مولانا آزاد کی دینیاتی تخلیق ( آخری قسط)

مولانا ابوالکلام آزاد قرآن مجید کے سورہ بقرہ، آیت نمبر14 کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

 ’’اور غور کرو اس سے بڑھ کر ظلم کرنے والا انسان کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی عبادت گاہوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی میں کوشاں ہوں۔ جن لوگوں کے ظلم و و شرارت کا یہ حال ہے، یقینا وہ اس لائق نہیں کہ خدا کی عبادت گاہوں میں قدم رکھیں۔ بجز اس حالت کے کہ ڈرے سہمے ہوں۔ یاد رکھو؛ ایسے لوگوں کیلئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں سخت ترین عذاب‘‘۔

  اس آیت کی تفسیر میں مولانا آزاد لکھتے ہیں: ’’یعنی مذہبی گروہ بندی کی گمراہی کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کی عبادت گاہیں تک الگ الگ ہوگئی ہیں اور باوجودیکہ تمام پیروانِ مذاہب ایک ہی خدا کے نام لیوا ہیں؛ لیکن ممکن نہیں ایک مذہب کا پیرو دوسرے مذہب کی بنائی ہوئی عبادت گاہوں میں جاکر خدا کا نام لے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہر وہ گروہ صرف اپنی عبادت گاہ کو خدائی عبادت گاہ سمجھتا ہے۔ دوسرے گروہ کی عبادت گاہ کا اس کی نظروں میں کوئی احترام نہیں؛ حتیٰ کہ وہ مذہب کے نام پر اٹھتا ہے اور دوسروں کی عبادت گاہیں منہدم کر ڈالتا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ خدا کے بندوں کو خدا کی یاد سے روکا جائے اور صرف اس لئے روکا جائے کہ وہ ایک دوسرے مذہبی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں یا ایک عبادت گاہ ڈھا دی جائے کہ وہ ہماری بنائی ہوئی نہیں۔ دوسرے گروہ کی بنائی ہوئی ہے۔ کیا تمہارے بنائے ہوئے مذہبی جتھوں کے اختلاف سے خدا بھی مختلف ہوگئے اور اس ایک جتھہ کی عبادت گاہ تو خدا کی عبادت گاہ ہوئی، مگر دوسرے جتھے کی عبادت گاہ خدا کی عبادت گاہ نہیں‘‘۔

تفسیر قرآن اور دین کے بارے میں مولانا آزاد کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن مجید کو صرف ایک مسلمان کی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ ایک انسان کی نظر سے دیکھا جو انسان کے احترام کو ایمان کا جزو اعظم سمجھتا ہے۔ انھوں نے یہ فرض نہیں کیا کہ قرآن مجید صرف مسلمانوں کیلئے نازل ہوا ہے بلکہ یہ جان کر کہ قرآن کا مخاطب عالم انسان ہے۔ قرآن کی تفسیر لکھی اور یہ نکتہ بیان کیا کہ قرآن مجید کا انقلابی پیغام یہ ہے کہ یہ کسی کو جھٹلانے نہیں آیا ہے بلکہ تمام باقی بانیانِ مذاہب پر جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی گئی ہیں، قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے۔ کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ خدا کی وحدانیت، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور گزشتہ پیغمبروں کی نبوت اور ان پر نازل کی ہوئی کتابوں پر ایمان نہ لائے اور پھر قرآن نے ایک نہیں کئی بار کہہ دیا ہے کہ ہم نے وقت وقت پر ہر بستی کے لوگوں کیلئے اپنے رہنما بھیج دیئے۔ کچھ وہ ہیں جن کے ہم نے قرآن میں نام گنوائے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کے نام مذکور نہیں ہیں مگر ان کا سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔

 مولانا آزاد لکھتے ہیں : ’’قرآن مجید نے بار بار اور قطعی لفظوں میں اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ وہ کسی نئی مذہبی گروہ بندی کی دعوت کیلئے نہیں آیا بلکہ چاہتا ہے کہ تمام مذہبی گروہ بندیوں کو جنگ و نزاع سے دنیا کو نجات دلادے اور سب کو اسی ایک راہ پر جمع کر دے جو سب کی مشترک اور متفقہ راہ ہے۔ وہ باربار کہتا ہے کہ جس راہ کی میں دعوت دیتا ہوں، وہ کوئی نئی راہ نہیں، اور نہ سچائی کی راہ نئی ہوسکتی ہے۔ یہ وہی راہ ہے جو روز ازل سے موجود ہے اور تمام مذاہب کے داعیوں نے اسی کی طرف بلایا ہے‘‘۔

