میڈیا اسٹڈیز گروپ کا سروے: ہندی کے صحافی اور کشمیر

ملک میں زبان کے لحاظ سے ہندی بولنے والا علاقہ سب سے بڑا ہے۔ ہندی کے اخبارات و رسائل کا کشمیر کے بارے میں عوامی رائے بنانے میں سب سے بڑا کردار مانا جاتا ہے۔ میڈیا اسٹڈیز گروپ نے ہندی صحافت کے ذریعہ کشمیر کی ایک خاص طرح کی تصویر بنانے کے پس منظر کا مطالعہ کرنے کا ایک منصوبہ بنایا۔ ہندی صحافت میں سرگرم صحافیوں کے درمیان ایک سروے کیا گیا جس میں کشمیر کے بارے میں اور کشمیر یوں کے ساتھ ہندی صحافیوں کے تعلقات کی تہوں کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ سروے آن لائن ذریعے سے 16 ستمبر سے 22 اکتوبر 2016 کے درمیان کیا گیا۔

میڈیا اسٹڈیز گروپ کی طرف سے منعقد اس سروے کو دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ تحقیقی میگزین جن میڈیا کے دسمبر شمارے میں شائع کیا جا رہا ہے جو اس ہفتے بازار میں دستیاب ہوگا۔ جن میڈیا ابلاغ عامہ سے متعلق موضوعات پر مبنی تحقیقی میگزین ہے جو گزشتہ پانچ سالوں سے ہر ماہ نکل رہا ہے۔ اس سروے کا تجزیہ میگزین کے ایڈیٹر انل چمڑيا اور محقق ورون شیلیش نے پیش کیا ہے۔

میڈیا اسٹڈیز گروپ نے گزشتہ دس سالوں کے دوران بیس سے زیادہ سروے کیے ہیں۔ ان کے سروے میں 2006 میں کیا گیا قومی میڈیا میں سماجی نمائندگی کا سروے بھی شامل ہے۔

سروے میں باعتبار ریاست ہندی صحافیوں کی حصہ داری

میڈیا اسٹڈیز گروپ کی طرف سے کیے گئے سروے میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے سب سے زیادہ 36 فیصد صحافیوں نے حصہ لیا اور علی الترتیب بہار کے 26 فیصد، مدھیہ پردیش کے 9 فیصد، راجستھان کے 7 فیصد، اتراکھنڈ کے 6 فیصد اور دو چھوٹی ریاستوں میں جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ کے 1-1 فیصد صحافیوں نے حصہ لیا۔ دہلی میں کے صحافی 6 فیصد صحافیوں میں مرد 81 فیصد اور عورت 19 فیصد ہے۔ ریاست کے اعتبارسے اور صنف کے اعتبار سے سروے میں حصہ لینے والوں ں کی جو تعداد ہے وہ ہندی کو باعتبار ریاست اور ہندی کے ابلاغ عامہ کے ذرائع میں صنفی نمائندگی کی اصل صورت حال کے قریب ہے۔

