یہ عبادت بھی کیا عبادت ہے
احمد نثارؔ
جو بھی دل صاحبِ صداقت ہے
اْس سے ملنا بھی اِک عبادت ہے
۔
مخملی فرش، مرمری مسجد
یہ عبادت بھی کیا عبادت ہے!
۔
ہر سیاست کے پیچھے مولانا
یہ عبادت ہے یا سیاست ہے؟
۔
میں تو محروم میرے حق سے ہوں
کب خوشامد کی مجھ کو عادت ہے!
۔
میرا سچ بولنا گراں ٹھہرا
کیا صداقت یہاں بغاوت ہے؟
۔
دل یہ ایمان سے منور ہے
یہ خدا کی مِرے عنایت ہے
۔
کیا ہوا آج کل کے انساں کو
شرم ہے اور نہ ندامت ہے
۔
میری خاموشیوں پہ مت جانا
خامشی بھی تو اک بغاوت ہے
۔
سْن! یہ رسوائیاں جہاں بھر کی
تیرے اعمال کی کرامت ہے
۔
بے زبانوں کی جان لینا ہی
آج کل جاہلوں کی عادت ہے
۔
قتلِ معصوم کر رہا ہے مگر
سوچتا ہے کہ یہ شجاعت ہے
۔
اب کہیں جا کے ہوش آیا ہے
عشق کرنا بھی اک حماقت ہے
۔
ہم نے اجداد سے سنا ہے نثارؔ
بے عمل علم ہی جہالت ہے
تبصرے بند ہیں۔