عہد نبویؐ میں نظام تعلیم

رسول اللہ علیہ وسلم کے عہد میں  نظام تعلیم اور علوم کی سرپرستی یہ بہت اہم موضوع ہے۔ مسلمانوں  نے بعد کے زمانے میں  جو علمی ترقیاں  کیں  اور جس کے باعث وہ ساری دنیا کے معلم بنے اور ساری دنیا کے لوگ عربی کتب کو پڑھ کر جدید ترین تحقیقات سے آگاہ ہوئے، اس کی اساس، ظاہر ہے عہد نبوی کی تیار کردہ بنیاد ہی ہوسکتی تھی۔

  مواد بہت اہم ہے، اس کی ترتیب و تدوین کا کام بھی آسان نہیں  اور مجھے دعویٰ نہیں  کہ مجھے ان ساری چیزوں  کا علم ہوچکا ہے۔ ایک چیز سے میں  ہمیشہ متاثر ہوا ہوں  اور یہ ایک نہایت ولولہ انگیز چیز ہے۔ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلا جو خدائی حکم ملتا ہے وہ یہ کہ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَق o اِقْرَأْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُo الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمo (5,1:96)۔ اس میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھنے کا حکم دیاجاتا ہے۔ پہلے جملے میں  اللہ کی طرف سے ایک حکم آتا ہے اور پھر پڑھنے کی اہمیت بھی اس وحی میں  بیان کر دی جاتی ہے، یعنی یہ کہ قلم ہی وہ واسطہ ہے جو انسانی تہذیب و تمدن کا ضامن و محافظ ہے۔ اسی ذریعہ سے انسان وہ چیزیں  سیکھتا ہے جو اسے معلوم نہیں  ہوتیں ۔ انسانی علوم اور دیگر مخلوقات خاص کر جانوروں  کے علم میں  سب سے نمایاں  فرق یہی ہے کہ حیوانات کا علم محض جبلی ہوتا ہے، اسی لئے اس میں  اضافہ نہیں  ہوتا۔ اس کے برخلاف انسانی علم صرف جبلی ہی نہیں  ہوتا بلکہ کسبی بھی ہے، اور اس میں  روزانہ اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے تجربوں  سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں  اور اپنے ذاتی تجربوں  سے بھی اپنے علم میں  اضافہ کرتے رہتے ہیں  اور یہ سارا علم اپنی آئندہ نسلوں  کو منتقل کر دیتے ہیں ۔

 پہلی ہی وحی میں  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھنے کے بارے میں  حکم دینا ایسی بات ہے جو ہمیں  سوچنے پر مجبور کرتی ہے نبی امی کو کیوں  پہلے ہی حکم میں  اس کی طرف متوجہ کیا گیا اور اس کے بعد جو تیئس سالہ عرصہ گزرا، اس میں  کچھ نہیں  تو بیسیوں  آیتیں  ایسی ملتی ہیں  جن میں  علم کی تعریف اور علم کی اہمیت سمجھائی گئی ہے اور امیں  عجیب و غریب چیزیں  بھی نظر آتی ہیں ، مثلاً ایک طرف یہ کہا جائے گا: وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلَا (85:17)۔ (اور تمہیں  علم نہ دیا گیا ہے مگر تھوڑا)۔ دوسری طرف یہ بھی کہا گیا : ’قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘ (114:20)۔ (اور عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے مزید علم عطا کر)، اسی طرح کی ایک ضرب المثل بھی مشہور ہے ’’اُطْلِبُوْا الْعِلْمِ مِنَ الْمَہْدِ اِلَی اللِّحْد‘‘ (گہوارے سے قبر تک یعنی پیدا ہونے سے موت آنے تک علم سیکھتے رہو)۔ ایک اور چیز ہے جس کی صحت کے متعلق ہمار محدثین ٹیکنیکل نقطۂ نظر سے اعتراض کریں  گے، لیکن بہت حال وہ بھی اثر انگیز چیز ہے۔ حدیث شریف میں  ہے کہ ’’علم سیکھو چاہے وہ چین ہی میں  کیوں  نہ ہو‘‘ عقلی اور تاریخی نقطۂ نظر سے مجھے اس پر اعتراض کی کوئی وجہ نظر نہیں  آتی۔