ہندی کے صحافیوں کا پس منظر

سروے میں شامل 73 فیصد ہندو مذہب کو ماننے والے صحافی ہیں جبکہ 4 فیصد اسلام مذہب کو ماننے والے ہیں۔ تاہم ہندی کے ابلاغ عامہ ذرائع میں اسلام مذہب کو ماننے والوں کا فیصد 4 سے کم ہے۔ ہندی کے ابلاغ عامہ ذرائع کا کردار شہری مرکزیت والا ہوتا گیا ہے۔ ہندی صحافت میں شہری نمائندگی کے طور پر اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔ 43 فیصد نے شہروں سے بنیادی تعلیم حاصل کی ہے جبکہ 18 فیصد نے بڑے شہروں سے بنیادی تعلیم حصہ حاصل کی ہے۔ گاؤں میں پرائمری تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد محض 16 فیصد ہے اور قصبے کے اسکولوں میں پڑھ کر صحافت میں سرگرم لوگوں کی تعداد 23 فیصد ہے ۔ ہندی صحافت میں سرگرم ارکان میں 70 فیصد نے سرکاری ہائی سکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے اور 30 فیصد ہی غیر سرکاری ہائی سکولوں سے تعلیم یافتہ ہیں۔ تعلیمی پس منظر اقتصادی صورت حال پر بھی انحصار کرتاہے۔ ہندی صحافت میں 29 فیصد صحافی ایسے ہیں جو کہ مقامی کالجوں سے پڑھ کر نکلنے اور 32 فیصد شہری علاقے کے کالجوں میں، تو 15 فیصد ریاست کے دارالحکومت اور 23 فیصد نے ملک کے دارالحکومت دہلی کے کالجوں سے اپنا تعلیمی پس منظر پایاہے۔

صحافت کے لیے اقتصادی، سماجی، سیاسی پس منظر کا حوالہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ تعلیمی تربیت بھی اہم ہوتی ہے۔ ہندوستان میں تعلیمی تربیت میں عدم مساوات بھی ہے اور مختلف طرح تعلیمی نظام اور کورس بھی لاگو ہیں۔ ان کے الگ الگ سیاسی مقاصد سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ اس حقیقت کی تصدیق کی گئی ہے کہ مخصوص سیاسی نظریات کے حامل افراد تیار کرنے کا عمل تعلیمی اداروں کے ذریعے سے انجام دیا جاتا ہے۔ تعلیمی تربیت میں موضوعات کا بھی کردار ہوتا ہے۔ ہندی صحافت میں سرگرم ارکان میں 54 فیصد نے آرٹ سے گریجویشن کیا ہے جبکہ سائنس کی ڈگری کا پس منظر رکھنے والے محض 23 فیصد ہیں۔ کامرس کے پس منظر کے حامل افراد 9 فیصد تو دیگر موضوعات کے پس منظر کے حامل افراد 14 فیصد ہیں۔

صحافت کی تربیت

ہندی صحافت اور کشمیر کے رشتے سے جڑے سوالوں کے اعداد و شمار کے تجزیےسے پہلے دو دیگر پہلوؤں سے متعلق اعداد و شمار کی پریزنٹیشن یہاں ضروری ہے۔ ہندی صحافت میں سرگرم ارکان میں 54 فیصد نے پرائیویٹ یعنی غیر سرکاری یعنی میڈیا کمپنیوں کی طرف سے چلائے جانے والے یا مخصوص سیاسی نظریات کی طرف میلان رکھنے والے غیر سرکاری اداروں کے تربیتی مراکز سے سے تربیت حاصل کی ہے۔ بطور مثال یہاں ذکر کیا جا سکتا ہے کہ صحافت کے غیر سرکاری تربیتی مراکز کی بڑی تعداد میں قائم نیا مظہر ہے۔ وہ بھی خاص طور سے 1990 کی دہائی کے بعد سے دیکھاگیا ہے۔ سروے میں حصہ لینے والوں کے مطابق 25 فیصد نے یونیورسٹیوں سے صحافت کی تربیت حاصل کی ہے۔ 20 فیصد نے ان دونوں سے مختلف عمل کے تحت تربیت حاصل کی۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ سروے میں شریک صحافی جن کا تجربہ ایک سے پانچ سال کا ہے۔ ان کا فیصد 33 ہے لیکن دوسری طرف 20 فیصد تعداد ان کی ہے جنہیں صحافت میں 20 سال سے زیادہ ہو گئے۔ 6 سال سے لے کر 20 سال تک کے تجربہ والے صحافیوں کی تعداد 47 فیصد ہے۔ ان میں 41 فیصد اخبارات میں تو 5 فیصد میگزین میں اور 17 فیصد ٹی وی چینلز میں سرگرم ہیں۔ ریڈیو میں کام کرنے والوں کی سب سے کم تعداد 2 فیصد ہے جبکہ 11 فیصد انٹرنیٹ سے منسلک ہے اور 24 فیصد ملازمت پیشہ ہونے کے بجائے دیگر سطحوں پر صحافت میں سرگرم ہیں۔

