یہ نفرتوں کے پجاری کی راجدھانی رہی

احمد نثارؔ

جو حال دل کا سنایا تو ہم دیوانے لگے

ہمارے بول سبھی آپ کو فسانے لگے

کھلی فضا میں چہکنے کا ڈھنگ بھول گئے

قفس میں کون پرندے یہ گنگنانے لگے

چمن کی سیر کہاں ، اور کہاں نصیب مِرا

ہیں سارے اُلّو یہاں اپنا گھر بسانے لگے

تمہارے عشق کا جذبہ بھی کھوکھلا نکلا

بس اک قدم ہی چلے اور لڑکھڑانے لگے

چہکتے مرغ چمن، اپنا کام کر ہی گئے

چمن کے پیڑ سبھی بانسری بجانے لگے

یہ نفرتوں کے پجاری کی راجدھانی رہی

محبتوں کے ترانے کہاں سنانے لگے

نہ کوششیں ہیں یہاں اور نا ہی جنبشِ دل

یہ کیوں چراغ امیدوں کے ہیں بجھانے لگے

وہاں تو کویل و بلبل کاکام ہی نہ رہا

جہاں پہ زاغ و چچوندر ہوں گیت گانے لگے

میں میہمان رہا چند دن قیام مِرا

مجھے کیوں بارہا تم آئنہ دکھانے لگے

یہ کربِ زیست نہیں ہے تو اور کیا ہے نثارؔ

نئے ہیں زخم مگر حادثے پرانے لگے

تبصرے بند ہیں۔