یہ اجتناب مرے اضطرار سے تو نہیں

افتخار راغبٓ

یہ اجتناب مرے اضطرار سے تو نہیں

گریز پائی عدم اعتبار سے تو نہیں

درختِ وقت سے اپنے لیے چُرا کچھ برگ

مفر کبھی بھی غمِ روزگار سے تو نہیں

پگھل نہ جائے کہیں یوں ہی برف مہلت کی

میں تھکنے والا ترے انتظار سے تو نہیں

تمھاری طرح ہی ضد باندھنے لگا ہے دل

بگڑ رہا یہ تمھارے دُلار سے تو نہیں

کریں شمار کہ بخشا ہے آپ نے کیا کیا

کوئی شمار ہمارے شمار سے تو نہیں

زمیں کی طرح ہوں میں بھی اے آفتابِ حسن

نکلنے والا میں اپنے مدار سے تو نہیں

یہ کیا کہ بادِ مخالف میں اب نہیں وہ زور

بھٹک گیا میں تری رہ گزار سے تو نہیں

اُکھڑنے لگتی ہے کیوں سانس ہجر میں راغبٓ

بحال تارِ نفس بوے یار سے تو نہیں

تبصرے بند ہیں۔