پیشے میں تجربے کے سال

 پیشے میں تجربے کے سال

 

1-56-1011-1516-2020 سے زائدجواب دینے والے صحافی
 27 (33٪)22 (27٪)10 (12٪)7 (8٪)17 (20٪)83

فی الحال نوکری پیشہ

فی الحال نوکری پیشہ

 

اخبارمیگزینٹی وی چینلریڈیوانٹرنیٹدیگرجواب دینے والے صحافی
 34 (41٪)4 (5٪)14 (17٪)2 (2٪)9 (11٪)20 (24٪)83

ہندی صحافت میں سرگرم ارکان کی کشمیر کے ساتھ تعلقات کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل اعداد و شمار پر غور کیا جا سکتا ہے۔

  1. آئین میں کشمیر سے مراد دفعہ 370 کے بارے میں 46 فیصد ہندی کے صحافیوں کو اخبارات سے معلومات ملیں۔ 11-11 فیصد نے اسکول کے اساتذہ سے اور تقریروں کے ذریعے اس تعلق سے معلومات حاصل ہونے کا دعوی کیا ہے۔ لیکن 16فیصد صحافی ایسے ہیں جنہوں نے محض کسی سے بات چیت کے ذریعے اس سلسلے میں معلومات حاصل کی ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے سے بھی آئین کی اس دفعہ کے بارے میں جاننے والوں کی تعداد 13 فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آئین کے ذریعے دفعہ 370 کے بارے میں جاننے کی طرف صحافیوں کارجحان نہیں رہا ہے۔ جن ذرائع سے آئین کی اس دفعہ کی معلومات صحافیوں کو ملی ہے وہ ان ذرائع سے اس دفعہ کے متعلق تشریح و تجزیہ کے ساتھ ہی سننے یا جاننے کی ملی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ہر ذریعہ اپنے مخصوص سیاسی پس منظر کے مطابق آئین کی دفعات کی تشریح کر سکتا ہے۔
  2. ایک دوسرے سوال کے جواب میں سروے میں حصہ لینے والے 80 فیصد افراد نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے دفعہ 370 کے آئین کی شق میں سیاسی پس منظر کے بارے میں پڑھا ہے جو کہ مندرجہ بالا سوال سے ملے جواب سے متعارض صورت حال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر 370 کی سیاسی پس منظر کے بارے میں پڑھنے کا دعوی صحیح ہے تو اس کے بغیر دفعہ 370 کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے ذرائع مختلف کیسے ہو سکتے ہیں۔ تاہم 20 فیصد افراد نے اعتراف کیا ہے کہ 370 کی سیاسی پس منظر کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے ہیں۔
  3. کشمیر کے تناظر میں آئین کی دفعہ 370 کے بارے میں کہاں سے معلومات ملیں؟
رشتہ دار سےاسکول میں استاد سےتقریر سےبات چیت کے دورانسماجی کارکن سےٹیلی ویژن سےخبریں

خط سے

سوشل میڈیا سےمعلومات نہیں ملیںجواب دینے والے صحافی
0 (0٪)9 (11٪)9 (11٪)13 (16٪)1 (1٪)11 (13٪)38 (46٪)2 (2٪)83

آئین کی دفعہ 370 کی سیاسی پس منظر کے بارے میں پڑھا ہے؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
67 (80٪)17 (20٪)84