مولانا آزاد اسی نکتے کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کے بعد ایک سوال کرتے ہیں کہ اس کے باوجود قرآن اور رسول اسلام کی مخالفت کیوں ہوئی؟ مخالفت کا سبب تو یہ ہوتا کہ وہ کہتے میں ایک نئی چیز لے کر آیا ہوں۔ اور وہ لوگ اپنی روایات کا ڈھانچہ ہلتے دیکھ کر ان کی مخالفت کرتے، مگر ایسا تو نہ تھا۔ وہ ان تمام پیغمبروں اور بانیانِ مذہب کی نہ صرف تصدیق کرتے تھے بلکہ مسلمان ہونے کیلئے یہ شرط بھی تھی کہ اگلے وقتوں کے پیغمبروں اور ان پر نازل شدہ کتابوں پر ایمان لانا ہوگا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان لانا کافی نہ ہوگا۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ مخالفت اس لئے اس لئے ہورہی تھی کہ محمدؐ اگلے وقتوں کے پیغمبروں کو جھٹلاتے نہیں۔ ان پر نازل شدہ کتابوں پر تنقید نہیں کرتے تھے اور ان کے زمانے کے مخالفین لے دے کے ایک ہی الزام دے سکتے تھے اور دیتے تھے کہ ’’اماں؛ جانے دو۔ یہ کوئی نئی بات تھوڑی کہہ رہا ہے۔ وہی پرانی داستانیں دہرا رہا ہے۔ ان میں کیا رکھا ہے‘‘۔ یہ مولانا آزاد کی معنی یاب طبیعت کی دریافتیں ہیں اور وہ خلاصے کے طور پر چند باتیں کرتے ہیں، جن میں یہاں نقل کرتا ہوں، کیونکہ اس اقتباس کے بغیر مولانا آزاد کی ذہنی رو کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ فرماتے ہیں:

1۔ ’’نزولِ قرآن کے وقت دنیا کا مذہبی تخیل اس سے زیادہ وسعت نہیں رکھتا تھا کہ نسلوں، خاندانوں اور قبیلوں کی معاشرتی حد بندیوں کی طرح مذہب کی ایک خاص گروہ بندی کر دی گئی تھی۔ ہر گروہ کا آدمی سمجھتا تھا کہ دین کی سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے۔

2۔  دین (جس کی وسعت کے بارے میں تفصیل سے لکھا جاچکا ہے) محدود معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ مذہب کی اصل حقیقت محض اس کے ظاہری اعمال و رسوم تھے۔ جوں ہی ایک انسان ان کو اختیار کرلیتا، یقین کیا جاتا کہ نجات و سعادت اسے حاصل ہوگی۔

3.  یہ اعمال و رسوم ہر مذہب میں الگ الگ تھے اور ہر گروہ کے اجتماعی تقاضے یکساں نہیں ہوسکتے تھے۔ اسی لئے ہر مذہب کا پیرو یقین رکھتا تھا کہ دوسرا مذہب مذہبی صداقت سے خالی ہے۔

4.  ہر مذہبی گروہ کا دعویٰ صرف یہی نہیں تھا کہ وہ سچا ہے بلکہ یہ بھی تھا کہ دوسرا جھوٹا ہے۔ نتیجہ یہ تھا کہ ہر گروہ صرف اتنے ہی پر قانع نہیں تھا کہ اپنی سچائی کا اعلان کرے بلکہ یہ بھی ضروری تھا کہ دوسروں کے خلاف تعصب اور نفرت پھیلائے۔ اس صورت حال نے دنیا کو دائمی جنگ و جدل میں مبتلا کر دیا تھا اور مذہب کے نام پر خون بہانا جائز سمجھا جاتا تھا۔

5. قرآن نے سچائی کا عالمگیر اصول پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر مذہب میں سچائی ہے اور تمام مذہب سچے ہیں۔ اس نے کہا خدا کی بخشش عام ہے۔ اس طرح یہ ممکن نہیں کہ کسی ایک جماعت کو سچائی کا اصول دیا گیا ہو اور دوسروں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہو۔

