یہ بھی ایذا رسانی ہے!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

     ماہ ِ ربیع الاول کی آمد آمد ہے۔ جس میں سرورکائنات ﷺ دنیا میں تشریف لائے اور آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ اس کی مناسبت سے ہر کوئی دینی جلسے اور اجتماعات منعقد کرتے ہیں، سیرت رسول ﷺ سے آگہی کے لئے اور آپ کی عقیدت و محبت میں ربیع الاول میںان کا بڑا اہتمام میں کیا جاتا ہے، ولادت نبویﷺ اور آپﷺ کی آمد کے ذکر خیر کے چرچے اور تذکرے ہوتے ہیں، اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ہمارے لاتعداد جلسے اور اجتماعات، مقالے اور کتابیں، تقاریر اور مواعظ سب مل کر بھی اس موضوع کا حق ادا نہیں کر سکتے، یہ تو ہماری سعادت اور خوش بختی ہے کہ ہمیں ان کے ذکر خیر کا موقع کا نصیب ہوجائے۔ لیکن اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ آپﷺ جو دین لے کر مبعوث ہوئے وہ دین ِ رحمت ہے، جس میں ساری انسانیت کے لئے امن وعافیت کا پیغام ہے، اسلام کے سایہ میں نہ صرف انسانوں کو آرام و سکون نصیب ہوا بلکہ جانور بھی اسلام کے سایہ میں ہمیشہ کے لئے محفو ظ و مامون ہوگئے، کیوں کہ اسلام نے پورے اہتمام کے ساتھ ہر طرح کی ایذا رسانی پر نہ صرف پابندی لگا دی بلکہ کسی کوبھی تکلیف پہونچانا حرام قرار دیا، اور کمالِ ایمان کی علامت یہ بتائی کہ زبان اور ہاتھ کی ایذا رسانی سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ۔ (بخاری:حدیث۹)

نبی کریم ﷺ نے اپنے عمل سے اس کا خوب اہتمام بھی کر کے دکھایا کہ کسی انسان و جاندار کو بھی تکلیف نہ پہونچے، نبی کریم ﷺ جب تہجد کی نماز کے لئے اٹھتے تو اس آہستگی کے ساتھ کہ قریب سونے والوں کی نیند بھی متاثر نہیں ہوتی۔ یہ در اصل اسلام کا امتیا ز ہے کہ اس نے مخلوق ِ خدا کو ہر طرح کی تکلیف وایذا سے محفوظ کیا، اور جب تک مسلمان ان تعلیمات پر عمل پیرا رہے ہیںتو دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ گلیوں سے رات کی تنہا ئیوں میں گذرتے تو جوتوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے تاکہ اس کی آواز کسی آرام کر نے والے کے لئے خلل انداز نہ ہو اور جب اسلام کی تعلیمات کو فراموش کیا جانے کا دور آیا تو پھر یہ احساس ہی ختم ہو گیا کہ ہمارا کونسا عمل کتنوں کے لئے ایذا و تکلیف کا سبب بنا ہو ا ہے اور کتنے بندگانِ خدا ہمارے کاموں سے پریشان ہیں۔

