اپنی تربیت کیسے کریں؟

تحریر: خرم مرادؒ ۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز
’’جناب خرم جاہ مراد معروف بہ خرم مرادؒ ( 1996-1932ء) اسلامی دنیا کے نام ور دانش ور اور تحریک اسلامی کے عظیم رہنما تھے۔ گہرائی فکر، بلند خیال اور سوز و دردمندی ان کی تقریروں اور تحریروں کی اہم خصوصیات میں شامل ہیں۔
خرم مرادؒ غیر منقسم ہندستان کے مردم خیز شہر بھوپال (مدھیہ پردیش) میں پیدا ہوئے۔ وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1952ء میں کراچی یونیورسٹی سے سیول انجینئرنگ میں بی ای اور 1985ء میں یونیورسٹی آف مینی سوٹا امریکہ سے ممتاز نمبروں کے ساتھ ایم ایس کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ ایک ممتاز انجینئر تھے اور مشہور مشاورتی فرم ایسوسی ایٹیڈ کنسلٹنگ انجینئر میں چیف انجینئر اور ڈائریکٹر کے طور پر ڈھاکہ، ایران اور سعودی عرب میں انھوں نے ایک مدت تک پیشہ ورانہ خدمات انجام دیں۔ انھیں اس بات کا بھی شرف حاصل رہا ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کی تعمیر نو میں بھی شریک رہے۔
خرم مرادؒ بہت کم عمری میں تحریک اسلامی سے وابستہ ہوئے، 1952-1951ء میں اسلامی جمعیت الطّلبہ کے ناظم اعلیٰ، 1963ء سے 1970ء تک جماعت اسلامی ڈھاکہ، 1987ء سے 1989ء تک جماعت اسلامی لاہور کے امیر رہے اور آخری برسو ں میں جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر کی حیثیت سے دعوت دین کی خدمت انجام دی۔ 1977ء سے 1987ء تک انگلستان کے مشہور علمی و تحقیقی ادارے اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ مسلم ورلڈبک ریویو لیسٹر اور ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کے ایڈیٹر بھی رہے۔
خرم مرادؒ کی اردو میں کم و بیش پچاس اور انگریزی میں تیس چھوٹی بڑی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ دروس و خطابات ان کے علاوہ ہیں‘‘۔
حضرت خرم مرادؒ اپنے دور کے ولی اللہ کہے جائیں تو غلط نہ ہوگا۔ ان کے کردار و گفتار میں جو کشش و جاذبیت تھی اسے لفظوں اور جملوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ جو شخص ان سے ایک بار ملتا تھا ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ ان کی تحریر اگرچہ سادہ اور سہل ہوتی ہے مگر پرکشش اور دل پذیر ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف تحریک کے کارکنوں اور رفقاء کو خداوند قدوس کی طرف مائل کرتی ہے بلکہ تحریک سے باہر کے عوام اور خواص پر یکساں اثر پذیر ہوتی ہے۔ ان کی کتاب ’’اپنی تربیت کیسے کریں؟‘‘ مختصر مگر اپنے موضوع پر جامع کتاب ہے۔ اس کتاب کو جو سنجیدگی سے پڑھے گا وہ یقیناًاپنے آپ کو بدلنے کا بھی ارادہ کرے گا اور اگر اس کے خطوط کے مطابق اپنی تربیت کرے گا تو انشاء اللہ اپنی زندگی کو سنوارنے میں کامیاب و کامران ہوجائے گا۔ کتاب 40 صفحات اور تین ابواب پر مشتمل ہے، اس کے 23 ذیلی عنوانات ہیں جو پُر مغز اور پُر معنی ہیں۔ ہر عنوان کو اچھی طرح پڑھ کر اگر قاری آگے بڑھتا ہے تو اس مختصر کتاب سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اور بہت کچھ دوسروں کو سکھا سکتا ہے۔
