ملک کے ہر شعبۂ زندگی میں آر ایس ایس کا چھا جانے کا ماسٹر پلان

عبدالعزیز
22ستمبر 2016ء کو آر ایس ایس کے سکشا سنسکرتی یتھن نیاس کے ایک درجن ممبران سے زیادہ نے مسٹر دینا ناتھ بترا، دہلی کے ریٹائرڈ ٹیچر کی سرکردگی میں مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل و ترقی جاویڈکر سے ملاقات کی اور انھیں مجوزہ نئی تعلیمی پالیسی کے تعلق سے قوم پرستانہ نقطہ نظر سے صلاح و مشورہ دیا۔ جب آر ایس ایس کے وفد نے جاویڈکر سے کہاکہ اسکولی نصاب میں بہت سی غلطیاں ہیں انھیں درست کرنے کی ضرورت ہے تو مرکزی وزیر نے وفد کے ارکان سے گزارش کی کہ وہ غلطیوں کا تعین کرکے انھیں لکھیں، ساتھ ہی ان کی یقین دہانی کی کہ دسمبر مہینہ میں نئی تعلیمی پالیسی کی وضاحت کے بعد قومی نصاب کے فریم ورک کے پیش نظر نصابی کتابوں کی نظر ثانی کا کام شروع کیا جائے گا۔ مسٹر بترا نے اس مہم کی قیادت کی تھی جس کے نتیجہ میں امریکی اسکالر ونڈے ددینگر کی کتاب ’’ہندو۔ایک متبادل تاریخ‘‘ (The Hindu: An alternative History) پر پابندی عائد کی گئی اور رامائن پر اے کے راموجن کے ایک مضمون کو دہلی یونیورسٹی کے درسیات سے خارج کیا گیا۔ ایس ایس یو ین کے جنرل سکریٹری اتل کوٹھاری نے ایک انٹرویو میں کہاکہ پہلے آر ایس ایس کے فلسفہ اور تعلیم کو لاگو کرنے کیلئے ہم لوگوں کو عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے پڑتے تھے مگر اب موجودہ حکومت ہم لوگوں کی باتوں کو نہ صرف دھیان سے سنتی ہے بلکہ اس پر عمل کرتی تھی اور تجاویز کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتی ہے‘‘۔
آر ایس ایس کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ اٹل بہاری واجپئی کے زمانے میں این ڈی اے حکومت آر ایس ایس کے ساتھ کام کرنے میں معذرت خواہانہ اور مدافعانہ طرز عمل اپناتی تھی مگر اب ایسی بات نہیں ہے۔ وشو ہندو پریشد سے اشوک سنگھل نے جو بات کہی تھی وہ سچ ثابت ہورہی ہے کہ بیرونی راجاؤں اور راجواڑوں کے ایک ہزار سال بعد مودی جیسا ہندو راجہ ملک کے تخت و تاج کو سنبھالا ہے جو نہرو کے طرز حکومت اور کلچر کو یکلخت بدل رہا ہے۔ اس وقت آر ایس ایس پارلیمنٹ میں بی جے پی کی بھاری اکثریت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ آر ایس ایس کیلئے جتنے پروجیکٹ معنی رکھتے ہیں، سب کے سب آگے بڑھانے کی آر ایس ایس کے لیڈران روز و شب بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
تعلیم، کلچر اور سیکوریٹی (تحفظ) کے تعلق سے آر ایس ایس نے مرکزی وزراء، بی جے پی لیڈران اور آر ایس ایس کے ممبران پر مشتمل چھ اعلیٰ رابطہ کمیٹیوں کی تشکیل کی ہے۔ یہ کمیٹیاں وقتاً فوقتاً میٹنگیں منعقد کرتی ہیں۔ اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اور حکومت کے ذمہ داروں سے مل کر آر ایس ایس کے پروجیکٹ اور پروگرام کو عملی جامہ جلد از جلد پہنانے پر توجہ دلاتی ہیں۔ حکومت اور آر ایس ایس کے درمیان تال میل کیلئے دتہ رے ہوسبل اور کرشنا گوپال کوشاں رہتے ہیں۔ رابطہ کمیٹیوں کی میٹنگوں میں جو تجاویز سامنے آتی ہیں ان پر جلد عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے اور چند تجاویز پر مناسب وقت پر عمل کرنے کی بات طے کی جاتی ہے۔
