مسلم طلباءتنظیمیں:وقت کی ضرورت اور کرنے کے کام

ابو زنیرہ احمد

ایک طویل  فکری زوال کی وجہ سے آج مسلمانوں کی حالت قابل رحم ہوچکی ہیں۔آج اس ملت کے نوجوان کو ہر پرجوش مقرر اپنا قائد لگتا ھے۔اس سوشل میڈیا کے دور نے ہمیں اپنے حقیقی قائدین سے دور اور خود ساختہ قائدین کے بہت قریب کردیا ھے ۔شہلا رشید اور کنہیا کمار ہمارے محبوب ہیں انکی چند تقریروں سے ہم اتنے متاثر ہیں کہ ہماری عقلیں کام نہیں کررہی۔لیکن ہمارے نوجوان اس بات سے بیخبر ہیں کہ یہ دونوں افراد جن تنظیموں سے وابسطہ ہیں وہ تنظیمیں اسلامی دشمنی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی ۔یہ وہی لوگ ہیں جو ہم جنس پرستی کی کھل کر حمایت کرتے ہیں ۔ہاں ین کے نزدیک لیونگ ریلشن شپ میں کوئی برائی نہیں ۔ان کہ نزدیک محمد عربی صل علیٰ وعلیہ و سلم بھی تو ایک انسان تھے وہ تنقید سے ماوراء کیوں ہوں۔

لیکن ہمارے آج کے مسلم طلباء کو ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ تو یہی سوچتے ہیں کہ کیا یہی غنیمت نہیں کہ یہ ہمارے حقوق کے لیے لڑتے تو ہیں۔ ہماری حفاظت کی باتیں تو کرتے ہیں ۔کمیونسٹ ہی سہی یہ ہمارے ریزرویشن کی بات تو کرتے ہیں -کچھ حد تک ان طلباء کی یہ باتیں صحیح بھی ہیں کہ ہمارے پاس اول تو کوئی مظبوط طلباء تنظیم نہیں جو ہمارے نوجوانوں کے مسائل کو حل کریں اور ایک دو جو تنظیمیں ہیں بھی انکی آواز پر کسی نے کان نہیں دھرنا۔اس وقت مسلم طلباء کو لال سلام سے بچانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔کیا کبھی ہم لوگوں نے غور کیا کے میڈیا ان سرخوں کو اتنا کوریج کیوں دے رہی ھے کیا یہ مسلم نوجوانوں کو الحاد کی طرف لیجانی کی نئی تحریک تو نہیں کچھ سالوں پہلے ہی تو ہم نے ان سرخوں سے جان چھوڑائی تھی کے پھر یہ ہم میں آدھمکے۔یہ تو صرف تصویر کا ایک رخ ھے۔

تصویر کا دوسرا رخ تو اور بھیانک اور خطرناک ہے۔یہ خطرہ زعفرانیوں کی بڑتی قوت کا ھے جو آئیے دن کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایک نیا تماشا کر رہے ہیں ۔کبھی برقعہ پوش لڑکیوں پر حملے کبھی وندے ماترم کی صدائیں ۔کبھی یوگا کا ڈرامہ تو کبھی سرسواتی وندانا کی آوازیں -ان زعفرانی طلباء تنظیموں کی تو اب اتنی ہمت ھوگئی ھے کہ دن دھاڑے اب یہ اقلیتی طبقہ کے طلباء کو اغوا کروانے لگیں ہیں۔

مسلم طلباء کے لیے اب تو مامعلہ بڑا سنگین ھے کہ آگے سرخوں کا کنواں ہے اور پیچھے زعفرانیوں کی کھائی۔ایسے میں ہمیں خود ہماری طلباء تنظیم کی ضرورت ھے جو ہمارے مسلم نوجوانوں کو ہر قدم پر رہنمائی کرے۔