صاحب کتاب اپنی کتاب کا تعارف کچھ اس طرح پیش فرماتے ہیں:
اپنی تربیت کیسے کریں؟ یہ ہماری زندگی کا انتہائی اہم سوال ہے۔ اتنا اہم کہ ساری زندگی کی ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اسی سوال پر ہے۔ یہ سوال زندگی بھر درپیش رہتا ہے، کیونکہ تربیت کی جستجو آخر دم تک کی جستجو ہے۔ یہ بڑا پریشان کن سوال بھی ہے۔بار بار پریشان کرتا ہے اور نئے نئے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں، پرانی ناکامیوں سے کسی طرح پیچھا چھوٹنے نہیں پاتا کہ نئی ناکامیاں دامن گیر ہوجاتی ہیں۔ آرزوئے دل اور محبوب نظر کی جستجو میں نکلتے ہی قدم قدم پر رکاوٹیں سامنے آتی ہیں۔
ارادے کرتے ہیں، عزم کرتے ہیں مگر پہلا قدم اٹھاتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ عزم و ارادے سے زیادہ کمزور کوئی چیز ہی نہیں۔ پختہ عہد و پیمان باندھتے ہیں لیکن دو چار قدم چلتے ہی سب ٹوٹ جاتے ہیں۔ لمبے چوڑے منصوبے بناتے ہیں، سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ خواہشات کے جھکڑ چلتے ہیں، سب کچھ اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ جذبات کا طوفان اٹھتا ہے، سب کچھ غرق کر دیتا ہے۔ علم کی کمی نہیں ہوتی، خوب معلوم ہوتا ہے کہ کیا چیز نیکی ہے اور کیا چیز بدی، لیکن فیصلہ کن وقت آتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے، نیکی ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور برائی میں پڑجاتے ہیں۔ توبہ استغفار کرتے ہیں پھر وہی گناہ دوبارہ کرتے ہیں اور بار بار کرتے ہیں۔
ایسے میں مایوسی کے تاریک سائے ڈیرے ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمت جواب دینے لگتی ہے۔ حوصلے پست ہونے لگتے ہیں۔ بہانوں اور عذرات کا سہارا ڈدھونڈنے لگتے ہیں۔ کوشش اور عمل کی باگ ہاتھ سے چھوٹنے لگتی ہے۔
پھر دل بے معنی چیزوں کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔
’’کوئی نسخہ ایسا ہو کہ ارادے اور عزم میں کبھی کمزور نہ آئے، دنیا کی محبت دل سے نکل جائے، ایک دفعہ توبہ کرلیں تو گناہ دوبارہ سرزد نہ ہو‘‘۔ حالانکہ ایسا نسخہ تو فرشتوں کی فطرت میں ودیعت ہے، پھر انسان کی کیا ضرورت تھی یا کوئی ایسا مرد کامل مل جائے جو ہاتھ پکڑے اور بیڑا پار کرادے۔ کسی کی توجہ، کسی کی نظر، کسی کی دعا ایسی ہو کہ کوشش اور مجاہدے کے بغیر ہی تربیت ہوجائے ؛ لیکن سوچنے والے یہ بات نہیں سوچتے کہ ایسے مرد کامل تو انبیاء علیہم السلام بھی نہ تھے۔ پھر جب ان تمام چیزوں میں ناکامی ہوتی ہے (کیونکہ ایسی امیدیں باندھنے کا نتیجہ ناکامی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے) تو ہم اپنی حالت پر قناعت کرکے بیٹھ جاتے ہیں، اس کے عفو و کرم سے امید لگالیتے ہیں، تربیت کے سارے عزائم اور منصوبے۔۔۔ جو اکثر خواہشات سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتے۔۔۔ اٹھاکر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ پھر کسی اور طرف بھی نکل جاتے ہیں بلکہ الٹے پاؤں واپس بھی پھر جاتے ہیں۔