گزشتہ سال ستمبر کے مہینہ میں رابطہ کمیٹی کی بیٹھک میں یہ طے کیا گیا تھا کہ آر ایس ایس سے منسلک گروپ ملک کی سرحدوں پر فوج کے ساتھ کام کرے گا تاکہ خفیہ باتوں کا پتہ لگا سکے اور فوجیوں کی مدد و معاونت کرسکے۔ اسی میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ One rank, One pension کی اسکیم بروئے کار لائی جائے۔ اسی میٹنگ میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ جو ہندو سمراٹ گزرے ہیں ان کی برسی منائی جائے۔ مہاراشٹر میں یہ کام شروع کر دیا گیا جس میں وہاں کے وزیر اعلیٰ حصہ لیتے ہیں اور حکومت ان کے سارے اخراجات پورے کرتی ہے۔
آر ایس ایس کا زیادہ فوکس تعلیم پر ہے۔ بھارتیہ سکشا منڈل یہ کام پوری مستعدی کے ساتھ انجام دے رہا ہے۔ منڈل آرگنائزنگ جوائنٹ سکریٹری مسٹر موکل کا کہنا ہے کہ حکومت نے اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی (IGNOU) کے تعلق سے بہت سی تجویزوں پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ سابق وزیر فروغ انسانی وسائل و ترقی مسٹر کپل سبل نے بہت سے مراکز بند کر دیئے تھے۔ آر ایس ایس نے حکومت پر زور دیا کہ 26 مراکز پھر سے شروع کئے جائیں۔ اب وہ کھول دیئے گئے ہیں۔ آر ایس ایس کے ایک لیڈر نے بتایا کہ ہم لوگوں نے Ph D طلبہ کی رہنمائی کیلئے 26 یونیورسٹیوں میں ورکشاپ منعقد کیا اور ناگپور میں 55 وائس چانسلروں کو آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں مل بیٹھنے کی دعوت دی تاکہ تحقیقی کاموں کا احیاء ہوسکے اور ہندستانی تعلیمی نظام کا ہر یونیورسٹی میں بول بالا ہو۔ کوٹھاری نے ایک انٹرویومیں بتایا کہ ہندی اور ریاستی زبانوں کو فروغ دینا آر ایس ایس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ایس ایس یو این کی اب جو مہم چلے گی اس کا کام ہوگا ہندی اور ریاستی زبانوں کو عدالتوں، مجالس قانون ساز، کالج اور یونیورسٹیوں میں رائج کیا جائے تاکہ انگریزی کی جگہ یہ زبانیں لے سکیں۔
آر ایس ایس کے خلاف دلتوں کا غصہ یا مہم کے بعد 250 مصنفوں، ٹیچرس اور ٹیلیویژن پینا لسٹوں (TV Panellists) کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں طے کیا گیا کہ دلتوں کو بھی آر ایس ایس کے فولڈ میں لانے کی کوشش کی جائے۔ مسٹر نندا کمار کو اس کام کیلئے فارغ کیا گیا ہے۔ وہ دلتوں کے دانشوروں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ میلند کاملی جو دلت چیمبرس آف کامرس کے بانی رہ چکے ہیں اور ناریندرا جادیب ایم پی اور اسکالر ہیں یہ سب ان کے معاون و مددگار ہیں۔
سیکوریٹی اور خارجہ پالیسی کیلئے بھی آر ایس ایس کی طرف سے کام کیا جارہا ہے۔ اس معاملے میں آر ایس ایس کے سابق ترجمان اور بی جے پی جنرل سکریٹری رام مادھو اور نیشنل سیکوریٹی ایڈوائزر اجیت داول کے لڑکے شوریہ داول تھنک ٹینک (Think tank) کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس قسم کا تیسرا India Ideas Conclave گوا میں نومبر کے شروع میں منعقد ہوا جس میں ارون جیٹلی، امیت شاہ، محبوبہ مفتی وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر مدعو تھے۔ امریکہ کے سفیر ریچرڈ بھی مدعوئین میں شامل تھے۔ سول سروسز کیلئے آر ایس ایس نے کوچنگ انسٹیٹیوٹ بھی قائم کیا ہے جس کا نام رکھا ہے’’سنکلپ‘‘۔ آر ایس ایس کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ 1986ء سے اب تک ہزاروں اسٹوڈنٹس کی کوچنگ کی گئی جو سول سروسز میں کام کر رہے ہیں اور آر ایس ایس کے نظریات کو پھیلاتے ہیں۔