 بہر حال اس سلسلے میں  پہلا سوال ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چین کا علم کیسے ہوا؟ جبکہ عرب، ایشیا کے انتہائی مغرب میں  ہے اور چین، ایشیا کے انتہائی مشرق میں  ہے اور ان دونوں  ممالک میں  کسی طرح کا کوئی ربط یا تعلق نظر نہیں  آتا۔ ان حالات میں  رسول اللہ کو کیسے علم ہوا کہ چین میں  علوم و فنون پائے جاتے ہیں ؟ سوال معقول ہے لیکن اگر ہمارا مطالعہ ذرا وسیع ہو اور ہمیں  اپنی علمی میراث سے ذرا زیادہ واقفیت ہو تو پھر یہ سوال باقی نہیں  رہتا بلکہ خود بخود حل ہوجاتا ہے مثلاً ’’مسعودی‘‘ کی کتاب ’’مروج الذہب‘‘ کے نام سے ہمارا ہر پڑھا لکھا شخص واقف ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ اسلام سے پہلے چینی تاجر عمان تک آتے تھے؛ بلکہ عمان سے آگے ابلہ یعنی بصرہ تک بھی پہنچتے تھے اور یوں  یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ اس زمانے میں  عربوں  کیلئے چین اور چینی اجنبی نہیں  تھے۔ اس سے بھی زیادہ قابل غور واقعہ ایک اور ہے کہ محمد بن حبیب البغدادی نے جو ابن قتیبہ کا بھی استاد ہے، اپنی کتاب المحبر میں  لکھا ہے کہ ہر سال فلاں  مہینے میں  ’’دبا‘‘ نامی مقام پر ایک میلہ لگتا تھا، جس میں  شرکت کیلئے سمندر پار سے بھی لوگ آیا کرتے تھے، ان لوگوں  میں  ایرانی بھی ہوتے تھے، چینی بھی ہوتے تھے، ہندی اور سندھی بھی ہوتے تھے، مشرقی لوگ بھی ہوتے تھے، مغربی لوگ بھی ہوتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ ’دبا‘ کی اہمیت کے سلسلے میں  ایک چھوٹا سا واقعہ آپ کو یاد دلاؤں ۔

 جب عمان کا علاقہ اسلام قبول کرتا ہے تو عمان میں  ایک گورنر ہوتا ہے، اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک اور گورنر کا تقرر صرف بندرگاہ دبا کے امور کیلئے فرماتے ہیں ۔ اس سے اس مقام کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ غالباً اس انٹرنیشنل میلے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہوں  گے، تجارتی جھگڑے، کاروباری معاملات وغیرہ۔ اس لئے عہد نبویؐ میں  خصوصی افسر کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ان دو واقعات کے بعد مسند احمد بن حنبل پر نظر ڈالئے، جس کے بعد ہمیں  کوئی شبہ نہیں  رہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان چینیوں  سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں  ذکر کرچکا ہوں  کہ مسعودی کے بیان کے مطابق چینی تاجر اپنے جہازوں  میں  سمندری راستے سے عمان کے علاقہ ابلہ یعنی بصرہ تک جاتے تھے۔ اس دوسری روایت میں  آپ دیکھ چکے ہیں  کہ دبا نامی بندرگاہ میں  جو جزیرہ نمائے عرب کی دو سب سے بڑی بندرگاہوں  میں  سے ایک بندرگاہ تھی، ہر سال میلہ لگتا تھا، وہاں  ہر سال چینی لوگ آتے تھے۔ ان دو چیزوں  کو ذہن میں  رکھ کر مسند احمد بن حنبل کو پڑھیں ۔ اس میں  لکھا ہے کہ قبیلہ عبدالقیس کے لوگ جو بحرین و عمان میں  رہتے تھے، مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا۔ ایک چھوٹی سی چیز پر آپ کی توجہ منعطف کراتا ہوں  وہ یہ کہ اس میں  بحرین کا جو لفظ آیا ہے، اس روایت میں  اس سے مراد وہ جزیرہ نہیں  ہے جسے آج کل ’بحرین‘ کہتے ہیں  اور جو جزیرہ نمائے عرب میں  خلیج فارس کے اندر واقع ہے۔ اس زمانے میں  اس جزیرہ کا نام ’’اوال‘‘ تھا اور بحرین کا لفظ اس علاقے کو ظاہر کرتا تھاجسے آج کل ہم الاحساء اور القطیف کا نام دیتے ہیں ۔