سروے میں کشمیر کے بارے میں پوچھے گئے سوالات سے افراد کے جواب متضاد ہونے کے واضح اشارے ملتے ہیں۔ 67 فیصد افراد نے بتایا کہ کشمیر کے بارے میں انہوں نے کچھ جو پڑھا ہے اس کا ذریعہ اخبارات و رسائل ہیں۔ اخبارات میں کشمیر کے بارے میں جو کچھ شائع ہوتا رہا ہے، اس کا بھی الگ سے مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اخبارات میں کشمیر کو لے کر ایک علیحدگی پسند نقطہ نظر کا غلبہ رہا ہے۔ رسائل کے ذریعے کشمیر کے بارے میں پڑھنے والوں کی تعداد 17 فیصد ہے تو محض ایک فیصد صحافیوں نے تحقیقی مقالوں کے ذریعے کشمیر کے بارے میں پڑھا ہے۔

کشمیر کے بارے میں ہندی میں آپ نے کچھ پڑھا ہے؟

اخبار میں مضامینرسالے میں مضامینکتابسیاسی پارٹی کے ترجمان اخبارتحقیقی مقالےسماجی تنظیم کا پرچہجواب دینے والے صحافی
56 (67٪)14 (17٪)11 (13٪)0 (0٪)1 (1٪)2 (2٪)84

اس جواب کے بعد اگلے سوال کے جواب میں ایک حد تک تضاد کی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ کشمیر کی سیاسی تاریخ کی نصابی کتابوں سے معلومات ملنے کا جو دعوی کر رہے ہیں ان کی تعداد 23 فیصد ہے۔ لگتا ہے کہ سروے میں حصہ لینے والوں نے کشمیر سے اپنے تعلقات کی حقیقت کو چھپانے کے ارادے سے سروے میں پوچھے گئے آگے کے سوالات کا چوکنے ہوکر جواب دیا۔ بہر حال سیاسی تاریخ کے تعلق سے اخبارات اور میگزین کے ذریعے معلومات حاصل کرنے والوں کی تعداد 58 فیصد ہے۔ تحقیقی مواد سے صرف 6 فیصد نے کشمیر کی سیاسی تاریخ کو جانا ہے۔

کشمیر کی سیاسی تاریخ کی معلومات کہاں سے ملیں؟

کشمیر کی سیاسی تاریخ کی معلومات کہاں سے ملی؟

 

نصابی کتاب سےتحقیقی مواد سےباہمی بات چیت سےاخبارات و میگزین سےسوشل میڈیا سےنہیں ملیجواب دینے والے صحافی
 19 (23٪)5 (6٪)8 (10٪)49 (58٪)1 (1٪)2 (2٪)84

  1. اس سوال کا جواب بھی دلچسپ اعداد و شمار پیش کرتا ہے کہ 70 فیصد نے تقسیم کے وقت پاکستانی قبائل کے خلاف کشمیریوں کی شہادت کے بارے جاننے کا دعوی کیا ہے۔ 30 فیصد نے صاف انکار کیا کہ کشمیریوں نے تقسیم کے وقت پاکستانیوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہادت دی تھی۔

ہندوستان کی تقسیم کے وقت کشمیر میں پاکستانی قبائل کے حملوں کے خلاف کشمیریوں کی شہادت کے بارے میں جانتے ہیں؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
58 (70٪)25 (30٪)83

  1. کشمیر کے اقتصادی اور سماجی مسائل کے بارے میں تھوڑا بہت جاننے والوں کی تعداد 42 فیصد ہے۔ یعنی کشمیر اپنی خوبصورتی ، فلمی شوٹنگ، دہشت گردی جیسے موضوعات کے باعث زیادہ تر صحافیوں کے درمیان جانا جاتا رہا ہے۔ تاہم 31 فیصد نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ اقتصادی سماجی مسائل کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کے سوالات کے جواب کے اعداد و شمار ایک متضاد موقف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کشمیر کے سماجی اقتصادی مسائل کے بارے میں زیادہ نہ جاننے والوں کی تعداد 23 فیصد ہے۔