ان مسائل اور کیفیات و واردات کی وجوہ مختلف ہوتی ہیں۔ کہیں تربیت اور تعمیر سیرت کے تصورات و مفہوم کے بارے میں غلط فہمیاں ہوتی ہیں۔ کہیں ان کے بارے میں غلط توقعات اور ناقابل حصول معیارات ہوتے ہیں۔ کہیں صحیح طریقوں کا علم نہیں ہوتا۔ یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کہاں سے شروع کریں اور کیسے آگے بڑھیں۔ کہیں کمزوریوں اور برائیوں کے سرچشموں سے غفلت ہوتی ہے۔ کہیں شدت اور زیادتی ہوتی ہے۔ کہیں گمراہ کن محرکات کا نل کھلا رہتا ہے اور ہم فرش خشک کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔
اس طرح ہمیں بار بار ایسا لگنے لگتا ہے کہ تربیت سے زیادہ دشوار اور مشکل کوئی دوسر کام ہے ہی نہیں بلکہ شاید تربیت کرنا ہمارے بس میں ہی نہیں۔
’’اپنی تربیت کیسے کریں؟‘‘ میں میں نے اسی انتہائی اہم اور پریشان کن سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ میں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ جو کام انتہائی دشوار اور ناممکن سا لگتا ہے، اس کی یہ حقیقت کھل جائے کہ وہ بڑا آسان کام ہے اور اسے بڑا آسان ہونا ہی چاہئے تھا اور جو کام ہم محض خواہش اور تمنا سے کرنا چاہتے ہیں، اس کے بارے میں یہ یقین بھی حاصل ہوجائے کہ وہ کام ارادے اور عملی کوشش کے بغیر ہوہی نہیں سکتا۔ ایسی عملی کوشش جو سادا بھی ہے، آسان بھی اور بالکل آپ کے بس اور اختیار میں بھی۔
تربیت، اپنی زندگی کی باگ ڈور اور چارج خود سنبھال کر، خود ہی کرنے سے ہوتی ہے۔ یہ محض کتابیں پڑھنے، درس اور وعظ سننے، کورس اور پروگرام میں شریک ہونے اور بزرگوں کی صحبتوں میں بیٹھنے سے بھی نہیں ہوتی؛ کیونکہ یہ فطرت کا اصول ہے کہ کوئی دوسرا وہ کام ہر گز نہیں کرسکتا، جو آپ کے کرنے کا ہے۔ تربیت، اللہ کی توفیق اور رہنمائی کے بغیر تو ہر گز نہیں ہوسکتی، لیکن اللہ کی یہ توفیق اور یہ دست گیری اپنے کرنے ہی سے نصیب ہوتی ہے۔ یَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْْ اَنَابَo (الرعد:27)۔ ’’وہ اپنی طرف اسی کو چلاتا ہے جو اس کی طرف رخ کرتا ہے‘‘۔ وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی وَّ اَتٰہُمْ تَقْوٰہُمْ o (محمد:17)۔ ’’وہ لوگ جو راہ پر آتے ہیں، انھیں اللہ اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا کرتا ہے‘‘۔