6.  قرآن نے کہاکہ خدا کے تمام قوانینِ فطرت کی طرح قوانینِ سعادت بھی ایک ہے اور سب کیلئے ہے۔

7.  اس نے بتایا کہ دین ایک ہے اور ایک ہی طرح پر سب کو دیا گیا ہے؛ البتہ شرع اور منہاج (یعنی راستوں) میں اختلاف ناگزی تھا، کیونکہ ہر عہد اور ہر قوم اور ہر ملک کی حالت یکساں نہ تھی اور ضروری تھا کہ جیسی جس کی حالت ہو، احکام و اعمال بھی ایسے ہی اختیار کئے جائیں۔ تم لوگ اصول پر نہیں بلکہ رسوم اور رواج پر ایک دوسرے کو جھٹلارہے ہو۔

8.  قرآن نے کہاکہ دعوت کا مقصد یہ ہے کہ تمام مذاہب سچے ہیں؛ البتہ پیروانِ مذاہب سچائی سے منحرف ہوگئے ہیں۔

9.  وہ کہتا ہے کہ خدا کا دین اس لئے نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے نفرت کرے بلکہ اس لئے ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے محبت کرے‘‘۔

 یہ اقتباسات تھوڑی سی کاٹ چھانٹ کے باوجود قدرے طویل ہوگیا، مگر مولانا آزاد کی سوچ اور فکر کا اندازہ کرنے کیلئے ضروری تھا کہ اسے پیش کیا جائے۔

 عام تفسیروں اور مولانا آزاد کی تفسیر قرآن میں جو فرق ہے اس کو ظاہر کرنے کیلئے خود فن تفسیر کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ اگر چہ میری کم سوادی اور بے علمی اس کی اجازت نہیں دیتی۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ کے کلام کو سمجھنے کی اہلیت اللہ کی مخلوق میں کما حقہ نہیں ہے۔ اس لئے قرآن مجید کے اسرار و رموز کو سمجھنا آسان بھی نہیں۔ عہد رسالتؐ میں اکثر مقاماتِ قرآن کی تشریح و توضیح خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور بہت سے مقامات صحابہ کرامؓ کی سمجھ میں نہ آئے تو انھوں نے آپؐ سے وضاحت چاہی اور اس طرح تفسیر کا بیشتر کام خود عہد رسالتؐ ہی میں ہوا۔ دوسرا ذریعہ قرآن مجید کو سمجھنے کا خود قرآن مجید تھا۔ اگر کوئی مقام ایک جگہ وارد ہوا اور اس کو سمجھنے میں دقت آئی تو دوسری جگہ قرآن مجید میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا کہ گتھی سلجھ گئی۔ اور دشواری دور ہوئی۔

صحابہ کرامؓ میں سے سب سے مستند تفسیر سید المفسّرین حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی ہے۔ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ عام طور پر مشہور ہے کہ رسول اکرمؐ نے آپ کو کچھ خاص اسرار و رموز بتائے ہیں جو اوروں کو نہیں بتائے گئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: یہ صحیح نہیں، البتہ حضورؐ نے میرے حق میں دعا فرمائی جو قبول ہوئی کہ خدایا علیؓ کو قرآن مجید سمجھنے کی صلاحیت عطا فرما۔ قرآن مجید کی تفسیریں لکھتے وقت بعد کے آنے والے سینکڑوں مفسرین بڑی حد تک اسی اصول پر کار بند رہے کہ جو تفسیر خود رسولؐ اللہ نے اور صحابہ کرامؓ نے کی ہے اسی کا حوالہ دیتے رہے، مگر ایک وقت ایسا بھی آیا جب تفسیر بالرائے کی جانے لگی، جس سے حضورؐ نے منع فرمایا ہے۔ مولانا آزادکی تفسیر کا Approach چونکہ بالکل انوکھا اور نیا تھا، اس لئے بعض لوگوں کو شبہ ہوا کہ مولانا آزاد کی تفسیر کے معاملے میں خود رسولؐ اللہ اور صحابہ کرامؓ کی تفسیروں کے خوشہ چیں ہیں۔ البتہ غور و فکر کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے بلکہ قرآن مجید کی اہم خصوصیت یہی ہے کہ وہ غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس لئے میں نے احکام الٰہی پر عمل کرتے ہوئے غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس لئے میں نے احکام الٰہی پر عمل کرتے ہوئے غور و فکر سے کام لیا اور مجھ پر بہت سے دروازے کھل گئے جو صدیوں سے بند تھے۔ وہ اپنی تفسیر کے آغاز میں ’’اصولِ تفسیر و ترجمہ‘‘ کے عنوان سے بڑی خوبی کے ساتھ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 ’’صدیوں سے اس طرح کے اسباب و موثرات نشو و نما پاتے رہے ہیں۔ جن کی وجہ سے قرآن کی حقیقت نگاہوں سے مستور ہوتی گئی اور رفتہ رفتہ اس کے مطالعہ و فہم کا ایک نہایت پست معیار قائم ہوا۔ یہ پستی صرف معانی و مطالب میں ہی نہیں بلکہ ہر چیز میں ہوئی …‘‘۔