کشمیر کی اقتصادی و سماجی مسائل کے بارے میں معلومات ہے؟

اچھی طرحزیادہ نہیںتھوڑا بہتکچھ نہیںکبھی کوشش نہیں کیجواب دینے والے صحافی
26 (31٪)19 (23٪)35 (42٪)2 (2٪)2 (2٪)84

  1. کشمیر کو پہلی بار ہندی کے صحافیوں نے اس کے طور پر جانا کہ کشمیر وادی بہت خوبصورت ہے۔ کشمیر کی خوب صورتی سے 57 فیصد ہندی کے صحافیوں کے رشتوں کی شروعات ہوتی ہے۔ 20 فیصد نے تو دہشت گردی کے ذریعے کشمیر کو پہلی بار جانا۔ فلم کی شوٹنگ کشمیر میں ہوتی ہے اس ناتے کشمیر کو جاننے والوں کی تعداد 11 فیصد ہے۔ چار فیصد نے بتایا کہ ان کاکشمیر سے تعلق کاآغاز کس شکل میں ہوا انہیں یاد نہیں ہے۔ آٹھ فیصد نے کشمیر کے ساتھ مختلف وضع کا اپنا رشتہ بنایا جس کہ اگلے سوال سے حاصل جوابوں سے واضح ہوتا ہے۔ کشمیر کا منظر براہ راست دیکھنے والوں کی تعداد بھی 8 فیصد ہے۔ اس سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ کشمیر جاکر کشمیر کو جاننے والوں کی تعداد 8 فیصد ہے۔ جبکہ کشمیر کا منظر پہلی بار فلم کے ذریعے دیکھنے والوں کا فیصد 52 ہے۔ 39 فیصد نے ٹیلی ویژن پر کشمیر کے منظر پہلی بار دیکھے۔ یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا انہیں ابلاغ عامہ کے ذرائع میں کشمیر میں سیاحت، فلمی شوٹنگ اور دہشت گردی کے علاوہ کسی دیگر نیوز رپورٹ کے بارے میں فوری یاد آتا ہے تو 46 فیصد نے جواب نہیں دیا۔ یہ ذرائع ابلاغ عامہ میں کشمیر کے سماجی، اقتصادی پہلوؤں سے جڑی خبروں و مواد کی غیر موجودگی کے واضح اشارہ کہے جا سکتے ہیں۔

آپ نے کشمیر کے تناظر میں پہلی بار جانا (ایک سے زیادہ اختیارات پر نشان لگا سکتے ہیں)؟

کشمیر وادی کی خوبصورتی کے بارے میںدہشت گردی کے بارے میںکشمیر میں فلم کی شوٹنگ کے بارے میںیاد نہیںدیگرجواب دینے والے صحافی
48 (57٪)17 (20٪)9 (11٪)3 (4٪)7 (8٪)84

آپ نے کشمیر کا منظر پہلی بار کہاں دیکھا

ٹیلی ویژن پرفلم میںخود جاکرجواب دینے والے صحافی
33 (39٪)44 (52٪)7 (8٪)84

کشمیر میں سیاحت، فلم کے لیے کشمیر میں شوٹنگ اور دہشت گردی کے علاوہ کسی ٹیلی ویژن چینل میں دیکھی گئی کسی رپورٹ کی فوری یاد آ رہی ہے؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
45 (54٪)38 (46٪)83

