ہائے رسم و رواج کے کھوکھلے پردے

  رسم ورواج کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو سمجھ میں یہ آتا ہے کہ یہ خودساختہ بنائ ہوئ وہ خوش گپیاں ہیں کہ پرانے دور میں وقت گزارنے کا ایک دل پذیر ذریعہ تھا،  جو بدلتے موسموں کی طرح بتدریج پُربہار بنتا ہی چلا گیا۔

 بقول سرسید احمد خان کہ”ہمارے دور کا اعلیٰ سے ادنیٰ شخص رسم ورواج کا ایسا پابند ہے جیسے کسی سخت گیر حاکم کے ماتحت زندگی بسر کر رہا ہو،   وہ خود سے نہیں سوچتا کہ اُسے کیا کرنا چاہئے بلکہ وہ یہ سوچتا ہے کہ معاشرہ یا دوسرے لوگ کیا سوچیں گے۔ ۔

 ہر شخص حقائق کی کڑی دھوپ سے ڈر کر

   تانے   ہوئے.  اوہام   کی   چادر    نظر   آیا

  رسم و رواج کی پابندی نے انسان کے ذہن پر جمود طاری کر دیا ہے۔ ۔ ۔ وہ اسے اپنا کر صرف اور صرف دوسروں کی نقّالی کرتا ہے۔ ۔ اسے اپنا فائدہ نقصان کچھ نظر نہیں آتا۔ ۔ اس کی ایک زندہ مثال یوں دیکھی گئ کہ دنیا سے رخصت ہونے والے نے اپنے ورثاء کے لئے کچھ رقم پس انداز کر رکھی تھی۔ ۔ اب اس گھر اس کے اقربا آئے اور تقریباً چالیس دن قیام کیا۔ ۔ افراد خانہ کو ان کے طعام کے لئے روزانہ کتنے پکوان بنانے پڑے یہ تو وہی جانتے ہیں۔ ۔ ۔ ساتھ ایصال ثواب کے لئے تیجہ،  دسواں،  بیسواں،  چالیسواں وہ الگ۔ ۔ آخر میں پتہ یہ چلا کہ جو رقم پس انداز کی گئ تھی وہ سبھی انہی رسم ورواج کی نذر ہو گئ۔ ۔ ۔ اور کچھ نہ بچا۔ ۔

 یہ تو تھے ہمارے رواں دور  کے قدیم رسم ورواج۔ ۔ آئیے آج آپ کو کچھ نئے رسم ورواج سے متعارف کرواتی ہوں جسے نئ نسل نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ۔ اور اس کا نام ہے ” فیشن”۔ ۔ فیشن کے معنی دیکھیں تو اس کی وضاحت ملتی ہے۔ ۔ "بدلنا”،  ” انقلاب ” ہمارے نوجوانان نے اسے اپنے ذہن کے خانوں میں کچھ اور طریقے سے محفوظ کیا ہے جو کہ مغربیت کو اپنانا ہے۔ ۔ ایسی باتوں ایسے رسم و رواجوں کو اپنانا جو ہماری مشرقی تہذیب کا سرے سے حصہ ہی نہیں۔ ۔ تو آئیے کچھ نئے رسم ورواج سے بھی ملتے چلیں۔ ۔

 آج کل ورڈساپ اور فیس بک سے تقریباً کس وناکس استفادہ کر رہا ہے۔ ۔ اچھا ہے۔ ۔ بہت اچھا ہے کہ اس کا استعمال مثبت طریقے سے ہو لیکن۔ ۔ لیکن۔ ۔ آج اگر جمعہ ہے تو بس بڑے خوبصورت نقش ونگاری کئے،   کہیں پھولوں سے مزین،  کہیں آسمان کی قندیلیوں کی رونقوں کے ساتھ پیغامات موصول ہوتے ہیں۔۔ "جمعہ مبارک "