  ہر عہد کا مصنف اپنے عہد کی ذہنی آب و ہوا کی پیداوار ہوتا ہے اور اس قاعدے سے صرف وہی سماغ مستثنیٰ ہوتے ہیں جنھیں مجتہدانہ ذوق و نظر کی قدرتی بخشائش نے صف عام سے الگ کر دیا ہو؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں سے لے کر قرونِ اخیرہ تک جس قدر مفسر پیدا ہوئے ہیں، ان کا طریق تفسیر ایک روبہ تنزل معیارِ فکر کی مسلسل زنجیر ہے، جس کی ہر پچھلی کڑی پہلی کڑی سے پست تر ہے…۔ یہ صورت حال فی الحقیقت مسلمانوں کے عام دماغی تنزل کا قدرتی نتیجہ تھی۔ انھوں نے جب دیکھا کہ وہ قرآن کی بلندیوں کا ساتھ نہیں دے سکتے تو کوشش کی کہ قرآن کو ہی اس کی بلندیوں سے اس قدر نیچے اتار لیں کہ انسانی پستیوں کا ساتھ دے سکے‘‘۔

آگے چل کر مولانا آزاد خود اپنی تفسیر کے بارے میں لکھتے ہیں جس پر کوئی اضافہ کرنا دراز دستی اور سوئے ادب ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’کامل ستائیس برس سے قرآن میرے شب و روز کے فکر و نظر کا موضوع رہا ہے۔ ا س کی ایک ایک سورت، ایک ایک مقام، ایک ایک آیت، ایک ایک لفظ پر میں نے وادیاں قطع کی ہیں اور مرحلوں پر مرحلے طے کئے ہیں۔ تفسیر کتب کا جتنا مطبوعہ اور غیر مطبوعہ ذخیرہ موجود ہے۔میں کہہ سکتا ہوں کہ اس کا بڑا حصہ میری نظر سے گزر چکا ہے اور علوم قرآن کے مباحث و مقالات کا کوئی گوشہ نہیں جس کی طرف سے حتی الوسع ذہن نے تغافل اور جستجو نے تساہل کیا ہو۔ علم و نظر کی راہوں میں آج کل قدیم و جدید کی تقسیمیں کی جاتی ہیں لیکن میرے لئے یہ تقسیمیں بھی کوئی تقسیم نہیں۔ جو کچھ قدیم ہے، وہ مجھے ورثے میں ملا ہے اور جو کچھ جدید ہے اس کیلئے اپنی راہیں نکالیں۔میرے لئے وقت کی جدید راہیں بھی ویسی ہی دیکھی بھالی ہیں جس طرح قدیم راہوں میں گام فرسائی کرتا رہا ہوں۔ خاندا، تعلیم اور سوسائٹی کے اثرات نے جو کچھ میرے حوالے کیا تھا میں نے اول روز سے ہی اس پر قناعت کرنے سے انکار کردیا ہے اور تقلید کی بندشیں کسی گوشے میں روک نہ ہوسکیں اور تحقیق کی تشنگی نے کسی میدان میں بھی میرا ساتھ نہ چھوڑا‘‘۔