  1. سروے میں ان سوالات کی توسیع اس انداز کی گئی کہ ہندی کے صحافیوں کا کشمیر کے لوگوں کے ساتھ رشتہ کن علمی ، فکری و سماجی بنیادوں پر قائم ہے۔ ہندی صحافیوں میں 25 فیصد صحافی ایسے ہے جن کی ابھی تک کسی بھی کشمیری سے ملاقات نہیں ہے۔ جبکہ 49 فیصد نے یہ دعوی کیا ہے کہ ان کی کشمیری مسلمانوں سے ملاقات ہے اور 26 فیصد نے کشمیر کے پنڈتوں سے ملنے کا دعوی کیا ہے۔ لیکن اس کے بعد کے سوال میں افراد میں 23 فیصد نے بتایا کہ کسی کشمیری سے ان صرف دو گھنٹے کی ہی ملاقات ہے۔ کشمیریوں سے ساتھ ایک ہفتے سے زیادہ وقت گزارنے والوں کی تعداد 35 فیصد ہے لیکن 25 فیصد کی تو کسی کشمیری سے بات چیت بھی نہیں ہوئی ہے، یہ حیران کرنے والی معلومات بھی حاصل ہوئی ہے۔

آپ کی ملاقات کبھی کسی کشمیری سے ہوئی ہے اور ہوئی ہے تو کس سے؟

کشمیری پنڈت سےکشمیری مسلم سےکسی کشمیری سے نہیں ملاجواب دینے والے صحافی
22 (26٪)41 (49٪)21 (25٪)84

کسی کشمیری سے کتنی دیر بات ہوئی ہے؟

دو گھنٹےچھ گھنٹےایک دن سے زیادہایک ہفتے سے زیادہنہیں ہوئی ہےجواب دینے والے صحافی
19 (23٪)1 (1٪)14 (17٪)29 (35٪)21 (25٪)84

 

 قوم پرستی بنام قومی سروکار

اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے کہ 1947 سے پہلے ملک کے کسی حصے سے نکلنے والے کسی اخبار اور میگزین کو علاقائی اور قومی کے درمیان بانٹ کر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ ملک کے کسی بھی حصے سے شائع کسی بھی خط میگزین کو قومی ہی مانا جاتا تھا۔ لسانی بنیاد پر بھی صحافت کو تقسیم کرنے کا عمل سیاسی سطح پر قومی سیاست کے مختلف بنیادوں پر تقسیم ہونے کے عمل کے ساتھ ساتھ ہی بڑھتا چلا گیا۔ علاقائی صحافت اور قومی صحافت کی تقسیم بھی سیاسی ہے۔ فعال صحافیوں کا صحافتی سروکار  بھی قومی ہو یہ توقع مناسب نہیں لگتی۔ مختلف سطحوں پر تقسیم صحافت نے اپنے لیے انسانی وسائل کی تیاری ہے۔ اسی لیے صحافیوں کے درمیان ویسے صحافیوں کی تلاش کر پانا بہت مشکل ہے جن کا نقطہ نظر تمام قومی ہو ( اور پورا ملک ہو نہ کہ علاقائی )۔

  1. سروے میں حاصل ان اعداد و شمار سے یہ تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سروے میں شریک صحافیوں میں 37 فیصد صحافیوں نے بتایا کہ وہ اس ریاست کو سب سے زیادہ جانتے ہیں جس میں ان کی پیدائش ہوئی ہے۔ پڑوسی ریاستوں تک کو جاننے میں دلچسپی کا فقدان اس حد تک ہے کہ صرف چار فیصد صحافی ہی پڑوسی ریاستوں کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ تاہم 35 فیصد صحافیوں نے بتایا کہ وہ شمالی ہندوستان یعنی ہندی بیلٹ والی ریاستوں کو بہتر طریقے سے جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں ایک تضاد دکھائی دیتا ہے۔ پھر ان اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہندی بیلٹ کے صحافیوں میں قومی سروکار کا فقدان ہے۔ صرف 7 فیصد نے بتایا کہ وہ شمالی اور جنوبی کے تمام ریاستوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ لیکن شمال اور جنوب سمیت شمال مشرق کی ریاستوں کو اچھی طرح سمجھنے والے صحافیوں کی تعداد محض چار فیصد ہے۔ تاہم 14 فیصد نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ وہ ملک کی تمام ریاستوں کو اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے ہیں۔