جو لوگ بھی آر ایس ایس کے خیالات کو پسند کرتے ہیں انھیں انڈین کونسل آف ہسٹریکل ریسرچ، اندرا گاندھی نیشنل سنٹر آف آرٹس، پرسار بھارتی، نہرو میموریل میوزیم، سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن۔آر ایس ایس کے کلچرل وِنگ کے سکریٹری مسٹر سنسکار بھارتی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ آر ایس ایس عالمی ایوارڈ دینے کیلئے ایک انسٹیٹیوٹ قائم کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے جس کے ذریعہ عالمی ایوارڈ دیا جائے گا جو نوبل پرائز سے بڑی رقم ایوارڈی کو دے گی تقریباً ایک کروڑ کی رقم ہوگی۔ فلمساز چندر پرکا دیویدی کو ایوارڈ دینے کے اصول اور ضابطے کی تیاری کا کام سونپا گیا ہے۔
آر ایس ایس کا پلان ہے کہ گورنمنٹ کے کاموں میں براہ راست شامل ہو۔ جس نے بھی وجئے دشمی کے موقع پر آر ایس ایس کے سربراہ (سنچالک) موہن بھگوت کی تقریر کا تجزیہ کیا ہوگا اسے یہ سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ہوگی کہ ہندستانی سماج کو بدلنے کیلئے آر ایس ایس نے بہت بڑی پلاننگ (منصوبہ بندی) کی ہے۔ اس وقت آر ایس ایس کی سب سے اہم پلاننگ ہے کہ نریندر مودی کو دوبارہ کیسے وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھایاجائے۔ سرجیکل اسٹرائیک اور نوٹ بندی کا فیصلہ اسی سمت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
آر ایس ایس 1928ء میں قائم ہوئی تھی۔ 75/76 برس میں اسے 2014ء میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ مودی کی حکومت کو ڈھائی سال ہوگئے اور ڈھائی سال باقی ہے۔ مودی نے ڈھائی سال میں آر ایس ایس کو حکومت کے ہر شعبہ میں داخل کر دیا ہے۔ انتظامیہ سے لے کر فوج کے بڑے بڑے عہدے تک اب آر ایس ایس کی پلاننگ ہے کہ وہ حکومت کے ہر شعبہ میں براہ راست شامل ہو۔ اس میں آر ایس ایس کو کم و بیش کامیابی ہورہی ہے۔ تعلیم کے نظام کو زعفرانیت میں بدلنے کی زبردست کوشش ہے۔ یونیورسٹیوں کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا منصوبہ ہے۔ نالندہ یونیورسٹی سے پہلے امرتیہ سین جیسی عالمی شخصیت کو وائس چانسلر کی حیثیت سے ہٹایا پھر انھیں بورڈ سے بھی اسی ماہ نکال دیا۔ دوسری نیورسٹیوں میں جو کچھ آر ایس ایس اپنے طلبہ ونگ اور حکومت کے شعبہ تعلیم کے ذریعہ کر رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
آر ایس ایس کے منصوبہ میں مسلمانوں کو ہر طرح کمزور بنا دینے کا منصوبہ ہے تاکہ وہ اپنے دین و شریعت اور شعار اسلامی کیلئے آواز بلند نہ کرسکیں اور جہاں ممکن ہو آسام اور مظفر نگر کے کئی گاؤں میں رہنے والوں کے نام و نشان جس طرح مٹا دیئے گئے اسی طرح مٹا دیئے جائیں۔ اتنی بڑی پلاننگ دیکھئے اور مسلمانوں کی غفلت اور لاپرواہی ملاحظہ کیجئے۔ مسلمان خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں یا مسلکی جھگڑے اور لڑائی میں اپنی توانائی و طاقت صرف کر رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مسلم مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبران اور لیڈران آر ایس ایس کے منصوبہ پر غور و فکر کریں اور مسلمانوں کیلئے بھی کار آمد منصوبے بنائیں جس سے ملک و ملت کو ایسی انسان دشمن تنظیموں سے بچایا جاسکے۔ پہلے تو مسلمان خود چاک و چوبند بنیں پھر اوروں کو ساتھ لیں جو آر ایس ایس کے انسان دشمن منصوبہ کو اچھی طرح سمجھتے ہوں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