     ہمارے معاشرہ میں مختلف قسم کی ایذا رسانیاں پائی جاتی ہیں، کچھ ماڈرن قسم کی ہیں اور کسی کو جدید لبادہ پہنا دیا گیا ہے، ان مختلف قسم کی ایذارسانیوں سے ایک سڑکوں، گلیوں اور چوراہوں پر دینی اجتماعا ت منعقد کر کے لاؤڈ اسپیکر کا غیر ضروری استعمال ہے، ڈھڑلے سے پروگراموں کو جابجا منعقد کر کے اتنی دور تک اور دیر تک لاؤڈ اسپیکروںکا انتظام ہو تا ہے کہ رات بھر لوگوں کی نیندیں حرام، بیماروں کو پریشانی لاحق اور ذکر و تلاوت اور عبادت میں مشغول افراد کوخلل واقع ہوجا تا ہے، افسوس اس پر کہ یہ ساری کاروائی دینی عنوان پر اور خاص کر سرور کائنات، محسن انسانیت ﷺ کا نام ِنامی اسم گرامی لے کر کی جاتی ہے، جو نبی ﷺ انسانوں کو راحت پہونچانے اور رحمت و ارفت کا عام پیغام لے کر آئے، جن کی نظر میں کسی انسان کو بلکہ جانور کو بھی بے جا تکلیف پہونچا نا سخت ناگوار گزرتا اور جو ہر ایک کی راحت رسانی کے لئے ہر دم کوشاں رہتے اس محسن نبی کا نام لے کر سڑکوں پر، نالیوں کے کنارے، کوڑا کر کٹ کے قریب اور گلی کوچوں میںاجتماعا ت منعقد کر نے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے، ربیع الاول کے مبارک اور مسعود مہینہ کی آمد پر تو ایک پے درپے سلسلہ شروع ہو جا تا ہے، اس پر طرفہ تماشا یہ کہ گویا یہ عین ایمان اور اصل محبت ہے لہذا ہر گلی اور ہر چوراہا اس کا ثبوت بن جاتا ہے چا ہے اس کے ذریعہ بے شمار بندگان ِ خدا کو تکلیف ہو، بیماروںکو حرج ہو، اس سے کوئی سروکار نہیں، جلسہ رات میں عشاء بعد ہونے والا ہوتا ہے لیکن صبح ہی سے راستوں کو بندکردیاجاتا ہے۔ یہ تمام اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی دلیل ہے کیوںکہ جس کو دین اسلام کی تعلیمات معلوم ہو ں گی اور جو پیارے آقا ﷺ کے اسوہ و عمل کو جانتا ہوگا تو وہ اس طرح کی حرکت سے ضرور گریز کرتااور کردار و عمل سے سرور دوعالم ﷺ کاتعار ف اور آپ ﷺ کے احسانات سے دنیا کو واقف کراتا۔ تو آئیے اس سلسلہ میں اسلامی ہدایا ت ملاحظہ کر تے ہیں تاکہ ہمارا کوئی عمل بھی نبی کریم ﷺ کے تعلیمات کے خلاف نہ ہواور ہم انسانوں کو تکلیف دینے والے نہ بنیں۔

      ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ رات میں گشت فرمارہے تھے شیخین حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروقؓ عبادت میں مشغول تھے، حضرت ابوبکر ؓ کی کی آہستہ تھی اور حضرت عمر ؓ کی آواز بلند توآپ ؓ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ تم اپنی آواز کو تھوڑا پست کر لو۔ (مشکوۃ:ص۱۰۷)ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں ایک مقرر حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ کے سامنے زور زور سے تقریر کررہا تھا تو آپ ؓ نے حضرت عمر ؓ کے پاس شکایت بھیجی کہ اس کی بلند آواز سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے اور کسی کی آواز بھی نہیں سنائی دے رہی، امیر المؤمنین حضرت عمرؓ نے پہلے اس کی تنبیہ فرمائی جب وہ اس سے باز نہیں آیا تو پھر اس کو سزا دی۔ ( تاریخ المدینہ لابن شبہ :۱/۱۵ )

      حضرت عائشہ ؓ نے بیان و تقریر کے کچھ آدا ب ذکر فرمائیں ہیں کہ:اپنی آواز کو انہی لوگوں تک محدود رکھو جوتمہاری مجلس میں بیٹھے ہیں، اور انہیں بھی اسی وقت تک دین کی باتیں سناؤ جب تک ان کے چہرہ تمہاری طرف متوجہ ہوں، جب وہ چہرہ پھیرلیں توتم بھی رک جاؤ۔ (مجمع الزوائدبحوالہ:کسی کو تکلیف نہ دیجئے:۷۶)علامہ سمعانی ؒ نے حضرت عطاؒ کاقول نقل فرمایا ہے کہ:عالم کو چا ہیے کہ اس کی آواز اس کی اپنی مجلس سے آگے نہ بڑھے۔ ( آداب الاملا ء و الاستملاء:۲۷۸)شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں کہ : انہی احادیث و آثار کی روشنی میں تمام فقہائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ تہجد کی نماز میں اتنی بلند آواز سے تلاوت کرنا جس سے کسی کی نیند خراب ہو، ہرگز جائز نہیں۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ ا گر کوئی شخص اپنے گھر کی چھت پر بلند آواز سے تلاوت کرے جبکہ لوگ سورہے ہوں تو تلاوت کرنے والا گنہ گار ہے۔ ( ذکر و فکر:۲۸)

