یہ امت، امت دعوت ہے!

محمد صابر حسین ندوی

 

 خدا ئے لم یزل کا دست قدرت تو؛زباں تو ہے

 یقیں پیدا کر اے غافل کہ؛ مغلوصب گمان تو ہے

چھٹی صدی مسیحی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے،انسا نیت کی ضلا لت و جہا لت،،وحشیا نہ و ظالمانہ اور جابرانہ نظام حیات، اور اخلاق کی پستی و گراوٹ کے درمیان ؛انسانیت کا محسن و خیرخواں، درد کا درما و مدا اور حیات انسا نی کا آب شیرواں لیکر افق انسانی پر پورے آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا، اور انتھک محنت و کاوش، تضر ع و ابتھال، خوش اخلاقی و خوش مزاجی، خدا پرستی اور انسان دوستی کے ذریعہ نوع انسانی کی کا یا پلٹ دی، اسکی دعوت و کد کا بغل بحر و بر، انسا ن وجن، خشکی و تری میں بج اٹھا،تن مردہ میں تازگی، تن آسانی میں چستی اور سرد رگوں میں حرارت پیدا کردی، اور انسانیت کو انسانوں کے خیرالقرون کا مجموعہ اور وہ عطر بے بہا دیا جس نے عالم چہار دانگ میں شمع سے شمع روشن اور پیغمبرانہ تعلیم و حکمت کی کرنوں کو ہر کچے پکے گھروں، چوپالوں اور کھلیا نوں میں، لوگوں کی خلوتوں و جلوتوں میں بکھیرنے لگے ؛اسی صفت کو اقبال نے شاعرانہ زبان میں یوں ادا کیا ہے:

مئے توحید کو لیکر صفت جام پھرے ہے

 اسی مئے توحید اور ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس، تا مرون با لمعروف و تنھون عن المنکر‘‘کے درس کا نتیجہ تھا کہ اطراف عالم کا بندہ خمور خدائی سے نیاز مندی خدا اور پرستی انسانی سے دوستی انسانی میں تبدیل ہوتا گیا اور نسل درنسل مئے توحید کا یہ کا سئہ جام ہاتھوں ہاتھ منتقل ہوتا گیا، اور انسانیت کی گاڑی صحیح پٹری و رخ پر چلتی رہی، اسی باعث انسانی خاندان کے ہر فرد کو اس کا صحیح مقام عطا ہوا اور انسانی معاشرہ ایک بے خار گلد ستہ بنا جس کا ہر پھو اور ہر پتی اس کے لئے با عث زینت ہے۔

واقعہ یہ ہیکہ جب عالم انسانی پر روحانیت و للہیت کا غلبہ ہوا اور اس سلسلہ میں جن لوگوں پر استغراق طاری ہوا اور مغلوب الحال ہوئے تو انہوں نے اللہ کے سوا ہر شئے کے وجود کی نفی کی اور غلبہ حال میں ’’لا موجود الا اللہ ‘‘کا نعرہ بلند کیا، لیکن چونکہ عمومی بنی آدم بالخصوص یورپ کے باشندگان اور ان کے مفکرین پر ما دیت کا غلبہ تھا، جسکی وجہ سے ما فوق العقل و روحانیت، اور نورانیت و خشیت کا سرے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ اس سے دست و گریباں ہونے اور امت کو گمراہی و بے راہ روی کے در پہ کر نے میں ’’زہر میں بجھا ئی تلوار ‘‘ہوگئے، اور اسکی مخالفت و ضد کو پیدائشی حق سمجھ بیٹھے، نت نئے پرو پیگنڈے، سازشیں اور منصوبات تیار کرنے لگے، اولیں ادوار میں میدان جنگ کی زینت بنے اور قتل و خون ریزی میں نئے نئے عبارتیں نقش کیں، انہیں نقوش میں صدی کی سب سے طویل و دیر پا اور پر خطر جنگ شامل ہے،جسے زمانے صہیونی جنگcruceed war کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جس کے ذریعہ اسلام کے بہتے سیل رواں کو روکنے اور ایمان افروز باد بہاری کو مسموم و گرد میں بدلنے کی سعی لاحاصل کی،لیکن جب میدان حرب میں شکستی و خوردگی نے جسموں کو چور چور، ملکوں کو تار تار اور تہذیبوں کو پاش پاش کر دیا ؛تو فطری خباثت و شیطانی نمائندگی نے ذہن وفکر کے دریچوں سے آبلے و شعلے برسانے شروع کئے اور پاک و مزکی نفوس کو شکوک و شبہات، تردد وخیالات کی نئی نئی راہیں عنایت کیں اور ہر قباحت و خباثت کو پورے شرنگار و آراستہ و پیراستہ کرکے پیش کیا، ازواج مطہرات،مشاجرات صحابہ،اور تاریخ اسلام کے اہم واقعات میں نکات اور فی نکالنے اورعندالناس اسے مجروح کرنے کی کوشش کی، بلکہ اقتصادی پہلو کے علا وہ ہر چیز کی نفی پر اکسایا اور ’’لا موجودالا البطن والمعدہ‘‘کی آواز بلند کی،جہاں ایک طرف صوفی انسان کو سایۂ ربانی سمجھا جاتا تھا اور بعض مغلوب الحال ’’اناالحق‘‘پکار اٹھتے تھے مغرب کے مادہ(یا معدہ)پرست انسانوں کو صرف ایک وجود حیوانی کا درس دینے لگے اور آج ہر طرف سے ’’انالحیوان ‘‘کی صدائیں آرہی ہیں، تو کہیں بلا تمیز ہر چیز پر قدامت کا قد غن لگا کر ’’ھل من جدید، ھل من جدید‘‘کی چیخ و پکار نے واویلہ مچا رکھا ہے، خواہ یورپ ہو یا امریکہ، عالم عرب ہوں یا افریقہ و ایشیا ہرجگہ کی فضا میں فطرت کی مخالفت، حقوق کی پا ما لی اور شکم پرستی کی صدائیں باز گشت کر رہی ہیں اور انسا نیت پھر سے اسی دوراہے پر معلوم ہوتی ہے جسکی تصویر قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے یوں کھینچی ہے، اس سے بہتر کوئی بڑے سے بڑا مصور، ادیب و مؤرخ تصویر نہیں کھینچ سکتا، وہ فر ماتا ہے :۔’’واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعدآء فأ لف بین قلوبکم فأصبحتم بنعمتہ اخوانا، وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فأ نقذکم منھا‘‘(اور خدا اس مہر بانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہا رے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اسکی مہر بانی سے بھا ئی بھا ئی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنا رے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نیتم کو اس سے بچا لیا ’آل عمران:۳،۱)۔