بہر حال اس میں  لکھا ہے کہ بحرین کے لوگ جن کا نام قبیلہ عبدالقیس ہے، اسلام لانے کیلئے مدینہ آتے ہیں ۔ اس روایت میں  اس بات کی بھی تفصیل ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں  سے کچھ سوالات کئے۔ مثلاً فلاں  شخص ابھی زندہ ہے؟ یا کیا فلاں  سردار زندہ ہے؟ فلاں  مقام کا کیا حال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سوالات کو سن کو وہ لوگ حیرت سے پوچھتے ہیں ، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہم سے بھی زیادہ ہمارے ملک کے شہروں  اور باشندوں  سے واقف ہیں ۔ یہ کیسے ہوا؟ ان لوگوں  کے اس سوال کے جواب میں  آپؐ نے فرمایا کہ ’’میرے پاؤں  تمہارے ملک کو بہت عرصے تک روندتے رہے ہیں ‘‘۔ دوسرے لفظوں  میں  وہاں  بہت دنوں  تک مقیم رہا ہوں ۔ اس صراحت کے بعد ہمیں  شبہ نہیں  رہتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غالباً شادی کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مال تجارت لے کر نہ صرف شام جاتے ہیں ، جس کی صراحتیں  موجود ہیں  بلکہ مشرق عرب کو بھی جاتے ہیں  تاکہ دبا کے میلے میں  شرکت کرسکیں  اور کوئی تعجب نہیں  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں  پر چینی تاجروں  کو بھی دیکھا ہو اور ممکن ہے ان سے کچھ گفتگو بھی کی ہو؛ کیونکہ اگر چینی وہاں  آیا کرتے تھے تو انھیں  کچھ ٹوٹی پھوٹی عربی آجانی چاہئے۔ اس کے علاوہ وہاں  پر یقینا ایسے مترجم ہوتے ہوں  گے جو چینی اور عربی دونوں  زبانیں  جانتے ہوں ۔ بہر حال اس کا امکان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چینیوں  سے ملاقات کی اور میرا گمان ہے کہ ان کے ریشمی سامان پر خاص کر آپؐ کی توجہ ہوئی ہوگی، کیونہ چین کا ریشم نہایت ہی مشہور چیز تھی، ممکن ہے کہ ان کی صنعت و حرفت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی اچھا تاثر لیا ہو اور ان سے پوچھا ہو کہ تمہارے ملک سے یہاں  تک آنے میں  کتنے دن لگتے ہیں  اور مثلاً انھوں  نے کہا ہو کہ چھ مہینے لگتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ایک اندازہ قایم کرنے کیلئے یہ کافی تھا اور اس روشنی میں  اب اس حدیث کو پڑھئے۔ ’’علم سیکھو چاہے چین ہی جانا پڑے‘‘ (جو تمہارے لئے دنیا کا بعید ترین ملک ہے) کیونکہ ’’علم کا سیکھنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے‘‘۔ غرض ان ابتدائی چیزوں  کے عرض کرنے کا منشا یہ تھا کہ قرآن مجید و حدیث شریف میں  علم حاصل کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے، کیونکہ یہ انسانوں  کیلئے انتہائی مفید چیز ہے اور اسلام سے زیادہ فطری مذہب کون سا ہوسکتا ہے جو انسانوں  کو ان کے فائدے کی چیز بتائے۔

