⁠⁠⁠⁠⁠واغضض من صوتك

شجاعت حسینی

کسی زمانے میں کارخانوں کے مزدوروں کو کھانے کی چھٹی دینے کیلیے بجایا جانیوالا  پر شور بگل (سائرن )جسے سماج نے بالعموم ترک کردیا ہے اسے اٹھا کر ہم نے مسجد کے میناروں پر نصب کردیا اور خدا کے گھر کے وقار کو پامال  کئیے جارہے ہیں ۔ یہی کیا کم ہے ، اس کے ساتھ ساتھ کچھ مقامات پر   لاؤڈ اسپیکرس کو بہت اونچے والیوم پر سیٹ کر کے افطار سے ایک گھنٹہ قبل  count downفرمانے کی عجیب روایت بھی پائی جاتی ہے۔ ہر گذرتے لمحہ یہ اطلاع ضروری سمجھی جاتی ہے کہ اب افطار کے لئیے کتنے منٹ  باقی ہیں ۔ ایک مقام پر ایک مسجد کے متولیان افطار کے معاملے میں عجلت کے قائل ہیں ۔ محض قائل نہیں بلکہ اس پر اصرار بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ عام نظام الاوقات کے مقابل کچھ منٹ قبل اونچی آواز میں سائرن بجادینا ضروری مانتے ہیں ۔ اب جنھیں اس موقف  سے اختلاف ہے وہ زیادہ اونچی آواز میں لاؤڈ اسپیکرس سے مسلسل یہ متوازی اعلان نشر فرماتے ہیں کہ عوام اس سائر ن کے دھوکے میں آکر اپنا روزہ غارت نہ کریں اور  عنقریب بجائے جانے  والے بر حق سائرنوں پر اعتماد فرماکر قبولیت صوم کی ضمانت پائیں۔ عوام اس تماشہ سے عاجز ہیں  ۔ انکے پاس نظام الاوقات بھی ہے اور گھڑیاں بھی ۔ انھیں پتہ نہیں کہ اونچے سروں میں انکی رہنمائی بالجبر کا کیا تک ہے۔

اس کے علاوہ بعد فجر پرسکون ماحول میں ( جو قرآن فہمی کے لئیے زیادہ موزوں وقت ہوتا ہے ) ترانہ خواں  و نعت خواں حضرات کا گروپس کی شکل میں مساجد کے لاؤڈ اسپیکرس پر طویل قبضہ اور ہر ایک کی یہ خواہش و کوشش کہ مائیک میری آواز سے محروم نہ رہے ۔  رات دیر گئے  تراویح کے بعد بچوں کو اپنے سُر اور آواز کی پیمائش کے لئیے لاؤڈ اسپیکرس کی حوالگی اور کھلی چھوٹ ۔ جہاں محلے کے تمام بچے لمبی قطار لگا کر اپنی باری کا انتظار اس امید اور عزم کے ساتھ فرماتے ہیں کہ چلو اس بار آواز کے  سارے ریکارڈ توڑ ڈالیں ۔ مساجد سے وابستگی  اور پڑھنے میں مسابقت ، یہ بچوں کے بڑ ے پاکیزہ اور قابل قدر جذبات  ہیں ۔ لیکن انھیں سلیقہ مندی اور اسلامی آداب سے ہم آہنگ کروانا بڑوں کی ذمہ داری ہے ۔ ورنہ یہی بچے آگے چل کر سائیلنسر اتار کر یاماہا دوڑانے میں کوئی برائی نہ سمجھیں تو تعجب نہیں ہونا چاہئیے ۔
جب لاؤڈ اسپیکرس کا غیر متوازن استعمال مسا جد سے صحیح ٹھہرا تو عام آدمی کیوں رکے. نتیجتاً آج کل گداگر،ترکاری فروش،   ہاکرس  وغیرہ کا   لاؤ ڈاسپیکرس کے ساتھ دن بھر رہائشی علاقوں میں صدائیں لگانا عام بات ہوگئ. اور یہ رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے. اس میں کوئ شک نہیں کہ ان مستحق اور محنت کش لوگوں کا ہر ممکنہ سپورٹ  اور تعاؤن  ہماری دینی، اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہے لیکن ان کاموں کے لیئے شور شرابہ اور صوتی آلودگی جائز نہیں ٹھہرائ جاسکتی. اس شور کا سب سے زیادہ شکار طلباء ہوتے ہیں جنکا ذہن معمولی آوازوں سے اسٹڈی سے منتشر ہوا جاتا ہے. ہمارے کئ لائق و قابل طلباء چھوٹے گھروں میں اسٹڈی کے غیر مناسب ماحول سے پہلے ہی آزمائش سے دوچار  ہیں.  اس مسابقتی دور میں یہ نیا چیلنج انکے لئیے ایک اور آزمائش ہے.

