کہانیوں سے آ گے جہاں اوربھی ہیں

اردوکتاب میلہ 2016 کابھیونڈی شہرمیں انعقاد،فروغِ اردو اورخدمتِ اردو کی شاہراہ پر ایک نہایت اہم قدم ہے۔ اس میدان میں کی گئیں ہمہ تن مخلصانہ کوششیں اور میلے کے انعقاد کی اہمیت و افادیت روزِروشن کی طرح واضح ہے۔جو کسی مبا لغہ آرائی اور تعریف کی قطعی محتاج نہیں ہے۔
جان نثارانِ اردو یہ امید لگا ئے بیٹھے تھے کہ اس مقدّس اردو کتاب میلہ کا افتتاح ،باوقار ادیب ،شاعر یا کسی ایسی مخلص شخصیت کے دستِ مبارک سے کیا جاتا، جس نے اپنا تن من دھن سب کچھ اردو کی نذر کر دیاہو۔لیکن اس کے بر عکس اردو کے متوالے وہ دل شکن نظارہ دیکھ کر شش وپنچ میں مبتلا ہو گئے۔جب اس مقدس ادبی محفل کو سیاسی رنگ دے کر، اسکاافتتاح بر سرِ اقتدار سیاسی جماعت کے وزیر کے ہاتھوں کیا گیا۔ہاں، اسی سیاسی جماعت کے وزیر کے ہاتھوں ،جس کی مسلم دشمنی اور اردو دشمنی کی شہ سر خیاں و ادارےئے چھاپ کر اردو اخبارات فروخت کیے جاتے ہیں ۔
کیاخو ب زما نے نے رنگ اپنابدلاہے۔ مسیحابن کے،قاتل خود سرہانے بیٹھاہے۔ (وحیدؔ )
اردو کتاب میلے میں تختہ سیاہ پر بالخصو ص مراٹھی زبان میں استقبالیہ عبارت دیکھ کراردو کے دیوانوں کو سکتہ طاری ہوگیا۔کسی کرم فرما نے وضاحت کی زحمت اٹھائی اور ہا تھ پکڑ کر سنبھالتے ہوئے گویا ہو ئے کہ غش کھا کر گر نے کی ضروررت نہیں ہے ۔ اردو میلے میں دیگر زبانوں سے تعلق رکھنے والی معزّز شخصیات بھی کثیر تعداد میں تشریف لارہی ہیں۔انھیں کے استقبال کے لے مراٹھی عبارت میں استقبالیہ کلمات لکھے گئے ہیں ۔ بیان کردہ بات تو سچی تھی اور مفہوم بھی سادہ تھا۔ مگر کیا اردو میلے میں آنے والے حضرات صرف مراٹھی زبان ہی جانتے تھے۔گجراتی، عربی،تمل ،انگریزی ودیگرزبانیں نہیں جانتے تھے؟کرم فرما نے نظر عنایت کی اور فرمایا چونکہ مراٹھی ریاستی زبان ہے۔ اس لئے بالخصوص مراٹھی میں استقبالیہ عبارت لکھی گئی ہے۔ پھر ایک سوال سر اٹھاتا ہے کہ ہندی جو کہ قومی زبان ہے اسے کیوں بھلا دیا گیا؟ اردو میلے میں بالخصوص صرف مراٹھی زبان کا استعمال، کیاکسی خاص نیتاجی کی خوشنودی اور جی حضوری کیلئے کیاگیا؟
اردو کتاب میلہ کئی جاں نثارانِ اردو کی بے لوث اور ہمہ تن کوششوں کے عوض کامیاب ترین رہا ۔خبر ہے کہ اردو کے سوداگروں کی بے لوث ہمہ تن مخلصانہ خدمت کا صلہ ،محبان اردو نے ایک کروڑ سے زائد، خطیر ر قم کی کتابیں صرف نو روز میں خریدکر ادا کی ۔ اوراپنی اردو جانثاری کا ثبوت پیش کیا ۔اردونہ کسی خاص مذہب کی زبان ہے اور نہ کسی خاص طبقے کی۔واقعی اردوتو زندہ دلوں کی زبان ہے۔ اردو کے سوداگریہ خطیررقم بٹورنے کے بعد، اپنے سازوسامان سمیٹ ، اگلے خیمے کا پڑاوڈالنے ایک نئی شاہراہ پر ، کسی اور شہر کی تلاش میں کوچ کر گئے۔
کسی اہل علم نے توجہ دلائی کہ کتابیں رعایتی داموں میں دستیاب تھیں۔ اچھا! کیاصرف چھپائی کی لاگت وصولی گئی۔ واقعی سودگرانِ اردو نے جذبہِ محبتِ اردو میں منافع نہ لے کر ایثاروقربانی کی عظیم مثال قائم کر عالمی ریکارڈ بنایا ہے؟
علامہ کے فہم وفراست کے اقبال کو پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کی با ت نہیں ہے۔علامہ اقبال نے اپنا درداس شعر میں بیان کیا ہے۔
مگر وہ علم کے موتی ،کتابیں اپنے آباکی۔ جو دیکھیں ان کو یوروپ میں تودل ہوتا ہے سیپارا
