انجام

عزیر انجم کادوسرا افسانوی مجموعہ "انجام” آپ بیتی سے زیادہ جگ بیتی شعر و ادب کی دنیا کو ملک گیر شہرت یافتہ نام عطا کرنا مشترکہ چمپارن کی روایت رہی ہے – اسی روایت کو جاری رکھتے ہوئے دور حاضر میں  مشرقی چمپارن نے افسانہ نگاری میں  ایک نیا  نام عزیر انجم کا جوڑا ہے – عزیر انجم کی پیدائش محمد سجاد حسین (مرحوم)  اور محترمہ رقیبہ خاتون کے گھر سسونیا،   موتیہاری،  مشرقی چمپارن میں  16 مئی 1965 کو ہوئی – انھوں  نے ایم-اے- کی سند پٹنہ یونیورسٹی،  پٹنہ سے،   فاضل اردو کی ڈگری مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ،   پٹنہ سے اور فاضل فارسی کی ڈگری ادارۂ تحقیقات عربی و فارسی،   پٹنہ سے حاصل کی اور صحافت و سیاست سے جڑ گئے – فی الحال وہ روزنامہ قومی تنظیم مشرقی چمپارن کے بیورو چیف کا عہدہ سنبھال رہے ہیں  -اب تک ان کے دو افسانوی مجموعے "آدمی کی بستی میں ” 2009 میں  اور "انجام” 2016 میں  شائع ہو چکے ہیں  – یہاں  ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ "انجام” زیر تبصرہ ہے جس میں  کل 96 صفحات اور 17 افسانے ہیں  – کمپوزنگ محمد اکرام،   سر ورق شرف عالم اور طباعت عفیف پرنٹرس،   دہلی نے کی ہے – پیش لفظ ملک گیر شہرت یافتہ افسانہ نگار جناب فاروق راہب صاحب کا ہے اور بیک کور پر جناب کوثر مظہری صاحب ( شعبئہ اردو،  جامعہ ملیہ اسلامیہ،  نئی دہلی)  کے تاثرات ہیں  –

 کسی بھی ملک یا قوم کے مستقبل کا انحصار بچوں  پر ہوتا ہے اسلئے ان کے ذہنی اور جسمانی پرداخت پر حکومت اور سماج کی خاص توجہ ہونی چاہئے مگر انہیں  بچوں  کو تعلیم و  تربیت کے لئے اسکول جانے کی بجائے مفلسی کے ویران جزیرے پر قید اپنے کنبے کو بھوک کے آتش فشاں  سے بچانے کے لئے چوک چوراہوں  پر گا بجاکر یا خطرناک کھیل تماشے اور کرتب دکھا کر پیسہ کمانے کو مجبور دیکھتے ہیں  تو جناب عزیر انجم کے اندر کا حساس انسان شدت غم سے تڑپ اٹھتا ہے اور یہی تڑپ "آخر کب تک” جیسی کہانی کو جنم دیتی ہے – دنیا کے تمام مذاہب مجبوروں  اور لاچاروں  کی مدد کا درس دیتے ہیں  مگر خود کو کسی نہ کسی  مذہب کاپاسدار بتانے والے ان انسانوں  کی ذہنیت کا معیار اس قدر تنزلی کا شکار ہو چکا ہے جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے – زلزلے،   سیلاب،   جنگ یا فسادات میں  اپنا گھر بار،   مال و اسباب،  یہاں  تک کہ اپنے خویش و اقارب کی جانیں  گنوا چکے بے بس اور لاچار لوگ جو اپنی لُٹی پِٹی زندگی راحت کیمپوں  میں  گزارنے کو مجبور ہو جاتے ہیں  ان کی مدد کرنے کی بجائے ذمہ دار افسران،  انتظامیہ کے لوگ یا پھر ان کی حفاظت میں  مامور  اہلکار ان کی بے بسی کا فائدہ اٹھا کر ان کے منھ کے نوالے چھیننے،  یہاں  تک کہ ان کی عورتوں  کی عصمت دری سے بھی باز نہیں  آتے – "بھنور میں  زندگی” کہانی کے ذریعہ عزیر انجم نے راحت کیمپوں  میں  ہونے والی بد عنوانیوں  کو بے نقاب کرنے اور انکی طرف سرکار اور عوام کو متوجہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے –

  دہشت گردی کا دانَو جس نے اپنی شیطانی حرکات و سکنات اور جارحانہ بد عملی سے پوری دنیا کو تباہی و بربادی کی آماج گاہ بنا رکھا ہے،   در اصل ناپاک سوچ رکھنے والے اور پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب پالنے والے چند آدم زاد کا ایجاد کردہ حربہ ہے – دنیا کے جس خطے پر انھیں  اپنی حکومت کا جال پھیلانا ہوتا ہے وہاں  پہلے یہ لوگ اس دہشت گردی کے دانَو کو جس کاریموٹ کنٹرول ان کے پاس ہوتا ہے،  قہر برپا کرنے والے اپنے تیار کردہ خونی اسلحوں  کے ساتھ بھیج دیتے ہیں  اور پھر بعد میں  اس کا خاتمہ کرنے کے نام پر رفتہ رفتہ وہاں  اپنے پاؤں  جما لیتے

ہیں  – چند چالبازوں  کےفریب میں  گرفتار اس دہشت گردی میں  ملوث ناسمجھ لوگ خود اپنی تباہی و بربادی کا سبب بنتے ہیں  اور جب تک وہ ہوش و حواس کی وادی تک لوٹ کر آتے ہیں  تب تک اپنا سب کچھ گنوا چکے ہوتے ہیں  – دہشت گردی نے انسانی سوچ کو اس قدر پامال کر دیا ہے کہ انسانیت اپنا وجود کھوتی نظر آرہی ہے – حالات اتنے بدتر ہو چکے ہیں  کہ لوگ زہریلے سانپوں  پر تو اعتبار کر سکتے ہیں  مگر انسانوں   پہ نہیں  – افسانہ "اعتبار” اور "جیسی کرنی ویسی بھرنی” کے ذریعہ عزیر انجم یہی باتیں  کہنا چاہتے ہیں  –

 جناب عزیر انجم صاحب ذاتی زندگی میں  صحافت اور سیاست سے جڑے ہوئے ہیں  اور ایک اچھے خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ مشاعروں  میں  نظامت کے فرائض بھی بحسن وخوبی ادا کرتے ہیں  – انکی ان خوبیوں  کی جھلک ان کے افسانوں  میں  صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے – عوامی زندگی کے مختلف شعبوں  کے مسائل سے عزیر انجم بخوبی واقفیت رکھنے کے ساتھ ان کے حل کا جذبہ بھی رکھتے ہیں  – ان کے زبان و بیان میں  سادگی،  سلاست  اور روانی ہے۔  اسلئے پوری امید کی جا سکتی ہے کہ ان کا نیا افسانوی مجموعہ "انجام” عوام الناس کے دلوں  پر راج کرنے میں  کامیاب ہوگا –

تبصرے بند ہیں۔