 یہ کہنا دشوار ہے کہ مکہ معظمہ میں  ہجرت سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کے متعلق کیا کام کیا؟ کوئی مدرسہ قائم کیا یا مدرس مامور کئے؟ اس کا پتا چلنا آسان نہیں  ہے۔ غالباً ایسا ہوا بھی نہیں  بجز قرآن مجید کو مستند استاد سے پڑھنے کے، لیکن ایک چیز قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ہمارے مورخین کے مطابق عربی زبان طویل عرصے تک صرف بولی جانے والی زبان رہی تھی، تحریری زبان نہیں  تھی۔ لکھنے کا رواج مکہ معظمہ میں  حرب کے زمانے میں  ہوا۔ یہ ابو سفیان کا باپ تھا؛ یعنی یہ دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نوجوانی کا دور ہے۔ جو لوگ آپ سے معمر تر تھے، شہر مکہ میں  ان کے زمانے میں  پہلی مرتبہ عربی زبان کی تحریر و کتابت ہونے لگی۔ اس کی وجہ بھی یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک شخص عراق کے علاقے حیرہ سے وہاں  آیا کرتا تھا۔ اس نے مکہ معظمہ میں  حرب کی بیٹی سے شادی کی اور اظہار شکر گزاری کیلئے حرب کو یہ راز بتلایا کہ ایسی کام کی باتیں ، جنھیں  تم بھول جاتے ہو اور جنھیں  یاد رکھنے کی ضرورت ہے، انھیں  لکھ لیا کرو۔ یہ روایت ہمیں  مختلف کتابوں  میں  ملتی ہے، مثلاً قدامہ بن جعفر کی کتاب ’الخراج‘ اور اس کے استاد بلاذری کی ’فتوح البلدان‘ وغیرہ میں ۔

دوسرے الفاظ میں  مکہ میں  لکھنے پڑھنے کا رواج عہد نبویؐ سے کچھ ہی پہلے شروع ہوا تھا اور بلاذری کو تو اصرار ہے کہ عہد نبوی کے آغاز پر وہاں  سترہ سے زیاہد آدمی لکھنا پڑھنا نہیں  جانتے تھے۔ ممکن ہے یہ مبالغہ ہو یا کسی خاص عہد کا ذکر ہو اور بعد میں  اس صورت حال میں  ترقی ہوئی ہو اور زیادہ لوگ لکھنا پڑھنا جان گئے ہوں  لیکن اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں  ہے۔ البتہ یہ امر ضرور قابل ذکر ہے کہ قبل از اسلام مکے میں  عورتیں  بھی لکھنا پڑھنا جانتی تھیں ؛ چنانچہ شفاد بنت عبداللہ کو جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رشتہ دار تھیں  لکھنا پڑھنا آتا تھا اور اسی واقفیت کے سبب سے بعد میں ، جب وہ ہجرت کرکے مدینہ آئیں  تو ابن حجر کے بیان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مدینہ کے ایک بازار میں  ایک عہدہ پر مامور کیا؛ چونکہ انھیں  لکھنا پڑھنا آتا تھا اس لئے کوئی ایسا کام ہی ان کے سپرد کیا ہوگا جس کا تعلق لکھنے پڑھنے سے ہو۔ ایک امکان میرے ذہن میں  آتا ہے کہ اس بازار میں  عورتیں  بھی سامانِ تجارت لاتی ہوگی، لہٰذا ان کی نگرانی، ان کی مدد اور ان کی ضرورتوں  کو پورا کرنے کیلئے کسی عورت کو مامور کیا جاسکتا تھا۔ بہر حال لکھنے پڑھنے کا رواج عہد نبویؐ کے آغاز کے زمانے میں  ایک بالکل نئی چیز تھی اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اس نے ابھی زیادہ ترقی نہیں  کی تھی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیائے عرب کی سب سے پہلی تحریر میں  لائی ہوئی کتاب ’’قرآن مجید‘‘ ہے۔ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں  لکھی گئی تھی۔ صرف چند ایک چیزیں  مثلاً سبعہ معلقات، جن کو لکھ کر کہتے ہیں  کہ بطور اعزاز و احترام کعبہ میں  لٹکا دیا گیا تھا۔ اسی طرح بعض معاہدے بھی لکے گئے ہوں  گے۔ الفہرست میں  ابن ندیم نے لکھا ہے کہ خلیفہ مامون کے خزانے میں  ایک مخطوطہ یا ایک کاغذ کا پرچہ تھا جس میں  ذرا بھدے خط کی کچھ عبارت تھی۔ لکھا ہے کہ عورتوں  کے خط سے مشابہ تھا اور کہا ہے کہ وہ عبدالمطلب کا خط تھا وغیرہ۔  (جاری)

  تحریر: ڈاکٹر محمد حمیداللہ… ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