یہ تو غیروں کی باتیں تھیں کچھ ہم اپنے بھی غریبانوں میں جھانکے تبلیغی جماعت،جمیعت اہلحدیث ،بریلوی مکاتب فکر یہ سب ملکی سطح کی جماعتیں اور تنظمیں ہیں لیکن ان کے پاس طلباء کے لیے کوئی خاص لائحہ عمل نہیں ہے ۔میں انکی دینی خدمات کا منکر نہیں لیکن طلباء کے کچھ اپنے مسائل ہیں جن کو حل کرنا بہت ضروری ھے ورنہ یہ معصوم ذہن ان تحریکوں کے ھاتھ لگجائیں گے جو ان کو اسلام ہی سے دور نا کردے۔ہماری ساری جماعتیں ارکان اسلام پر تو بات کرلیتی ہے لیکن جدید افکار سے بحث نہیں کرتی ۔وہ اپنے اجتماعت میں جدید اشتراکیت اور تحقیق کہ نام پر مستشرقین کو موضوع نہیں بناتی ۔اور یہی وجہ کے کئی مسلم نوجوان اسلام کو صرف مسجد تک محدود سمجھنے لگتے ہیں ۔

گن کر صرف دومسلم طلباء تنظیم ہمیں ملکی سطح پر نظر آتی ایک آیس آئ آو اور دوسری کم معروف اور جدید ایف آئ آو وائ (یہ کئی ریاستی تنظیموں کی اجتماعیت ہے)۔اول الذکر کا تعلق جماعت اسلامی ہند سے ہے جب کے دوسری قربت وحدت اسلامی سے ہے۔ہم اس وقت ایس آئ آؤ کی بات کرلیں کے یہ زیادہ مشہور اور زیادہ منظم ہے ۔آیس آئ آؤ کو بھی اکثر مسلم طلباء نہیں جانتے خاص کر انگلش اسکولوں کے طلباء تو اسکے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے ۔کالجوں میں بھی اسکا ایک محدود سرکل ہے ۔اسکی ایک لڑکیوں کی تنظیم بھی ہے جو جی آئ آؤ کے نام سے کام کرتی ہے ۔اب آپ موازنہ کیجیے ایک طرف آے بی وی پی اور اسکے ساتھ درگا واہنی ،دوسری طرف کمونیسٹ تحریکیں جن کے لاکھوں کارکن ہیں سوشل میڈیا پر فعال ۔اور ایک طرف ہماری طلباء تنظمیں جو خود اپنی قوم میں تعرف کے محتاج ۔

ہمیں اگر باطل افکار سے اپنے نوجوانوں کو دور رکھنا ھے ۔اپنے ںوجوانوں کی کمپس میں بھی حفاظت کرنی ہیں تو ہمیں ایک مظبوط طلباء تنظیم کی ضرورت ھے جو ہمارے نوجوانوں کی اسلامی ۔فکری اور عصری تربیت کر سکے ۔ہیمں ایسی تینظیم کی ضرورت ھے جو ہمارے نوجوانوں میں صحبت صالح کا رجحان پیدا کرسکے ۔

ساتھ ہی ساتھ میری التجا موجودہ مسلم طلباء تنظیموں سے بھی ہے کہ یہ دور آفس میں بیٹھ کر کام کرنے نہیں ۔لوگ اب صرف اپکے پمفلٹ پڑھ کر آپکی طرف مائل نہیں ہوں گے ۔اب آپکو مسجدوں میں اپنا حلقہ وسیع کرنا ہوگا ۔جلسوں سے زیادہ انفرادی دعوت پر محنت کرنی ہوگی اسلام کی دعوت کو آفس سے نکال کر کمپس اور سوشل میڈیا میں لانا ہوگا۔علماء سے جو آپکی دور پیدا ہوگئی ہے اسے ختم کرنا ھوگا ۔لوگ آپکے لٹریچر سے زیادہ آپکی ذات سے متائثر ہوتے ہیں آپکو خود کو بھی اب باشرع کرنا ہوگا ۔بیشک اسلام صرف داڑھی میں نہیں لیکن داڑھی اسلامی شعائر میں ہے اس بات کو اب آپکو سجھنا ہوگا ۔تربیت کے ساتھ تزکیہ بھی لازم ھے سو آپکو آپنے اندر مربیوں کو پیدا کرنا ہوگا۔

علامہ اقبال کے اس مصرعے پر یہ بات ختم کرتا ہوں ۔

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے۔

1 تبصرہ
  1. Syed Shah Wayez Ahmed کہتے ہیں

    اسلیے ہمیں ایس ائی او کو مضبوط کرنا ہوگاـ دوسری تنطیمں ہوسکتی ہیں لیکن ایس ائی او نیشنل لیول کی ہے اور اسکی امیج بہت اچھی ہے.

تبصرے بند ہیں۔