یہ کتاب بھی آپ کو اپنے کرنے کی ذمہ داری سے فارغ نہیں کرے گی۔ جو کام خود آپ کے کرنے کا ہے وہ یہ کتاب نہیں کرے گی۔ اس میں کوئی ’’کھل جا سم سم‘‘ کا نسخہ نہیں جو پڑھتے ہی تزکیہ و تربیت کے خزانوں کے دروازے آپ کیلئے کھول دے گا۔ اس میں کوئی طلسماتی چھڑی بھی نہیں کہ اس کو ہلاتے ہی آپ کی خود بخود ماہیت قلب ہوجائے گی؛ لیکن ہماری کوشش یہ ہوگی کہ تربیت و تزکئے کی اور تعمیر سیرت کی صاف ، سیدھی اور آسان شاہراہ آپ کے سامنے کھل جائے۔ وہ غلط فہمیاں دور ہوجائیں، جو غلط راہوں پر لے جاتی ہیں یا مایوسی میں مبتلا کرتی ہیں۔
کوئی کتاب زندگی بھر کی جستجو کے ہر پہلو کا احاطہ نہیں کرسکتی، نہ ہر سوال کا جواب اور ہر مشکل کا حل فراہم کرسکتی ہے؛ لیکن ہماری کوشش ہوگی کہ آپ کے ہاتھ میں وہ بنیادی خطوط اور کنجیاں بھی آجائیں جن کی روشنی میں آپ خود اللہ کی توفیق سے اپنی راہ بنا سکیں، بند دروازے کھول سکیں، سوالات کے جواب اپنے دل سے پوچھ سکیں اور اپنی مشکلات خود حل کرسکیں۔ ساتھ میں یہ صرف آپ کے علم میں اضافہ ہی نہ کرے، بلکہ کسی نہ کسی درجے میں اس علم کے مطابق عمل کرنے کا جذبہ، ولولہ، شوق، قوت اور صلاحیت بھی پیدا کرے۔ وَبِیَدِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَہُوَ الْمُسْتَعَانُo
اللہ تعالیٰ سے دعا اور امید ہے کہ وہ اس کتاب کو قارئین کیلئے معاون و مددگار بنائے اور اس راستے اَلْیُسْر پر چلنے کو آسان کردے جو نیکی اور تقویٰ کا راستہ ہے، جہاد اور غلبہ دین کا راستہ ہے، مغفرت اور جنت کا راستہ ہے، قربِ الٰہی اور رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہ کا راستہ ہے۔
لیسٹر (برطانیہ) نومبر 1996ء خرم مراد
تربیت کا مفہوم و مقصود
تربیت، زندگی کیلئے انتہائی اہم اور ناگزیر چیز ہے۔ تربیت ہر دل کی آرزو ہے، ہر دل کی محبوب ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
اہمیت اور محبوبیت کیوں؟ زندگی کی ساری تگ و دو محبوب مقاصد کے حصول میں کامیابی کیلئے ہوتی ہے۔ زندگی میں سارا رنگ اور مزا انہی محبوب مقاصد کے حصول کے دم سے ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ مقصد کیا ہیں؟ وہ اعلیٰ بھی ہوسکتے ہیں اور ادنی بھی، وسیع بھی ہوسکتے ہیں اور محدود بھی، مادی بھی ہوسکتے ہیں اور روحانی بھی، انفرادی بھی ہوسکتے ہیں اور اجتماعی بھی، اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ جیسے مقاصد ویسے تربیت۔
اس سے بھی بحث نہیں کہ ایک انسان نے جن مقاصد کو محبوب بنایا ہے اور جن کے حصول میں کامیابی کو محبوب بنایا ہے اور جن کیلئے وہ کوشان ہے وہ اس لائق بھی ہیں یا نہیں کہ ان کو مقصود و محبوب بنایا جائے۔ تم کو تو انسانی فطرت کی یہ حقیقت یاد رکھنا چاہئے کہ جو بھی مقاصد ہوں، جب وہ محبوب ہوجاتے ہیں تو ان کے حصول میں کامیابی محبوب ہوجاتی ہے۔
کامیابی کیلئے ہی قرآن مجید نے مختلف مقامات پر فوز اور فلاح کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ایک دفعہ تم نے انسانی فطرت اور تگ و دو میں کامیابی یا فوز و فلاح کا مقام جان لیا تو تمہارے اوپر قرآن مجید کے ان تمام مقامات کے معانی کھل جائیں گے، جن کا مرکز حقیقی فوز اور فلاح کی طرف دعوت اور رہنمائی ہے۔
