رمضان المبارک ؛ آئیے حقیقی مومن بن جائیں

 ڈاکٹر عابد الرحمن(چاندور بسوہ)

اگر مسلمان علاقوں اور محلوں میں نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں میں مسلمانیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔کرتوں پا جاموں داڑھیوں ٹوپیوں اور مختلف رنگ کے عماموں کی تعداد بھی روز کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔بول چال میں بھی انشاء اللہ ماشاء اللہ اور سبحان اللہ کی کثرت ہو گئی ہے۔مسجدوں اور مدرسوں کا بھی ہر طرف جال سا بچھ گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات بھی عام کی جارہی ہیں۔جن علاقوں میں مسجدیں نہیں تھیں یا صرف ایک ہی تھی وہاں اب کئی کئی مساجد تعمیر ہو گئی ہیں۔ مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں بھی کچھ اضافہ ہو گیا ہے ،خوشی کی بات ہے لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں ’مسلمانیت‘ جس تناسب سے بڑھی ہے حالات اسی بلکہ اس سے بھی بڑے تناسب میں خراب ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ پریشانیاں ہیں کہ مسلمانوں کا پیچھا چھوڑ نے کو تیار ہی نہیں ہیں بلکہ مصائب و آلام روز بروز بڑھتے ہیں جا رہے ہیں تذلیل و بے عزتی کی کوئی سطح ایسی نہیں بچی جہاں مسلمان پہنچے نہ ہوں۔ملکی اور عالمی سطح پر مسلمانوں کا قد نیچا ہی ہوتا جا رہا ہے ۔ ان حالت میں سب سے پہلے ہمیں یہی دیکھنا چاہئے کہ جب ہم اللہ اور اس کے دین کی طرف مثبت طریقہ سے بڑھ رہے ہیں تو ہمیں فائدہ کی بجائے نقصان کیوں ہورہا ہے ،آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ہماری اس حالت کو سمجھنے کے لئے قرآن پاک کی صرف ایک ہی آیت کافی ہے جس پرکھلے دماغ اور سچے دل سے غور کرکے اور اسی آیت کو اپنا آئینہ اور اپنے اعمال کی کسوٹی بنانا کر ہم حالات کو صد فیصد پلٹ سکتے ہیں ،انشاء اللہ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے فرمان عالیشان کا مفہوم ہے کہ ’ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘۔ ہمارا یقین ہے کہ قرآن کریم برحق ہے اور خدائے وحدہ لا شریک علیم و خبیر حکیم ودانا کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ ہمارا یہ بھی یقین ہے کہ ہمیں اس قرآن شریف کلام پاک یا ’بڑی کتاب ‘ میں زندگی گذارنے کا نسخہء کیمیا دیا گیا ہے اور زندگی کے ہر ہر شعبہ اور ہر ہر معاملہ میں مکمل راہ نمائی کی گئی ہے۔ہمارا یہ بھی یقین ہے کہ رسول خدا سرور کون و مکاں ﷺ نے قرآن کی مکمل تشریح اور اس کا عملی نمونہ ہمارے لئے چھوڑ رکھا ہے اور ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ سرور کون و مکاں رحمۃ اللعالمین رسول اللہ ﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں کہا تھا کہ میں تمہارے لئے قرآن مجید اور میری سنت چھوڑ کر جا رہا ہوں جو تم کو صراط مستقیم پر چلائے گی ۔اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایمان یا سنت رسول ﷺ صرف چند رسوم عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے ہر ہر شعبے پر لاگو ہے اور دنیا کے مذاہب میں اسلام ہی وہ خاص اور اہم مذہب ہے جو اپنے پیرو کاروں کے دین اور دنیا کو الگ نہیں کرتا جو عبادات کے ساتھ ساتھ معاشرت کو بھی اصول دین سے جدا نہیں کرتا جو اپنے ماننے والوں کو صرف عبادات کے ہی اصول و ضوابط اور صحیح طریقے نہیں بتلا تا بلکہ انہیں دنیاداری کے بھی صالح سچے اور کامیابی دلانے والے اصول اور طریقے سکھاتا ہے۔ اسلام اپنے پیروؤں میں سے صرف چند لوگوں کو ہی عبادات کے لئے یا مذہبی امور کیلئے مختص نہیں کرتا بلکہ اسلام کے اصول و ضوابط سب مسلمانوں پر محیط ہیںیہاں فرق صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہوتا ہے کسی امیر زادہ یا جاگیردار کا حساب بھی انہیں اصولوں کی بنیاد پر ہوگا جن پر کسی فقیر یا نادار کا حساب ہو گا ۔ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں مسلمانوں کو یہ بشارت دی ہے کہ اگر تم مومن ہوگئے تو تم ہی غالب رہو گے اور مومن ہونے کا طریقہ بھی بتا دیا ہے کہ ’ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ۔‘ اور ہمارا ماضی بالکل اسی خوش خبری کے مطابق تھا ۔ہمارے اسلاف نے جب اپنی عبادات معاشرت جنگ و جدل تجارت محبت اور دشمنی سب کو اللہ کے تابع فرمان کردیا یعنی پورے پورے کے اسلام میں داخل ہوگئے اور صحیح معنوں میں مومن ہوگئے تو انہیں ساری دنیا میں غلبہ عطا ہو گیا اورانہی کا سکہ سکہء رائج الوقت ہو گیا وہ مسلمان ہو کر معزز ہو گئے لیکن ہم کیا ہیں کہ صرف اس لئے خوار ہیں کہ مسلمان ہیں ۔تو کیا معاذ اللہ ،اللہ تعالیٰ کی یہ نوید جھوٹی ہے جو اعلان کر رہی ہے کہ’ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو ‘۔نہیں یہ نوید جھوٹ نہیں ہو سکتی اگر آج اس کے الٹ ہو رہا ہے یعنی مسلمان ہو نے کی وجہ سے ہم مغلوب و معتوب ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے مومن ہونے میں کمی ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے قانون فطرت کو پس پشت ڈال دیا اور دنیا کے اصول و قوونین اپنا لئے ۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم کی شکل میں کامیاب زندگی کا نسخہء کیمیا دے دیا ہے لیکن ہمیں اس کا پاس نہیں بلکہ ہم یہ سمجھنے کی بھی کوشش نہیں کرتے کہ اس میں لکھا کیاہے، ہم قرآن کریم کی بہت تلاوت کرتے ہیں لیکن اس سے راہنمائی حاصل کر نے کے لئے نہیں بلکہ فقط ثواب حاصل کر نے کے لئے اورشاید اسی لئے ہماری زندگی میں قرآنی تعلیمات کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آتا۔اب ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اگر شریعت محمدی اپناتے بھی ہیں تو صرف عبادات میں ۔قربانی عقیقہ خیرات اور زکوٰۃ اور تکفین و تدفین میں ۔ہمارے دوسرے معاملات بالکل دنیا کے سپرد ہیں اور ان میں شریعت کا بالکل پاس نہیں رکھا جاتا یعنی ہم اسلام میں پورے کے پورے داخل نہیں ہوئے ۔ہم ظاہری طور پر تو مسلمان ہیں لیکن باطنی طور پر مسلمانیت ہم میں کم ہی ہے۔ ہم نے دین کو مسجد میں قید کر رکھا ہے اور دنیا کو[ دین اللہ ]سے آزاد کر کے اللہ کے دشمنوں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ہم لوگ پنج وقتہ نمازی ہو گئے ہیں روزہ دار بھی ہیں اور حاجی بھی ہو گئے ہیں لیکن ہماری دنیا میں اس کا کچھ اثر دکھائی نہیں دیتا ۔ چوری مکاری زنا کاری ہمارے معاشرے میں عام ہوگئے ہیں ۔جھوٹ ہماری زندگی کا جزو لاینفک ہو گیا ہے۔دھوکہ فریب بد نیتی اور بد دیانتی ہماری معاشرت کا خاصہ ہو گیا ہے ۔ہمارا لین دین اتنا خراب ہو گیا ہے کہ لوگ ہم سے کاروبار کر نے سے کترانے لگے ہیں۔حرام و حلال کی تمیز تو ہم نے بالکل ہی بھلادی ہے۔ہم روزی روزگار میں حرام و حلال کی جانچ پڑتال نہیں کرتے بلکہ سود خوری بھی ہمارے معاشرے میں بڑھتی جارہی ہے۔ ہمارے اندر ایسے بھی لوگ ہیں جو مذہبی اور دینی اعتبار سے بہت بڑے ہیں بہت متقی اور پر ہیزگار سمجھے جاتے ہیں لیکن اصلاً ان کے کاروبار دو نمبر کے ہیں۔ ہمارے اندر ایسے بھی نمازی اور روزہ دار اہیں کہ جو مسجد سے نکل کر سیدھے سٹے کی دکانوں میں جاتے ہیں۔ ہم میں اچھے لوگ بھی ہیں متقی پر ہیزگار بھی ہیں لیکن ایسے لوگ بھی پوری قوم کے ساتھ مصائب میں مبتلاء ہیں کیونکہ ایسے لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ( بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنے)کا فریضہ انجام نہیں دیتے ۔بلکہ اب تو اس اہم فریضہ کو بھی توڑ مروڑ کر ’امر بالمعروف و سکوت عن المنکر‘یعنی بھلائی کا حکم دینے اور برائی پر خاموشی اختیار کر نے تک ہی محدود کردیا گیا ہے ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دور ہوجانے کی وجہ سے وہ لوگ بھی پس رہے ہیں جو واقعی مومن ہیں۔ہم نے دراصل کرتا پاجامہ پہن لینے داڑھی رکھ لینے اور ٹوپی یا عمامہ باندھ لینے کو اور پانچ وقت جیسے تیسے نماز پڑھ لینے رمضان کا مہینہ بھر روزہ رکھ لینے اور نام و نمود کے لئے قربانی کر نے یا حاجی صاحب کہلانے کے لئے حج کر لینے کو ہی اسلام سمجھ رکھا ہے اس دکھاوے کے اسلام میں بھی ہم زکوٰۃ پوری طرح ادا نہیں کرتے کھیتی کے مال میں سے عشر بھی ایمانداری سے نہیں نکالتے اور اپنے والدین ،بھائی بہنوں اور ہم سایوں کے حقوق بھی پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ اور رہی دنیا اور معاشرت تو یہاں تو ہم بہت دھڑلے سے بالکل جائز سمجھ کر بے دینی کرتے رہتے ہیں۔اسلام کا مطلب اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے کا ہے اور اسلام میں پوے کے پورے داخل ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کوصدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ مانیں اور بے چوں و چرا بجا لائیں اور اگر ہم اللہ کے کچھ احکامات کو مانیں اور بجالائیں اور کچھ کو چھوڑ دیں یا مانیں لیکن ان کی تعمیل نہ کریں تو کیا ہم اسلام کے حقیقی پیرو کار’ مسلمان ‘ہو سکتے ہیں؟جب ہماری یہ حالت ہے تو بتائیے ہم مومن کس طرح ہوئے؟اور جب ہمارے مومن ہونے ہی میں کھوٹ ہے تو تو پھر مغلوب ہو جانے میں ہمیں تعجب کیسا ہے؟جب ہم اللہ کے دین کو پوری طرح نہیں اپنا رہے ہیں تو پھر مصائب و آلام اور پریشانیوں اور ذلت کے لئے ہم اس سے شکایت کیسے کرسکتے ہیں؟یعنی اپنی جو کچھ حالت ہے اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں سو اس کے سدھار کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوتی ہے،اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کی سب سے پہلی صورت یہ ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں مومن بن جائیں ، رمضان المبارک ہمارے ایمان کے اظہار کا مہینہ بھی ہے اور ہمارے ایمان کی کسوٹی بھی ایک مفکر نے لکھا ہے کہ ’سکتہ کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں ،اگر آئینہ پر کچھ دھندلاہٹ نمودار ہو تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے ورنہ اسکی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہو جاتی ہے اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا تمہیں امتحان لینا ہو تو اسے رمضان کے مہینے میں دیکھو ۔اگر اس مہینے میں اس کے اندر کچھ تقویٰ ،کچھ خوف خدا ،کچھ نیکی کے ابھار کا جذبہ نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے ۔ اور اگر اس مہینے میں نیکی کا بازار سرد ہو ،فسق و فجور کے آثار نمایاں ہو ،اور اسلامی حس مردہ نظر آئے توانا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ لو ‘ توآئیے اس رمضان میں ہم اپنے تن مردہ میں ایمان کی روح سے جان ڈالنے کی کوشش کریں ، فرادً فرداً حقیقی مومن بننے کی کوشش کریں۔

تبصرے بند ہیں۔