        کمیونکیشن انجینئیرس  جانتے ہیں کہ آواز کی سطح میں 10dB اضافہ کا مطلب دوگنا اضافہ ہوتا ہے ۔مثلاًdb 50  کے مقابلے میں 60dB ساؤنڈ کا مطلب یہ نہیں کہ صرف 20 فیصد آواز بڑھی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آواز میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے اور شور دوگنا ہوچکا ہے۔

ایمپلیفائرس کی پاور ریٹنگ بتلاتی ہے کہ100db لاؤڈ اسپیکرس کا پاوراگر  20 Wattکے قریب ہوتو 110 db لاؤڈ اسپیکرس 100 واٹس سے زیادہ پاور استعمال کرتے ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صرف 10db اضافہ آواز میں  کسقدر  زیادہ پاورفل شدت  کا سبب بنتا ہے ۔

 شور کی قابل برداشت حد یعنی  45db کے مقابل دہلی کے کچھ علاقوں میں 85dbشور کی سطح ریکارڈ کی گئی ۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ شور میں صرف 40db یعنی دوگناسے بھی کم اضافہ  ہوا ہے  لیکن WHO اسٹینڈرڈس کے مطابق یہ ریکارڈ ،  قابل برداشت سطح(45db) کے مقابل دوگنا نہیں بلکہ 16 گنا زیادہ ہے۔

شور (Noise) کی شدت کو سمجھنے  کے لیے حسب ذیل جدول مددگار ہوسکتا ہے:

10ڈیسیبل                               سوئی  کے گرنے کی آواز
30ڈیسیبل                              سرگوشیاں
60ڈیسیبل                               عام بات چیت
80ڈیسیبل                             الارم گھڑی
85ڈیسیبل                             ڈیزل ٹرک
100ڈیسیبل                         گھریلو ڈریلنگ مشین / پرشور موٹر بائیک
110ڈیسیبل                            راک بینڈ
130ڈیسیبل                          اسٹیڈیم کی بھیڑ کا شور
135ڈیسیبل                          سائرن کی آواز

اس سے پتہ چلتا  ہے کہ غیر ضروری سائرن بجاکر ہم کتنی صوتی آلودگی پھیلاتے ہیں ۔

ملکی قوانین کے مطابق Permissible DNL (Day-Night Average Sound Levels)   اوسطاً 50db  ہے ۔ لیکن ہمارے سائرنس 135 تا 140 ڈیسیبل کی آواز کے ساتھ ایک تا دو منٹ گونجتے ہیں ۔ جب آن آف کرتے  ہوئےانھیں مسلسل سائین ویو کی صورت میں بجایا جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے انھیں بجانے والے حضرات سائر ن کے بٹن سے کھیل کر لطف اندوز ہورہے ہیں۔

اونچی آوازیں بھی ایک آلودگی ہیں ۔ جسکے عناصر بظاہر ہمیں دکھائی نہ دیں لیکن تمام  جانداروں کے لئیے یکساں مضر ہوتے ہیں  ۔ بالخصوص اچانک پیدا ہونے والی اونچی آواز دل کی بیماریوں اور ذہنی صحت پر مہلک اثرات ڈالنے کے لئیے کافی ہوتا ہے ۔ ایسی آوازیں  کان کے ہزاروں خلیات کی تباہی کا سبب بنتی ہیں جسکا فوری علم نہیں ہوتا ۔ رحم مادر میں پرورش پارہے بچوں کے لئیے یہ ایک مہلک کرب ہیں ۔حاملہ ماؤں کا   تیز آواز کی اذیت سے گذرنا  ان معصوموں کے لئیے  کئی مسائل کا سبب بن جاتا ہے ۔ انکے اعصاب سخت تناؤ کا شکار ہوجاتے   ہیں  ۔  ا ن کی دل کی دھڑکن بے قاعدہ ہوجاتی ہے ۔ اور ہڈیوں کی نشوونما  بگڑ جاتی ہے۔