جب کوئی مقصد محبوب ہوتا ہے تو اس مقصد میں کامیابی کیلئے تم وہ سارے ذرائع اور وسائل جمع کرتے ہو اور لگاتے ہو جو اس کامیابی کیلئے درکار ہوں، ان ذرائع و وسائل کو تم نشو و نما دے کر، تراش خراش کر اس لائق بھی بناتے ہو کہ وہ کامیابی کے حصول میں پوری طرح مددگار و معاون ہوں اور تم وہ ساری جدوجہد اور کوشش بھی کرتے ہو جو کامیابی کیلئے درکار ہوں۔
اب یہاں ایک بات یہ اچھی طرح جان لوکہ اگر کسی چیز کے مقصد ہونے کا تمہیں دعویٰ ہے تو وہ تمھیں کتنا محبوب ہے؟ اس کی کسوٹی نہ تمہاری زبان سے اعلان ہے نہ تمہارے قلم سے، بلکہ اس کی کسوٹی تو صرف یہ ہے کہ تم اس مقصد میں کامیابی کیلئے درکار ذرائع اور وسائل جمع کرتے ہو یا نہیں اور کامیابی کے حصول کیلئے بھر پور جدوجہد، کوشش اور کاوش کرتے ہو یا نہیں۔
دوسری بات یہ بھی اچھی طرح جان لو کہ جب مقصد واضح ہو اور واقعی محبوب ہو تو وہ خود ہی اپنے حصول کیلئے راہ نما اور استاد کا کام بھی جاری کرتا ہے، وہ خود ہی منارہ نور اور قطب نما بھی بن جاتا ہے؛ بلکہ بعض حالات میں تو وہ ان وظائف کیلئے کافی ہوتا ہے اور کسی اور ذریعہ کا محتاج نہیں ہوتا؛ یعنی مقصد ہی بتادیتا ہے کہ اس کے حصول کیلئے کیا وسائل و ذرائع درکار ہیں، ان کو کیا اور کس طرح نشو و نما دینا ہے۔ وہ نشانات راہ بھی متعین کرتا ہے، راہیں بھی کھولتا ہے، طریقے بھی بتاتا ہے اور سمت بھی صحیح رکھتا ہے۔
وسائل و ذرائع کیا درکار ہیں، اور ان کو نشو و نما دے کر کیا بنانا ہے کہ وہ مفید مطلب ہوں، اس کا سارا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مقصد کیا ہے۔ اگر تمھیں سپاہی بننا ہے تو کتاب قلم نہیں، ہتھیار درکار ہوں گے۔ اگر عالم بننا ہے تو کتاب قلم کی ضرورت ہوگی۔
لیکن ایک چیز جس کی تمھیں ہر مقصد کے حصول کیلئے ضرورت ہوگی، وہ تمہاری اپنی شخصیت ہے۔ ’’شخصیت‘‘ کا لفظ ہم وسیع معنوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ تمہارا جسم، تمہاری عقل، تمہاری معنوی صلاحیتیں، تمہارا دل، تمہارے جذبات، تمہارا کردار، تمہارے اخلاق، غرض ہر چیز شخصیت میں شامل ہے۔ اپنی شخصیت کو نشو و نما دے کر اس بات کا اہل بنانا کہ وہ اپنا محبوب مقصد حاصل کرلے، اسی کا نام تربیت ہے۔
مقصد کے حصول میں کامیابی کیلئے جو کچھ بننا ہمارے لئے ضروری ہے یا جو کچھ ہم بننا چاہیں، وہ تربیت کے بغیرنہیں بن سکتے۔ اسی طرح جو محبوب مقصد ہم حاصل کرنا چاہیں وہ ہم اس وقت تک صحیح طور پر یا مکمل طور پر حاصل نہیں کرسکتے، جب تک اس کیلئے ہم خاطر خواہ تربیت حاصل نہ کرلیں یا ہمیں حاصل نہ ہوجائے۔
یہ تربیت ہم منظم و مرتب کوشش سے بھی حاصل کرتے ہیں اور بغیر منظم کوشش کے بھی۔ اسی طرح شعوری طور پر بھی اور غیر شعوری طور پر بھی تربیت حاصل ہوتی ہے۔