سب سے زیادہ ملک میں جس ریاست / ریاستوں کو جانتے ہیں؟

ریاست جس  میں پیدائش ہوئیپڑوسی ریاست کوشمالی ہندوستان کی ریاستوں کوشمال اور جنوب کی تمام ریاستوں کوشمال جنوبی سمیت شمال مشرق کی تمام ریاستوں کوملک کی تمام ریاستوں کوجواب دینے والے صحافی
31 (37٪)3 (4٪)29 (35٪)6 (7٪)3 (4٪)12 (14٪)84

  1. مندرجہ بالا اعداد وشمار کے تضاد کو سمجھنے میں ایک دوسرے سوال کے جواب کے اعداد و شمار مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ سروے میں پوچھا گیا کہ شمال مشرقی لوگوں سے بات کرتے ہوئے کیا وہ ایک مختلف جذبات محسوس کرتے ہیں۔ سروے میں شامل نصف سے زیادہ افراد نے ہاں میں جواب دیا۔ 52 فیصد صحافی شمال مشرق کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بی چینی و اضطراب محسوس کرتے ہیں۔ 48 فیصد نے یہ دعوی کیا کہ وہ وسطی ہندوستان کے لوگوں سے بات چیت کرنے اور شمال مشرق کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کے دوران کسی طرح کا فرق نہیں محسوس کرتے ہیں۔

شمال مشرقی ہندوستان کے لوگ سے بات کرتے ہوئے آپ اسی طرح محسوس کرتے ہیں جیسے کسی وسط ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ کرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
44 (52٪)40 (48٪)84

ہندی صحافیوں کی کشمیر کے ساتھ تعلقات کی شناخت

  1. 66 فیصد صحافیوں کو یہ معلومات ہے کہ کشمیر میں جو لوگ اپنے ناموں کے ساتھ پنڈت لگاتے ہیں وہ ہندو ہوتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں متعدد نسلی اشاروں کا استعمال تمام کشمیری کرتے ہیں خواہ وہ ہندو ہو ں یا مسلمان۔ پنڈت عنوانات یا مختصر نام بھی استعمال ہندو اور مسلم دونوں کرتے ہیں۔

کشمیر میں پنڈت عنوانات والے ہندو ہوتے ہیں؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
54 (66٪)28 (34٪)82

  1. 24 فیصد صحافیوں نے یہ مانا کہ کشمیر سے صرف ہندو بے گھر ہوئے ہیں۔ جبکہ 76 فیصد صحافیوں نے بتایا کہ انہیں کشمیر سے ہندوؤں کے علاوہ مسلمانوں اور دیگر کے بھی بے گھر ہونے کی اطلاع ہے۔

کشمیر سے ہندوؤں کے علاوہ مسلمان اور دیگر کشمیری بھی بے گھر ہوئے ہیں؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
62 (76٪)20 (24٪)82

  1. کشمیر میں میر واعظ کا نام اخبارات میں اکثر آتا ہے۔ ہندی کے صحافیوں میں 68 فیصد کو یہ نہیں معلوم ہے کہ میر واعظ مذہبی لیڈر ہیں۔ 68 فیصد انہیں صرف سیاستدان کے طور پر دیکھتے ہیں۔

میر واعظ کون ہے؟

سیاستدانمذہبی لیڈرجواب دینے والے صحافی
53 (68٪)25 (32٪)78

  1. سروے میں یہ واضح ہوتا ہے کہ 58 فیصد ہندی کے صحافی کشمیر کے جھنڈے کی شناخت نہیں کر سکتے ہیں۔

کشمیر کے پرچم کی شناخت کر سکتے ہیں؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
35 (42٪)48 (58٪)83

  1. 51 فیصد ہندی کے صحافیوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ کشمیر کے تئیں ہندی بیلٹ کے لوگوں میں علیحدگی کا احساس رہتا ہے۔

ہندی بیلٹ  کے لوگوں میں کشمیر کے تئیں علیحدگی پسندی کا  احساس رہتا ہے؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
42 (51٪)40 (49٪)82