ایک طبی تحقیق (Lucey JF, Philip AG (1980) Noise and hypoxemia in the intensive care nursery) کے مطابق 80ڈیسیبل کی اچانک پیدا ہونے والی بلند آواز رحم مادر میں بچہ پر  hypoxemia( خون میں آکسیجن کی سطح  کا غیر معمولی لیول تک گرجانا ) کے خطرے کا سبب ہوسکتی ہے ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 91 db کی آواز انسانی جسم دو گھنٹوں سے زیادہ برداشت نہیں کرسکتا ۔ 112dbآواز اگر مسلسل ایک منٹ سنائی جائے تو انسانی صحت پر ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے  جو بظاہر فوری نظر نہ آئے ۔130 db سے اونچی آواز ایک سیکنڈ کے لئیے بھی مضر ہوسکتی ہے ۔ WHO چھوٹے بچوں کو 120db آواز سے سو فیصد بچانا ضروری قرار دیتا ہے ۔

اسلام دین فطرت ہے ۔ اور  عمل و رویہ میں اعتدال پسند کرتا ہے ۔ یہ اعتدال بات چیت اور آواز کی سطح میں بھی مطلوب ہے ۔ حضرت لقمان کی نصیحت بیان فرماتے ہوئے بارئ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔

 واقصد في مشيك واغضض من صوتك ( اور اپنی آواز کو پست رکھو )

اس آیت کےتسلسل میں آگے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں۔

” إن أنكر الأصوات لصوت الحمير ” کا ٹکڑا یہاں کرخت اور سخت لب و لہجہ سے نفرت دلانے کے لئیے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کو حسن بیان اور حسن کلام کی نعمت سے نوازا ہے تو وہ اس مقام کو چھوڑ کر گدھوں کی صف میں شامل ہونے کی کوشش کیوں کرے ! یہ بلبل کی بدقسمتی ہے کہ وہ زاغ و زغن کی ہمنوائی کرے ۔ "

نبی کریم ـﷺایک رات گشت کرتے ہوئے  حضرت ابوبکرؓکے پاس سے گذرے تو دیکھا کہ آپ انتہائی پست آواز کے ساتھ نماز ادا فرمارہے ہیں ۔ جب حضرت عمرؓکے پاس سے گذر ہوا تو دیکھا کہ آپ خوب بلند آواز کے ساتھ قراءت فرماکر نماز ادا کررہے  ہیں ۔ صبح دونوں اصحاب حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے حضرت ابوبکرؓسے پست آواز کے متعلق پوچھا آپ ؓنے فرمایا کہ میں جس سے مصروف مناجات تھا، وہ میری آواز سن رہا تھا ۔پھر حضرت عمرؓسے دریافت کیا آپ ؓ نے فرمایا کہ میں اس لئیے بلند تلاوت کررہا تھا کہ سوتے کو بیدار کروں اور شیطان کو دھتکاروں ۔ دونوں کی بات سننے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اعتدال کی تلقین فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ائے ابوبکرؓ اپنی آواز کچھ بلند کرو اورحضرت  عمرؓ کو تلقین کی کہ ائے عمرؓاپنی آواز کچھ پست کرو ۔ ٭

نماز و تلاوت جیسی عظیم عبادات کے معاملے میں نبی کریم ﷺکی یہ بے مثل نصیحت یہ بتلانے کے لئیے کافی ہے کہ معاملات زندگی  میں ( خواہ اسکا تعلق عبادات سے ہو )  ہمارا رویہ اصلاح طلب ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ: کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ حِیْنَ قَدِمُوا الْمَدِیْنَۃَ یَجْتَمِعُوْنَ فَیَتَحَیَّنُوْنَ الصَّلَوَاتِ وَلَیْسَ یُنَادِیْ بِہَا أَحَدٌ. فَتَکَلَّمُوْا یَوْمًا فِیْ ذٰلِکَ. فَقَالَ بَعْضُہُمْ: اِتَّخِذُوْا نَاقُوْسًا مِثْلَ نَاقُوْسِ النَّصَارٰی. وَقَالَ بَعْضُہُمْ: قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْیَہُوْدِ. فَقَالَ عُمَرُ: أَوَلَا تَبْعَثُوْنَ رَجُلًا یُنَادِیْ بِالصَّلٰوۃِ. قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا بِلَالُ، قُمْ، فَنَادِ بِالصَّلٰوۃِ.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان جب مدینہ آئے تو وہ جمع ہو جاتے تھے، پھر نماز ہونے کا انتظار کرتے رہتے تھے، اور اس وقت کوئی اذان نہیں دیتا تھا۔ ایک دن لوگوں نے اس پر بات کی۔ کسی نے تجویز دی: نصاریٰ کے ناقوس کی طرح ناقوس بنالو۔ کسی نے کہا: یہود کے سنکھ کی طرح سنکھ لے لو۔ حضرت عمر نے کہا: تم کوئی آدمی کیوں نہیں بھیج دیتے جو نماز کا اعلان کرے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلال، اٹھو اور نماز کے لیے بلاؤ۔