 یہ سب کچھ ہے مگر اس شب دیجوری میں اگر کوئی صاحب ید بیضاء، جاہلیت کا حریف، دین الہی کا علمبردار اور دنیا کا محتسب ہے تو وہ یہی امت دعوت (مسلمان ) ہے، جو کہیں دور سے امید کی مدھم شعاع لئے نظر آتا ہے، اسی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان بدر میں فر مایا تھا :۔اللھم ان تھلک ھذہ العصابۃ لا تعبد (اے اللہ اگر تو ا س جماعت کو ہلاک کر دے گا تو پہرتیری عبادت نہ کی جا ئے گی )،مسالمنوں کے سارے نقائص کے با وجود یہ حقیقت اب بھی اسی طرح با قی ہے، مغربی اور صہیو نی طاقتیں اور اسی کا پر تو ہندو ازم جس نقشہ پر آج دنیا کو چلا رہی ہیں اس نقشہ کے خلاف اگر کوئی نقشہ ہے تو صرف اور صرف مسلمانوں کے پاس ہے، اور انہیں کے خاکستر میں وہ چنگا ری دبی ہوئی ہے جو کسی نہ کسی دن بھڑک کر مغربیت اور فسطائی خرمن کو جلا کر خاک کر دے گی، اسی حقیقت کا اظہار شیا طین کی مجلس کے صدر نشین ’’ابلیس‘‘نے مجلس شوری میں کیا ہے ؛      ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیدای سے میں،   ہے حقیقت جس کے دین کی احتساب کا ئنات

حقیقت یہ ہیکہ یہ وہ مسلمان ہے جواپنی قوت ایمانی اور شہادت کی حرص و طمع میں ھفت اقلیم سر کرنے کا مادہ رکھتے ہوں، ار ان کے دلوں میں جنت کا شوق چٹکیا ں لیتا ہو، دنیا کے فا نی مال و متا ع کی بے وقعتی، مصائب و آلام، تکا لیف و مشقت، ھنسی و خوشی بر داشت کرتے ہوں درحقیقت ایک خدا نا شناس منکر آخرت کے مقاببے میں مؤ من کا یہی امتیاز ہے اور اسی بنا پر اس سے یہ توقع کی گئی ہے کہ اس میں برداشت کی طاقت زیا دہ ہو، قرآن کہتا ہے :،

 ’’ولا تھنوا فی ابتغاء القوم، ان تکونوا تألمون فانھم یألمون کما تألمون وتر جون من اللہ ما لا یر جون ‘‘(اور مخالف قوم کے تعاقب میں پمت نہ ہارو، اگر تمہیں دکھ پہونچتا ہے تو ان کو بھی دکھ پہونچتا ہے جیسے تمکو پہونچتا ہے اور تم اللہ سے ایسی ایسی چیزوں کی امید رکھتے ہو جن کی وہ امید نہیں رکھتے۔ النساء:۱۰۴)

’’اس لئے ضرورت اس بات کی ہیکہ اس امت دعوت میں یہ مبارک کشمکش پھر پیدا کی جا ئے اور اس امت کا سکون برہم کیا جا ئے، اسکو اپنی ذات اور اپنے مسائل کی فکر کے بجا ئے (جو جا ہلی قومو کا شعار ہے)انسا نیت کا درد و غم، ھدایت و رحمت کی فکر اورآخرت و محاسۂ الہی کا خطرہ پیدا ہو، اس امت کی خیر کاہی اس میں نہیں ہیکہ اس لئے سکون و اطمینا ن کی دعاء کی جائے بلکہ اس میں ہیکہ درد و اظراب کی دعاء کی جائے اور برملا کہا جائے

 خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے  

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اظراب نہیں

یقینا یہی دردو اضطرابی گم گشتوں کو راھ یاب کر سکتی ہے اور پھر سے انسانیت کے گہوارہ کو گل و گلزار کر سکتی ہے، سسکتی بلکتی انسانیت کو سیراب و شکم سیر کرسکتی ہے، بے جاں و بے آب وگیاں میں جذبۂ ایمانی کے ابر باراں سے سر سبز وشاداب کر سکتی ہے، ظالم و جابر کا سر نگوں اور حق و عدل کا سر فخر سے بلند کر سکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