  1. 77 فیصد صحافیوں نے یہ تسلیم کیا کہ انھوں نے کشمیری لوگوں کے جمہوری حقوق کی بازیابی کے لیے کبھی بھی کسی پروگرام میں حصہ نہیں لیا ہے۔

کشمیری لوگوں کے جمہوری حقوق کے لیے کبھی کسی پروگرام میں حصہ لیا ہے؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
19 (23٪)64 (77٪)83

  1. 81 فیصد صحافیوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ کشمیر سے شائع ہونے والے کسی اخبار کو نہیں پڑھتے ہیں۔

کشمیر سے شائع اخبار پڑھتے ہیں؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
16 (19٪)67 (81٪)83

  1. 61 فیصد صحافیوں کا خیال ہے کہ کشمیر کے تئیں ان کی خبروں کے ذرائع کا کردار اچھانہیں ہے جو کہ دہلی اور حکومت میں مرکوز ہے۔

کشمیر پر دہلی اور حکومت  کے نمائنداخبارات کا کردار اچھاہے؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
33 (39٪)51 (61٪)84

کشمیر کا مسئلہ اور ہندی کے صحافی

  1. ہندی کے صحافیوں میں 45 فیصد کا یہ ماننا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کی جڑ میں بیرونی طاقتیں ہیں۔ 18 فیصد مذہبی جذبات کو مسئلہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یعنی 66 فیصد پرمختلف انداز سے پاکستان اور اسلام کو کشمیر کے مسئلے کے جڑ میں دیکھتے ہیں۔37 فیصد ایسے صحافی ہیں جو کشمیر کے ساتھ امتیازی سلوک کی پوزیشن کو ہی کشمیر کے مسئلے کی جڑ میں دیکھتے ہیں۔

کشمیر کےمسئلہ کی اصل جڑ کیا ہے؟

مذہبی جذباتبیرونی طاقتیںکشمیر کے تئیں امتیازجواب دینے والے صحافی
15 (18٪)37 (45٪)31 (37٪)83

  1. سروے میں پوچھے گئے دوسرے سوال سے مندرجہ بالا تجزیہ کو تقویت ملی۔ 55 فیصد ہندی کے صحافی یہ مانتے ہیں کہ کشمیر میں علیحدگی پسندی کا جذبہ پاکستان کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔

کشمیر میں علیحدگی پسندیکا جذبہ پاکستان کی وجہ سے حاصل ہوتاہے؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
46 (55٪)38 (45٪)84

  1. ہندی کے صحافیوں میں 49 فیصد کا یہ ماننا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل کشمیریوں سے بات چیت کے ذریعے ہی ہونا چاہیے جبکہ 19 فیصد ریفرنڈم کے حق میں ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کےحل کے حق میں 20 فیصد صحافی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ بات چیت سے مسئلہ کشمیر کا حل دیکھنے والے صرف ایک فیصد صحافی ہیں جبکہ 10 فیصد ایسے صحافی ہیں جو صرف فوجی قوت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔

کشمیر کا مسئلہ کا کیا حل ہے؟

ریفرنڈمکشمیریوں سے بات چیتپاکستان کے ساتھ بات چیتکشمیریوں اور پاکستان سے بات چیتفوجی فورسز کی طرف سےجواب دینے والے صحافی
16 (19٪)41 (49٪)1 (1٪)17 (20٪)8 (10٪)83

  1. 77 فیصد صحافی یہ دعوی کرتے ہیں کہ اگر ان کے سامنے پرچم رکھے جائیں تو اس میں وہ اسلام کے پرچم کی شناخت کر سکتے ہیں۔

اسلام مذہب کے پرچم کی شناخت کر سکتے ہیں؟

ہاںنہیںجواب دینے والے صحافی
63 (77٪)19 (23٪)82

رابطہ: انل چمڑیا 9868456745

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