ایک تربیت وہ ہے جو ہمارے جسمانی وجود کی تربیت ہے، ہمارے جسم کی، جسم میں بخشی ہوئی قوتوں اور صلاحیتوں کی، خصوصاً سوچنے، سمجھنے اور سننے (سمع، بصر اور فواد) اور عمل کرنے کی استعداد کی تربیت۔ اگر چہ اس کا بھی ایک حصہ اور ایک درجہ اپنے ارادے اور کوشش سے حاصل ہوتا ہے مگر ہم خود کریں یا نہ کریں، چاہیں یا نہ چاہیں، یہ تربیت بڑی حد تک بظاہر خود بخود ہوتی رہتی ہے، لیکن صرف بظاہر؛ کیونکہ در حقیقت یہ ہمارے رب اور مربی کا دست قدرت و رحمت ہے جو ہماری یہ تربیت کرتا ہے۔ ہماری پیدائش کا عمل شروع ہوتے ہی یہ تربیت شروع ہوجاتی ہے اور عمر بھر جاری رہتی ہے۔ یہ تربیت نہ ہو تو ہمارا وجود، وجود میں ہی نہیں آسکتا اور آجائے تو ایک بامعنی وجود نہیں بن سکتا۔
دوسری تربیت وہ ہے جو ہمارے معنوی وجود کی تربیت ہے۔ ہمارے دل و دماغ کی، ہمارے علم و فکر کی، ہمارے جذبات و احساسات کی، ہمارے اعمال و اخلاق کی اور ہمارے کردار اور سیرت کی تربیت ہے۔ اس تربیت کا ایک حصہ ہمیں پیدائشی پر طور پر ملتا ہے، ایک حصہ اپنے ماحول سے بھی ملتا ہے لیکن فی الجملہ یہ تربیت ہمارے ارادے اور کوشش سے اور خود ہمارے کچھ کرنے سے ہوتی ہے، مگر غور کرو تو ہمارے ارادے اور کوشش کی حیثیت صرف شرائط کی ہے ورنہ درحقیقت یہاں بھی ہمارا مربی، ہمارا رب تعالیٰ ہی ہیں، جس کی توفیق اور دست گیری کے غیر کچھ نہیں ہوسکتا۔
آکر اللہ کی پیدا کردہ اس کائنات میں کوئی چیز بھی ان کی مشیت اور تدبیر کے بغیر خود بخود یا صرف کسی غیر اللہ کے کرنے سے کیسے ہوسکتی ہے؟ اس تربیت سے زیادہ اہم اور ضروری چیز ہمارے لئے اور کیا ہوسکتی ہے؟
اس کے نتیجے میں ہمیں عقلی، علمی، معنوی، جسمانی اور پیشہ ورانہ صلاحیتیں اور مہارتیں حاصل ہوتی ہیں، جن سے ہم دنیا کے بڑے بڑے کام انجام دیتے ہیں۔ اسی سے ہمیں نیک سیرت، بلند و پختہ کردار اور پاکیزہ اخلاق کی بیش بہا نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ پاک سیرت، مضبوط کردر اور حسن اخلاق دنیا کی سب سے خوب صورت چیزیں ہیں، سب سے زیادہ محبوب اور عزیز ہیں، سب سے زیادہ قیمتی ہیں۔ دنیا میں حقیقی محبوبیت بھی عموماً انہی کے ذریعہ ملتی ہے؛ مگر آخرت میں تو اپنے رب اور مربی کے نزدیک مقبولیت اور محبوبیت اور اس کی قربت اور جنت، صرف اسی تربیت کے ذریعے نصیب ہوسکتی ہے۔ ان نعمتوں سے بڑھ کر اور کیا چیز محبوب ہوسکتی ہے۔ پھر تربیت ہمارے دل کی آرزو اور ہمارے دل کو محبوب کیوں نہ ہو کہ ان محبوب مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔
اسی لئے دنیا و آخرت کی فلاح و تزکیہ و تربیت پر منحصر کردیا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی o (الاعلیٰ :14)۔ ’’بے شک فلاح پاگیا جس نے بہ اہتمام اپنا تزکیہ کیا‘‘۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَاo (الشمس: 9)۔ ’’بے شک فلاح پاگیا ، جس نے مسلسل تدریج کے ساتھ اپنی شخصیت کا تزکیہ کیا‘‘۔ جنت کے سدا بہار باغ، نہریں اور بلند درجات اسی کیلئے ہیں ’’جو اپنے نفس کا تزکیہ کرے‘‘ (طٰہٰ:76)۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