ماں  کے پاؤ ں  کےنیچے بہشت ہے!

ممتا،لاڈ، پیار، محبت، چاہت، الفت، عطوفت،مہربانی، ہمدردی، دلاسے اورتسلیاں ۔۔۔اگر دنیا کےسارے رحم وکرم کو سمیٹ دیا جائے تو صرف تین حروف کے مجموعہ میں  آکر جمع ہوجائیں  گے۔ الفاظ کی دنیا کاسب سے خوشنما کلمہ "ماں  ” ہے۔ جس کے تصور سے آنکھیں  ڈبڈبااٹھتی ہیں ،دل کواحساس تازگی ملتی ہے اور قلب وذہن کو سکون و قرار میسر ہوتا ہے۔ماں  اقوام عالم کی سب سے زیادہ قابل احترام شخصیت کانام ہے۔ ہماری  طول حیات میں  ماں  کا کردار اس ابدی حیثیت کاحامل ہوتاہے جس کاانداز ہ لگانا ہمارے ادراک سے پر ے ہے۔

 شیرخواری کے زمانہ میں  وہ اس حفاظت کےساتھ ہماری پرورش کرتی ہے کہ جسم پر ایک مکھی تک نہیں  بیٹھنے دیتی۔ اپنے نونہال کو اس اہتمام سے پالتی پوستی ہے کہ اس کے نرم نازک جسم پر کھروچ تک نہیں  لگنے دیتی۔ اپنے طفل نو خیزکو بولنا،چلنااورکھیلناو۔۔۔بڑے ہی پیار سے سکھاتی ہے اور اگر اس دوران وہ کوئی خطابھی کرجائے تو ماں  ہنس کر ٹال دیتی ہے۔

 اگر کسی کو ماں  کی قدر و منزلت کااندازہ لگانا مقصودہوتو اس کو اپنے خرد سالی کے ایا م یادداشت ہی کافی ہوگی کہ اس کی والدہ نے اس کی خاطر کن کن مصائب وآلام کاسامنا کیا۔نو ماہ شکم کی مشکلات، دوبرس شیرخواری کی پریشانیاں  جس میں  کبھی ئی و جون کی تپش تو کبھی دسمبر و جنوری کی سردراتوں  میں  دیر رات گئے سونا اور صبح جلد اٹھ جاناتاکہ بچے کو کسی طرح کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ناشتہ اورکھانے میں  پسندیدہ غذائیں  آمادہ کرنا، پہلے انہیں  کھلانا اور اگر بچ جائے تو کھالینا ورنہ ساری رات بھوکے پیٹ گزارنا اور اپنی ضروریات کو اس کی ضروریا ت زندگی پر نچھارور کردیناکہ یہ بڑے ہوکر ہماری ضروریات پوراکرے گا۔

 اک ماں  کو اپنے لاڈلے کا اس حد تک خیال رہتاہے کہ یونہی کبھی اگر وہ اسکو ل سے دیر گھر پہونچا تو اشک بھری آنکھوں  سے سبب دریافت کرنے لگتی کہ بیٹا ! سب خیریت تو ہے نا!؟

اگر بیٹا!کھیل کود کی غرض سے میدان میں  چلاجائے ماں  راہ تکتی رہتی ہے کہ کب میرانور عین آئے کہ میری آنکھوں  کو ٹھنڈک نصیب ہو۔اگر کبھی دل کے ٹکڑے کے چہرہ پر احساس پژمردگی نظر آجائے تو بے تاب ہوکر سوال کرلیتی۔ بیٹا!تمہیں  کچھ ہوا تو نہیں  !؟اگر کبھی اپنے لخت جگر کےمومی جسم پر کوئی چوٹ یا رخم دیکھ لےتو بلبلااٹھے اور فوراًدواج و علاج کا بندوبست کرنے لگتی۔ کیاا س دنیامیں  ماں  مہر و محبت کامجسمہ نہیں  !؟

 اس کے باوجود حالات کچھ اس طرح بگڑے کہ لوگوں  نے عظمت مادر کو طاق نسیاں  کے حوالہ کر دیا۔ آج کے دور میں  انسانیت و اخلاقیت کا اس قدر فقدان ہو چکاہے کہ جو ماں  ا س کی خدمت میں  دن رات ایک کئے رہتی تھی وہی اس کے تمام احسانات یکسر بھلادیتاہے۔ یہ بھی تصور نہیں  کرتا میں  کیا تھا اور اب کیاہوں  ؟کہاں  تھااور اس وقت کہاں  ہوں  ؟کس کی زحمتوں  کا صلہ اور کس کی مرہون منت ہوں  ؟!

 برے مواقع پر اگر ماں  کی ممتا اور باپ کی شفقت بڑھ کر اپنے فرزندکو راہ راست کی طرف ہدا یت کرنا چاہے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتاہے اور یہ کہنے لگتاہے کہ آپ ہماری زندگی میں  دخل اندازی نہ کریں ۔ بعض نالائق اولاد تو اس حدتک تجاوز کر جاتے ہیں  کہ کچھ والدین کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ، ان سے زبان لڑانے لگتے ہیں ،بسااوقات تو اس قدر منھ پھٹ ہوجاتے ہیں  کہ الٹا انہیں  ہی تہذیب وتمدن کا سلیقہ بتانے لگتے ہیں  اور۔۔۔

 جب یہ ماں  ضعیفی کوعمر کو پہونچتی ہے تو پھر ناتوانی، مجبوری، بیچارگی اور بیماریوں  کے ایام شروع ہوجاتے ہیں  تو پھر  بس اللہ کے بھروسہ پر زندگی بسر ہوتی ہے۔ نہ کوئی سہارا اور ناہی کوئی پرسان حال !اب ان کی بقیہ کی زندگی جہنم ہوجاتی ہے اور صرف ملک المو ت کاانتظار رہتاہے۔

 البتہ یہ بات بھی واضح رہے کہ تما م نوع انسانی کی اولاد ان رذیل صفات کی حامل نہیں  ہوتیں ۔ بلکہ بعض ایسے بھی ہیں  جو اپنی ماں  کی خاطر دن رات خدمتیں  کی ہیں ۔ درحقیقت خدمت احسان نہیں  بلکہ اس کی ممتاکی کچھ ادائیگی ہے۔ اگر کوئی اپنی ماں  کی خدمت انجام دیتاہے گویا جنت میں  بسیراکرتا ہے اور جو ا س کا دل دکھاتا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں  بناتا۔ لہٰذا­!اگر جنت حاصل کرنی ہے تو ماں  کی خدمت فرض ہے۔

تبصرے بند ہیں۔