اس شعرمیں ،صرف شعراکے دیوان، افسانے ،ناول اور کہانیوں کی کتا بیں مرادلینا ،کیاعلامہ کے فہم وفراست کے ساتھ کھلامذاق نہیں ہے؟پھرکیوں اردوکتاب میلے میں چندمخصوص مضامین کی بھرمارتھی۔کیا دیگر علوم وفنون دنیاسے ناپید ہوگئے ہیں؟یا ضروریاتِ زندگی کی کتابوں سے دور رکھ کر اردوکوناپید کرنے کی منظم ساز ش رچی جار ہی ہے۔ عاشقانِ اردو کی علمی پیاس وضرورت کیا صرف شاعروں کے دیوان،افسانے اور کہانییاں پڑھکر پوری ہو جائے گی یا انھیں دیگر علوم و فنون کا بھی اردوزبان میں مطالعہ کرنے کی زحمت اٹھانی چھاہیے؟
کسی زبان کے بقا کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ زبان وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر چلے۔رائج الوقت مشہور علوم وفنون کی تحقیق کر کتابیں شائع کرنا اور دیگر زبانوں کی معتبر کتب کے تراجم کرنا بھی فروغِ زبان کے اقدام میں ایک اہمیت کا حامل قدم ہے۔شعروشاعری اورافسانوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلّمہ ہے۔فروغِ اردو اور بقائے اردو کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اردو زبان میں ہر وہ کتاب جو وقت کی ضرورت ہے بآسانی دستیاب ہو۔اردو کو براہِ راست روزگار سے جوڑنے کے عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیا سودگران اردو ان بنیادی نکات پر غوروخوض کر،ٹھوس قدم اٹھانے کے جسارت کریں گے؟
یہاں جو کچھ بیان کیا گیا وہ قطعی بے بنیاد اور بے معنی ہو سکتا ہے کیوں کہ، عینک والی دو آنکھوں ،ایک چھو ٹے سے دماغ اور محدود علم کی بنیاد پر کسی چیز کا تجزیہ کر کے حتمی نتیجہ اخذکرنا ایک نا ممکن عمل ہے۔
مشہور بات ہے۔کسی چھوٹے سے سماجی جلسے میں بھی،ایک ادنی سے سیاسی لیڈر کے پوسٹرچپکانے،دعوت نامے میں نام چھاپنے اور چندمنٹ منچ پر بولنے کا موقع دیے جانے کے عوض،نیتاجی ایک موٹی رقم بطور عطیہ چپکے سے اڈوانس میں ادا کرتے ہیں۔اس کا موازنہ مرکزی حکومت کے وزیر سے کرنا وہم وگمان سے پرے ہے۔
اردو کے بے لوث خدمتگاراورسوداگروں کے درمیان موجود لطیف فرق کو سمجھنے میں ہی اردو کے فروغ اور بقاء کا راز پنہاں ہے۔اردو کے لوگ اور محنت کشوں کا شہربھیونڈی، ان تمام اردو کے جیالوں کی محنت و کوشش کو سلام کرتا ہے۔ جو دن میں روزی روٹی کی تگ ودو سے تھک کر، گھر لوٹ کر آرام کرنے کی بجائے نصف شب تک اردو کتاب میلے کے انتظامات اور ترویج و اشاعت میں مگن رہے ۔اوراس خلوص نیت اورجذبہ ایثاروقربانی کے مظاہرہ ساتھ کام کیا جیسے اردو کتاب میلے کا انعقاد فریضہِ دین ہو۔
یہ بات تسلیم ہے کہ اردو کتاب میلے کا انعقاد حکومتی ادارے کے ذریعہ کیاگیا۔کسی نے کہا کہ اب کی باراردو میلے کے انعقاد کے لیے حکومت نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور خزانے کے دہانے کھول ،میلے کی تاریخ میں سب سے زیادہ فنڈ دے کر اردو کی خدمت کا فرض ادا کیا۔
کیاحکومت نے صد فیصد اخراجات ادا کیے؟کیا میلے کے رضاکاروں کو شب و روز کا محناتانہ دیا گیا؟ کیا معصوم بچوں کو ان کی محنت کی یومیہ اجرت حکومت نے ادا کی؟ جن بچوں نے با قائدہ یو نیفارم پہن کر سیکیورٹی کی خدمات سر انجام دیں۔پھر کیسے تسلیم کر لے کہ حکومت نے میلے کے تمام اخراجات ادا کیے؟
اردو ہندوستان کے چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔دستورہند کے مطابق اردو 22 دفتری شناخت شدہ زبانوں میں سے ایک اہم زبان ہے۔پھر کیوں مشہورزمانہ سرکاری ویب سائٹ من کی بات سے اردو کا نام ندارد ہے جبکہ دیگر 23 زبانیں سر فہرست موجود ہے۔
واہ صاحب ! کیا خوب نیک نیتی کیساتھ حکومت فروغِ اردو کے لیے سرگرداں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