 گھنٹی  کو ناقوس کہتے ہیں۔ جو دو ٹکٹروں کے ٹکراؤ کے ذریعے اونچی آواز پیدا کرتا ہے  اور قرن‘سینگ سے بنایا جانے والا صوتی آلہ کا نام ہے جس میں پھونک مارنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے میکانیکل سائرن بھی عین اسی اصول پر عمل کرتے ہیں ۔ اس میں الیکٹرک  موٹر کا ستعمال کرتے  ہوئے ایک سلاٹیڈ ڈرم میں روٹر فین کو  کم و بیش 7000RPM رفتار سے  گھماتے ہوئے  تیز پھونک اسطرح ماری جاتی ہے کہ ۔۔

                                                ع   جرس کے بھی جو ہوش کھوتا رہے گا

یہ بات واضح ہے  کہ رسول اللہ  ﷺ نے شور شرابہ مچانے والے آلات کو مسترد  کرتے ہوئے ایک باوقار طریقہ کو پسند فرمایا ۔

نبی ﷺ  کی نصیحت ، اسلامی وقار ، دعوتی تقاضے, ملکی قوانین ، بنیادی شہری اخلاقیات ، اور انسانی صحت کو نظر انداز کرکے خدا جانے ہم کس دعوتی اسپرٹ کی نمائندگی کررہے ہیں ۔ بلکہ اپنی تصویر کو ہم اپنے ہاتھوں مضحکہ خیز بنارہے ہیں ۔ ٹوئیٹر پر ایک محترمہ سائرن پر یوں تبصرہ فرماتی ہیں ۔

My masjid has a really long sehri siren and a firecracker, it’s like a war bell calling "attack the food”

ہمیں کئی فرنٹس پر دعوتی چیلنجز درپیش ہیں ۔ اس ماحول میں ہمارے  وہ کام جن کی عقلی ، اور اسلامی توجیہ ممکن نہیں ، اور ان پر ہمارااصرار خدا نخواستہ دعوتی ماحول اور مواقع کو گنوانے کا سبب نہ ہوجائے ۔

ہماری ناقص عقل کہتی ہے کہ لاؤڈاسپیکرس کا بیرونی استعمال آواز کی Permissible range میں صرف اذان کے لئیے مختص ہونا چاہئیے دیگر سرگرمیوں  کے لئیے انٹرنل ساؤنڈ سسٹم کا اسطرح استعمال کہ دوران نماز مکبر کی ضرورت  پیش نہ آئے ، یہ کافی ہے ۔ مقصد یہ کہ ہر فرد تک امام و خطیب کی آواز صاف اور خوشگوار انداز میں پہنچ جائے ۔ ایمپلیفائرس کی موزوں سطح اور مسا جد کے اند ر اونچائی پر ایک سےزائد  ساؤنڈ باکس کی تنصیب   ، غیر ضروری گونج اور بلند آواز سے سماعت کومحفو ظ رکھ کر خوشگو ار صوتی ماحول بنانے میں مددگار ہوتی ہے ، اور یہی اسلامی آداب کا تقاضہ بھی ہے ۔
ہم نبی رحمت ﷺ کی خیرامت ہیں.یہ اجتماعی شعور ہمارے لئیے بے حد ضروری ہے کہ غیر معمولی اونچی آوازیں  ،
*  نبی اکرم ﷺ کی نصیحت کے خلاف ہیں
* اسلامی وقار کو مجروح کرتی ہیں
* ملکی قوانین کی پامالی کا سبب ہیں
* بنیادی شہری اخلاقیات کے خلاف ہیں

* نامولود بچوں کے اعصاب ، دل اور ہڈیوں کو نقصان پہنچانےکے علاوہ   hypoxemia کا سبب اور ان پرظلم ہیں ۔

* اچھے مسابقتی تعلیمی ماحول اور طلباء کی تعلیمی اسپرٹ پر ضرب لگانے کے مماثل ہیں ۔
* انسانی صحت.کے ساتھ کھلواڑ ہیں
* بالخصوص ضعیفوں,  بچوں اور دل کے مریضوں کے ساتھ مہلک مذاق ہیں
* اور دعوتی حکمت اور تقاضوں کے ساتھ نا انصافی ہیں ..

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