 میں یہ سوال کرتی ہوں کہ کیا نبی پاک صلی الله عليه وسلم نے کسی صحابی کو کسی جمعہ پر اس طرح فرمایا تھا؟؟ اور بعد میں کیا حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہا تھا۔ ۔ جمعہ مبارک ؟؟ نہیں نا۔ کیا کہیں کسی احادیث میں یہ بات نقل کی گئ ہے؟؟ نہیں۔ ۔ پھر ایسا کرنا کیا بدعت نہیں ہوئ؟؟ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک طرح کی سلامتی کے لئے آج کل کہتے ہیں۔ ۔ اس میں حرج ہی کیا ہے؟؟ حرج ہے نا۔ ۔ بہت بڑا حرج ہے کہ پیارے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی عادات  ان کے اسوہ حسنہ میِں اس کا شمار نہیں۔ ۔ پھر کیوں؟؟؟ بس اس لئے کہ ہم میں سے کچھ عالم و فاضل حضرات نے اسے عام کیا ہے۔ ۔ فری آف چارج جو ہے۔ ۔ ایک بار رقم دینا پڑے پھر دیکھئے کتنے لوگ اس قسم کی پوسٹ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پھینکیں۔ ۔ معذرت کے ساتھ۔ ۔ ۔ ہاں میں یہی تحریر کروں گی پھینکیں۔ ۔ کہ لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ۔ اس وقت کو یاد کیجئے جب پیغامات ارسال ”  تار ” کے ذریعے کئے جاتے تھے اور اسے ارسال کرنے پر جیب کو ہلکا کرنا پڑتا تھا۔ ۔  لیکن آج کی یہ "دی گریٹ رسم” واہ! واہ!

  آئیے ملتے ہیں ایک اور” دی بہترین رسم ” سے۔ ۔ جی ہاں۔ ۔ پہلے اس کی نقاب کشائ صرف امیر ترین طبقے کے ذمے تھی لیکن اب تو گھر گھر کی کہانی بن گئ ہے۔ ۔ جی "عیسوی صدی کے سال نو کی مبارک باد "۔ ۔ دوسرے مذاہب کی تقلید نے ہماری آنکھوں پر بھی پٹّی باندھ دی ہے۔ ۔ سال نو تو ہر سال آتا ہے اور پرانا ہو کر پتہ نہیں عمر رفتہ کو آواز دیتے چلا جاتا ہے اور ہماری زندگی کا ایک قیمتی سال یعنی تین سو پنسٹھ دن کم کر جاتا،  ہے پر تعجب ہے کہ پھر بھی لوگ اس کمی کو جشن منا کر خوش ہوتے ہیں۔ ۔ نہ صرف یہی بلکہ ہر سال اپنی” سالگرہ” کا جشن بھی اسی طرح اپنی حیات کو کم کر کے بڑے ذوق و شوق سے مناتے ہیں۔ ۔ واہ۔ ۔ یہ ہے دوسروں کو اپنانا۔ ۔ اور آپ سبھی جانتے ہیں کہ ہمیں آپ صلی الله عليه وسلم نے کیا تعلیم دی ہے کہ غیروں کی طرح بنو گے تو قیامت کے روز ہمارا شمار انہی میں سے ہوگا۔ ۔ ۔ اب آپ خود اپنا محاسبہ کر لیں۔

