لوح و قلم تیرے ہیں

 منگل مورخہ17جنوری 2017ء بعد نماز مغرب قلم کاروان کی ادبی نشست المرکزہوٹل G7اسلام آبادمیں منعقد ہوئی۔ جناب سیدمظہرمسعود نے صدارت کی۔پروگرام کے مطابق آج کی نشست میں  جناب عارف اﷲاستوری ایڈوکیٹ کامضمون’’اسلام کاتصورانصاف‘‘پیش ہوناطے تھے۔تلاوت کے بعد جناب معاذسعیدخان نے مطالعہ حدیث پیش کیااورپروفیسرآفتاب حیات نے سابقہ نشست کی کاروائی پڑھ کرسنائی۔

            صدر مجلس کی اجازت سے مضمون پیش کیاگیا۔مضمون میں اسلام کے قانونی نظام کے اہم پہلؤں  پرروشنی ڈالی گئی تھی اور مستندحوالوں  سے عدل وانصاف کی اقسام و احکام بیان کیے گئے تھے۔ مضمون پر گفتگو شروع ہوئی تو پروفیسرآفتاب حیات نے کہا کہ مضمون بڑی محنت سے لکھا گیاہے اور اسے کہیں  شائع بھی ہونا چاہیے،مضمون کے مندرجات کے بارے میں  گفتگوکرتے ہوئے انہوں  نے کہاکہ ایک مقدمہ میں  سفارش کے موقع پر آپﷺ نے فرمایا کہ اگرفاطمہ بنت محمدﷺبھی چوری کرتی تواس کے ہاتھ کاٹ دیتا۔

جناب مرزا ضیاء الاسلام نے کہا کہ مضمون بہت اچھاہے لیکن معلومات کی ترتیب درست نہیں  ہے،انہوں  نے فاضل مضمون نگارکومضمون کی ترتیب نوکامشورہ دیا۔جناب ڈاکٹرجاوید ملک نے کہاکہ اسلام کادیا ہوا نظام عدل اگرنافذہوجائے تو امن و امان کاقیام یقینی ہے،انہوں  نے سعودی عرب کی مثال دی کہ وہاں  حدوداسلامی نافذ ہیں  اور دنیابھرمیں جرائم کی سب سے کم شرح سعودی عرب میں  ہی ہے جس کی وجہ اسلامی قانون کانفاذ ہے۔معاذسعید خان نے سوال کیاکہ اسلام میں  وکیل کی کیاحیثیت ہے؟؟؟فاضل مقالہ نگار نے کہا کہ وکیل کی حیثیت قانون کے مددگار کی سی ہوتی ہے جوعدالت کو مقدمے کے جملہ پہلؤں سے آگاہی فراہم کرتاہے اور اسلامی فقہ کی اصطلاح میں  ایسے فرد کو مفتی کہاجاتاہے۔

سیدمعروف علی بخاری نے کہا کہاسلام کے تصورانصاف پر اگرچہ بہت اچھی تحریر سننے کو ملی لیکن ان تعلیمات کو کاغذکی تحریرکی بجائے زمین پر نافذالعمل ہوناچاہیے۔ڈاکٹررضاایم کھوکھرنے کہا کہ اسلام کی تعلیمات صرف مسجدتک محدود نہیں  ہیں بلکہ اس دین کی تعلیمات میں  زندگی کے تمام شعبوں میں داخل ہیں، انہوں  نے بہت تفصیل سے گفتگوکی اور مقالہ کے جملہ پہلؤں پرروشنی ڈالی۔ڈاکٹرساجد خاکوانی نے کہاکہ عدل اجتماعی قوموں  کے لیے دفاع کاکام کرتاہے انہوں  نے اسلامی تاریخ کے انصاف پر مبنی درخشاں  واقعات سنائے اور دوسری جنگ عظیم میں  مملکت برطانیہ کے بارے میں  بتایاکہ صرف معاشری عدل اس کی فتح کاباعث بنا۔امتیازعلی خان اور رانااعجاز نے مضمون کوپسندکیا۔ملک آصف امین نے انصاف کے لمبے مراحل کے بارے میں  سوال کیاتوفاضل مقالہ نگارنے اس کے جواب میں  کہاکہ انصاف جتناجلد ملے اتنا بہتر ہے،انہوں  نے جلد انصاف کے کچھ مجوزہ طریقے بھی بتائے۔

  آخرمیں صدرمجلس جناب سیدمظہرمسعودنے کہاکہ مسلمانوں  کے ایک ہزارسالہ دوراقتدارمیں عدل و انصاف کادوردورہ تھا،انہوں  نے حکومت اورمعاشرے پرزوردیا کہ اپنے دورعروج کویادکیاجائے تاکہ اسی وقت کااعادہ ہوسکے انہوں  نے کہاکہ حکومتی سطح پر اگلی پچیس یاپچاس سالہ منصوبہ بندی کی جائے۔ صدرمجلس نے اپنے خطبہ صدارت میں  نظام تعلیم کی بہتری پرزوردیاتاکہ ملک و قوم کوپڑھی لکھی قیادت آسکے۔صدارتی خطبے کے بعد صدر مجلس جناب مظہرمسعودنے اپنا تازہ ترین کلام نذرسامعین کیااور مجلس اختتام پزیرہوئی۔

تبصرے بند ہیں۔