یہ اجتناب مرے اضطرار سے تو نہیں
افتخار راغبٓ
یہ اجتناب مرے اضطرار سے تو نہیں
گریز پائی عدم اعتبار سے تو نہیں
…
درختِ وقت سے اپنے لیے چُرا کچھ برگ
مفر کبھی بھی غمِ روزگار سے تو نہیں
…
پگھل نہ جائے کہیں یوں ہی برف مہلت کی
میں تھکنے والا ترے انتظار سے تو نہیں
…
تمھاری طرح ہی ضد باندھنے لگا ہے دل
بگڑ رہا یہ تمھارے دُلار سے تو نہیں
…
کریں شمار کہ بخشا ہے آپ نے کیا کیا
کوئی شمار ہمارے شمار سے تو نہیں
…
زمیں کی طرح ہوں میں بھی اے آفتابِ حسن
نکلنے والا میں اپنے مدار سے تو نہیں
…
یہ کیا کہ بادِ مخالف میں اب نہیں وہ زور
بھٹک گیا میں تری رہ گزار سے تو نہیں
…
اُکھڑنے لگتی ہے کیوں سانس ہجر میں راغبٓ
بحال تارِ نفس بوے یار سے تو نہیں
تبصرے بند ہیں۔