  اور اس رسم کی دیوار پر آخری کیل یہ بھی ٹھوکی گئ کہ اب قمری سال کے آغاز یعنی محرم کی پہلی تاریخ پر ہم میں سے کچھ زندہ دل صاحبان نے مبارک۔۔ سلامت کے نعرے لگائے اور ایک کے بعد ایک تواتر سے میسجز عام ہوئے۔ ۔ ۔ کیا کبھی ہمارےاسلاف نے یہ مقدس فریضہ انجام دیا تھا؟؟اور اب رخ کرتے ہیں ایک اور بالکل نئ جدت پسند رسم کا کہ جس کی زلف پریشاں میں آج کے تقریباً نوجوانان الجھ کر رہ گئے ہیں اور بس اگلے ماہ بلکہ اس ماہ کے اواخر سے ہی اس کی تیاری کا آغاز اور منصوبہ بندیوں پر فکر کے زاویے وا ہوں گے اور وہ ہے "ویلنٹائین ڈے” میں اپنی قوم کے بچوں سے یہ دریافت کرنا چاہتی ہوں کہ آیا انھیں اس دن کے تاریخ جغرافیہ کا کچھ اتہ پتہ بھی ہے کہ نہیں۔ ۔ یا بس جدھر ایک بھیڑ نے رخ کیا دوسرا بھی قدم بہ قدم اسی جانب چل پڑا۔ ۔ حیف!  ہے ان پر۔ ۔ پچھلے دور میں لڑکا اگرپیچھے سے شرارت سے سیٹی بجاتا یا سیٹی کے لئے منھ گول کرتا اور لڑکی کی غصیلی نظر اس پر پڑ جاتی تو سیٹی منھ کی منھ میں دھری رہ جاتی۔ ۔ یا اگر سامنے سے آتا ہوا بانکا نوجوان اپنی ہاتھ کی کہنی بس اس طرح اوپر کرتا کہ آنے والی لڑکی کو ٹہوکا لگ جائے تب سامنے سے آنے والی اگر ہوشیار ہوتی تو سوچتی” آنے دو۔ ۔ دیکھ لوں گی” بس جیسے ہی قریب آتا۔ ۔ پھرتی سے راہ سے ایسے ہٹتی کہ بانکا چھیل چھبیلا منھ کی کھا کر رہ جاتا۔ لیکن آج بڑے چاؤ سے پھولوں والے مالی صاحب کے سرخ گلاب کی بِکری ایک دن میں اتنی ہو جاتی ہے کہ ایک مہینے کا حساب برابر۔ ۔ یہ سب کیوں؟؟ بے چارے سرخ گلاب کے پھول اپنی شاخ پر زیادہ سجتے ہیں یا ان لڑکوں کے ہاتھوں میں جو دل کے خونی رنگ کو لال گلاب سے تعبیر دیتے ہیں۔ ۔ اور ہماری دختر نیک اختر بھی ایک ادا سے اسے وصول کر کے اپنی سہلیوں کو جلاتی ہے کہ آج اسے کتنے پھول موصول ہوئے۔ ۔

  ایک وہ بھی دور بیتا ہے کہ جب منگنی کے بعد دلہن کو کبھی اپنے سسرال مدعو کیا جاتا تو پہلے اسے "کنواری بہو ” کا خطاب دیتے۔ ۔ اور وہ بڑا سا گھونگٹ نکالے نہایت ادب سے اپنے گھر جاتی۔ ۔ دولہا بےچارہ اپنے دوستوں کے ساتھ کبھی دروازے کی جھری سے جھانکتا ہوا دریافت ہوتا تو کبھی بالکنی کی الگنی سے ٹنگا ہوا۔ ۔ ان دنوں صرف شادی میں ہی ان سرخ گلابوں کو دعوت دی جاتی۔ ۔ ۔ پر اب تو میرے خیال میں سرخ گلابوں کے باغوں میں فراوانی ہو گئ ہے۔ ۔ جس سے ہمارے بچے مستفید ہو رہے ہیں۔ ۔ ویلینٹائن ڈے اصل میں ایک راہب کی سیاہ کاری کی داستان ہے جسے مغرب نے پر فریب بنا کر پیش کیا ہے۔ ۔ اور ہم کچھ نہ جانتے اور کبھی کبھی انجان نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے دہن رسیدہ ہو جاتے ہیں۔ ۔

 ابھی بھی بہت دیر نہیں ہوئ ہے۔ ۔ قدم ڈگمگائے ہیں گرے تو نہیں۔ ۔ کوشش کرئیں تو ہم سب سنبھل سکتے ہیں۔ ۔ ان رسم ورواج کے آہنی پھندے سے نکل سکتے ہیں۔ ۔ بس ہمیں مجاہد بننا ہوگا۔ ۔ قلم کا مجاہد۔ ۔ کہ آج کے دور کو میدان حیات میں کارگر ہونا ہے۔ ہاں۔ ۔ اسی قلم کو بروئے کار لانا، ہے جسے اللہ رب العزت نے ابتدائے آفرینش میں سب سے پہلے تخلیق کیا تھا۔ ۔ جس کی آواز پیغمبر اسلام نے معراج کے با برکت سفر میں عرش بریں پر سنی تھی۔ ