ نہیں کہ ہم اپنے مال کا زکوٰۃ لوگوں کو دیتے وقت خوب چرچہ کرتے ہوئے دیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