یہ ہندوستانی عوام کو کیا ہوگیاہے؟

تبسم فاطمہ
       ہم اس بات سے انجان ہیں کہ ایک بڑی دنیا اس وقت ہماری طرف دیکھ رہی ہے
نوٹ بندی کے خلاف ناراضگی صرف ہندوستان میں نہیں ہے۔ ابھی حال میں نوٹ بندی کو لے کر روسی صدر پتین کو بھی غصہ آگیا اور دھمکی دے ڈالی کہ وہ اس کا بدلہ لے کر رہیں گے۔ یہ ناراضگی صرف روس کو نہیں ہے۔ ایسے کئی ممالک ہیں جو نوٹ بند ی کے خلاف اپنا غصہ ظاہر کرچکے ہیں۔ظاہر ہے ہندوستانی نوٹ بندی کا اثر فورین ایکسچینج پر بھی پڑا ہے۔ ماہر اقتصادیات کی نظر وں میں ابھی یہ پورا معاملہ صاف شفاف نہیں ہے۔ خود ہندوستان میں کئی ماہر اقتصادیات مخالفت کا راستہ اپنا چکے ہیں۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ کانگریس کی حکومت میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کا تعلق بھی اقتصادیات سے تھا۔ اور چدمبرم بھی اس معاملے میں ماہر مانے جاتے تھے۔ مگر جب کانگریس میں نوٹ بندی کو لے کر صرف چے میگوئیاں شروع ہوئی تھیں، اس وقت بی جے پی اپوزیشن میں تھی۔ لیکن بی جے پی کو نوٹ بندی کا راگ پسند نہیں آیا بی جے پی مخالفت میں آگئی ۔ میناکشی لیکھی کا اس وقت کا ریکارڈیڈ ویڈیو بھی سامنے آگیا جہاں وہ نوٹ بندی کو لے کر کانگریس پر خاصہ ناراض نظر آرہی تھیں۔ پھر اچانک ایسا کیسے ہوگیا کہ وزیر اعظم مودی نے نوٹ بندی کا اعلان بھی کیا۔ اور بیٹھے بٹھائے کے آرام سے میڈیا کے سہارے، نوٹ بندی کے خلاف جانے والی اپوزیشن کو دیش ورودھی، ثابت کردیا۔( یہ بات مختلف بی جے پی لیڈران کی تقریروں میں بھی سامنے آچکی ہے کہ جو نوٹ بندی کے خلاف ہے در اصل وہ ملک کے خلاف ہے۔) ایک خاتون بی جے پی لیڈر تو حد سے تجاوز کرگئیں۔ انہوں نے نوٹ بندی کے دوران قطار میں مرنے والوں پر الزام لگایا کہ یہ سبھی بلیک میلر تھے۔ سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہی ہے کہ حکومت نے وجے مالیہ سے لے کر تمام کالا دھن رکھنے والوں کے داغ دھودےئے اور جن کے لباس پر داغ نہیں تھے،ان کو آرام سے سیاہ دولت کا تاجر بتا دیا۔ اب ذرا اس چھوٹی سی کہانی پر ایک نظر ڈالئے تو کئی دلچسپ مناظر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ لوک سبھا انتحابات سے قبل وزیر اعظم مودی کی تقریر یاد کرلیجئے، جہاں وہ زور زور سے غیر ممالک سے، کالا دھن لانے کی بات کیا کرتے تھے۔ اور یہ کالا دھن اتنا زیادہ تھا کہ وہ ہر ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ رقم تک جمع کرانے کے لئے تیار ہوگئے ۔ہندوستانیوں نے آرام سے اس ’ جملہ‘ پر تب تک بھروسہ کیا جب تک امت شاہ نے ٹی وی پر اپنے ایک انٹر ویو میںیہ صاف نہیں کردیا کہ یہ ’جملہ بازی‘ تھی اور عام طور پر سیاست میں اس طرح کی ’ جملہ بازیاں‘ ہوتی رہتی ہیں۔اس جملہ بازی کے باوجود ہندوستانی عوام کو یقین تھا کہ وزیر اعظم مودی عوام کی بہتری کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ کیونکہ وزیر اعظم کے دعوے کبھی اتنے کھوکھلے نہیں ہوسکتے۔ مگر اس درمیان وزیر اعظ پوری سوجھ بوجھ اور ہوشیاری کے ساتھ اکانومی مینجمنٹ، بزنس مین پروفیٹ، عام آدمی کی حصہ داری اور اقتصادیات سے متعلق ایک ایک امور پر غور کرتے رہے۔ اس سے پہلے کہ عوام کے صبر کا غبارہ پھٹ جاتا، وزیر اعظم نے اپنے فیصلے کی گولی چلاکر اس غبارے کی ہوا نکال دی۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا کہ کالا دھن لانے کی وکالت کرنے والے رام دیو تک کی ہوا نکل گئی۔ اور رام دیو کو مذاق میں یہ کہنا پڑا کہ دراصل بی جے پی میں کنواروں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس لئے ’ لگن‘ اور ’شادی‘ کے مواقع کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ نوٹ بندی کچھ وقت بعد ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔
نوٹ بندی کے فیصلے پر کمزور حزب اختلاف نے حکومت کو پارلیا منٹ سے لے کر سڑکوں تک گھیرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ممتا بنرجی آگے بڑھیں تو کانگریس پیچھے ہٹ گئی۔ راہل گاندھی نے پارلیامنٹ میں ’نوٹ بندی گھوٹالہ‘ کا خلاصہ کرنا چاہا تو سمترا مہاجن نے بولنے پر روک لگا دیا۔ اب راہل کے پاس واقعی کوئی ثبوت ہے تو کانگریس پریس کانفرنس بلاکر بھی اپنی بات کہہ سکتی ہے۔ مزے کی بات یہ کہ من کی بات اور لاکھوں کی بھیڑ میں لگاتار اور گھنٹو ں بولنے والے وزیر اعظم ایک دن پارلیا منٹ کے اجلاس میں گئے بھی تو سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ہاتھ ملاکر واپس چلے گئے۔ پھر بیان دے ڈالا کہ اپوزیشن انہیں بولنے نہیں دے رہی ہے۔
یہ سارا تماشہ اپنی جگہ ہے لیکن اس سے بڑا سوال ہے کہ ہندوستانی عوام کو کیا ہوگیا ہے؟ ہندوستانی عوام کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس وقت ایک بڑی دنیا کی نگاہیں ہماری طرف ہیں۔ اور یہ خاموشی نہ صرف فاشزم کو بڑھاوا دے گی بلکہ عالمی سطح پر بھی ظلم سہنے کی ایک ناکام ترین مثال بن جائے گی۔امت شاہ کے قریبی مہیش شاہ کے پاس سے اربوں کا سیاہ دھن ملتا ہے مگر حزب مخالف کو سوال کرنے نہیں دیا۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلی امور کرن رینجوپر بجلی گھوٹالے کا سنگین الزام لگاجاتا ہے مگر اس طرح کے الزامات کو در گزر کرکے حزب مخالف کی طاقتوں کو کمزور کردیا جاتا ہے۔ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر ہندوستانی میڈیا نے اپنا اعتبار کھودیا ہے۔ میڈیا حزب مخالف کے کسی بھی ایشو کو اٹھانا پسند نہیں کرتی۔ ابھی حال میں ایک مشہور ٹی وی چینل میں کام کرنے والی خاتون نیو ز اینکر کا ایک ویڈیو وائرل ہوا۔ جس میں وہ قطار میں کھڑے لوگوں کی بے بسی کو نظر انداز کرتے ہوئے ’بے بس‘ نظر آرہی ہیں۔ ایسے بھی ویڈیو وائرل ہوئے جہاں قطار میں مخالفت کرنے والوں پر پولیس نے ڈنڈے برسائے۔ وزیر اعظم مودی کی کچھ سبھاؤں میں بھی یہی حال ہوا جہاں مخالفت کرنے والے مرد اور عورتوں کی آواز کو بھی ڈنڈے کے زور پر کچل ڈالاگیا۔
نوٹ بندی کو لے کر اس وقت سارا ہندوستان پریشان ہے لیکن حکومت کے نمائندوں کے ساتھ میڈیا یہ دکھانے میں لگا ہوا ہے کہ عوام میں ہر طرف خوشی کی لہر ہے۔ بینک اور اے ٹی ایم میں پیسہ نہیں ہے۔ ہندوستان کی ایک بڑی آبادی ابھی بھی پی ٹی ام کے بارے میں نہیں جانتی اور نہ سوئپ کارڈ کے استعمال سے واقف ہے۔تماشہ یہ بھی ہوا کہ دو تین سال قبل کی ایک فرضی تصویر کو لے کر وزیر اعظم نے یہ بھی بیان دے ڈالا کہ اب ہندوستان کے فقیر بھی ماشاء اللہ ماڈرن ہوچکے ہیں اور ان کے پاس سوئپ کارڈ کے ساتھ پلاسٹک کارڈ بھی ہوتا ہے۔
اندھے بھکتوں پر، سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقیدوں کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔۔ نوٹ بندی کے بعد تازہ ماحول کا جائزہ لیں تو حکومت کی ہر جگہ، ہر پہلو پر مضبوط گرفت صاف نظر آتی ہے۔ عوام کا رویہ خوفناک حد تک سرد ہے۔ نوٹ بندی کے ساتھ ساتھ زبان بندی کا سلسلہ بھی عام ہے۔سماجوادی ہو ، عام آدمی پارٹی یا کانگریس، میڈیا نے اس وقت سب کو الگ تھلگ کررکھا ہے۔ اور ان سب کے درمیان مذہبی منافرت اورفرقہ واریت سراٹھارہی ہے۔ حکومت ملک کے منثور، آئین اور جمہوریت پر بھاری پڑ گئی ہے۔ کئی موقعوں پر ایسا بھی لگتا ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں میں بھی حکومت کی رضامندی شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کا تازہ سیاسی اور سماجی منظرنامہ ایک تکلیف دہ حقیقت کو بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جہاں عوام کو لاچار ، مجبور اور بے بس کردیا جائے،جہاں اپوزیشن کی طاقت کو چکنا چور کردیا جائے، وہاں ایک ایسے ہندوستان کا چہرہ ابھرتا ہے جس پر جنگجو طاقتوں نے اچانک حملہ کردیا ہو۔اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ بھی ہے کہ میڈیا کی اس غلط فہمی کو سرے سے خارج یا ختم کیا جائے کہ ہندوستانی عوام کا بھروسہ اس پربرقرار ہے۔ اور حکومت کو بھی اس بات کااحساس دلایا جائے کہ جبر، ظلم اور طاقت کے زور پر زیادہ دنوں تک عوام کو کمزور نہیں کیا جاسکتا۔تاریخ گواہ ہے کہ ایسی حکومتوں کوآخر میں شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ ہندوستان کی ٹھوس جمہوری قدروں کو بچانے کے لئے ابھی کئی مرحلے باقی ہیں لیکن آئندہ کیا ہوگا، یہ کہنا مشکل ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