     یہ ہے اسلام کا مزاج کہ وہ تلاوت اور تہجد کے موقع پر بھی اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اس کی تلاوت اور عبادت سے کسی کو تکلیف نہ ہو اور کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ اسلام کا اور پیغمبر اسلام کا نام لے کر وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جو اسلام کی تعلیمات اور نبی کریم ﷺ کو اپنا رہبر ورہنما ماننے والا کبھی نہیں کر سکتا۔ ایک طرف تو مسلمان اپنی شادیوں میں باجوں اور گانوں کی دھوم دھام سے پورے محلہ کو اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور ہر ایک کے لئے اذیت و تکلیف کا سبب بنتے ہیں، رات دیر گئے تک غیر ضروری شور شرابہ اور چیخ پکار سے ناجانے کتنوں کی آہیں اور کراہیں مفت مول لیتے ہیں، دوسری طرف دینی جلسوں کا نام لے کر، اور ولادت ِنبویﷺ کا عنوان دے کر تعلیمات ِاسلام کی خلاف ورزی کی جا تی ہے، آپ ﷺ کی سنتیں پامال ہوتی ہیں، نمازیں غارت ہو تی ہیں، حقوق تلف ہو تے ہیں، مسلمان اور غیر مسلمان دردناک اذیت سے دوچا ر ہوتے ہیںلیکن کسی کو بھی اس کا احساس ہی نہیں ہو تا۔ اور آج کل تو دینی جلسے زیادہ تر دوسری جماعتوں پر بے جا تنقید اور تہمتوں کی نظر ہو چکے ہیں، دل کھول سیر ت کے بیانر تلے سیرت ِرسولﷺ کو فراموش کر کے آپ ﷺ کے اخلاق کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ اس کی اصلاح نہایت ضروری ہے اور عوا م تو بعض اوقات ناواقفیت اور لاعلمی کی وجہ سے اس طرح کے پروگرام طے کردیتے ہیںلیکن اس کی بڑی ذمہ داری ان حضرات پر عائد ہوتی ہے جو دینی نسبت رکھتے ہیں اوراہل ِ علم میں جن کا شمار ہوتا ہے، اور جو اس کی عظمت کو جانتے ہیں۔

اس لئے ضرورت ہے کہ ہمارے دینی اجتماعا ت بھی اسلام کا پیغام پھیلانے کاذریعہ بنیںاورسیرت رسولﷺ کا آفاقی پیام انسانوں تک پہونچ سکے اور ہر اس عمل اور کام سے اجتناب ضروری ہے جو پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات کو بدنام کر نے سبب ہو۔ بلاشبہ یہ بھی ایک دینی تقاضا ہے کہ آپ ﷺکے پیغام کواور آپﷺ کے مقصدِ بعثت کو دنیاتک پہونچا یا جا ئے اور مختلف جلسوں اور اجتماعات کے ذریعہ اس کو عام کیا جائے لیکن اس کے لئے طریقہ بھی وہی ہو نا ضروری ہے جس سے آپﷺکی تعلیمات پر کسی قسم کی بھی زد نہ پڑے اور ہمارے کام غیر وں کو اسلام سے بد ظن کرنے سبب نہ ہو۔ اس کے لئے مناسب ہے کہ مساجد میں یا پھر وسیع ہالوں میں اس کا انتظام کیاجائے اس میں ایک پہلو یہ بھی ہوگا اس سے ہمارے سیرت کے جلسوں کی بے توقیری بھی نہیں ہوگی، اور موضوع کی شان کا پاس و لحاظ بھی ہوگا۔

  نقش ِ قدم نبیؐ کے ہیں جنت کے راستے

   اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

تبصرے بند ہیں۔