 اس اقتباس کے بعد کچھ اور کہنا لاحاصل ہے؛ البتہ آخر میں ایک بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مولانا کا خاندان مشہور علمی خاندان ہونے کے ساتھ صوفیوں کا خاندان بھی تھا۔ ان کے والد مرحوم مولانا خیر الدینؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ کہ انھیں عشق رسولؐ میں اس قدر غلو تھا کہ وہ کسی مجمع کو خطاب کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جگہ ؛ … ’’سب کا خدا خدا ہے میرا خدا محمدؐ‘‘ کہا کرتے تھے۔ مولانا نے خود اقرار کیا ہے کہ انھوںنے خاندانی روایات کے خلاف بغاوت کی اور اپنی راہ خود تلاش کی، چنانچہ مشہور ہے کہ مولانا تصوف کی راہ میں کبھی نہیں گئے اور وہ سلفی یا شدید موحد اور وہابی مشہور ہوگئے، مگر واقعہ یہ ہے کہ خاندانی روایات سے پیچھا چھڑانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وہ اصطلاحی اور رسمی امور پر صوفی نہیں تھے، مگر تصوف نے انسان دوستی کی جو تعلیم دی ہے ان کی تفسیر قرآن اسی کی توضیح و تشریح ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے خود قرآن مجید سے یہ سنہرا اصول تلاش کیا۔ دین ایک ہے اور دنیا کا کوئی انسان چاہے وہ کسی مذہب کا پیرو ہے ایک ہی محبوب کے جمال جہاں آراء کا متلاشی ہے۔ یہ زریں اصول انسانوں کو نفرت کی آگ میں جھلسنے نہیں دیتا بلکہ محبت کے سدا بہار گلستانوں کی سیر کراتا ہے۔

  اسی تصور نے آدمیت اور انسانیت کی شمع کو تند و تیز ہوا کے جھونکوں میں بھی بجھنے نہیں دیا۔ آج کے ہندستان کے تمام بہی خواہوں کا پہلا فرض یہی ہے کہ وہ اس شمع کو بجھنے سے بچالیں۔ اگر خدا نخواستہ یہ بجھ گئی تو اندھیرا ہوگا۔ اندھیرے میں راستہ نظر نہیں آئے گا۔ منزل کھوٹی ہوجائے گی۔ مسافر تھک جائے گا۔ ہاتھ پاؤں شل ہوں گے۔ چلنے پھرنے کی طاقت سلب ہوجائے گی۔ درندوں کا ڈر بڑھ جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ مسافر منزل کو پالینے سے پہلے ہی دم توڑ بیٹھے اور ابدی محرمی کا شکار ہوجائے۔

  ایک ذاتی تاثر کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ یہ افسوس رہا ہے کہ ہندستان کی دو مایہ ناز ہستیاں مولانا آزاد اور پنڈت جواہر لال نہرو علم و فضل کی دنیا کو جو کچھ دے سکتی تھیں نہ دے سکیں، کیونکہ آسمانِ علم و فضل کے اس سورج اور چاند کو سیاست کے بادلوں نے ڈھک لیا۔ اور یہ دونوں عظیم ہستیاں علم و حکمت کیلئے بے شمار بیش قیمت موتی اپنے ساتھ لے گئیں۔

 مولانا آزاد اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سیاسی زندگی کی شورشیں اور علمی زندگی کی جمعیتیں ایک زندگی میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ روئی اور آگ میں آشتی محال ہے۔ میں نے چاہا کہ دونوں کو یکجا جمع کردوں۔ میں نامراد ایک طرف متاعِ فکر کے انبار لگاتا رہا۔ دوسری طرف برقِ خرمن سوز کو بھی دعوت دیتا رہا۔ نتیجہ معلوم تھا اور مجھے حق نہیں کہ حرفِ شکایت زبان پر لاؤں‘‘۔

 سیاست اور علم کی اس باہمی آویزش میں جواہر لال نہرو اور مولانا آزاد مجروح ہوگئے۔ ہندستان کا پردھان منتری کوئی بھی بن سکتا ہے مگر جواہر لال کوئی نہیں بن سکتا۔ آزاد ہندستان کا وزیر تعلیم کوئی بھی بن سکتا ہے مگر وہ مولانا ابوالکلام آزاد نہیں بن سکتا۔

تحریر: میر غلام رسول نازکی … ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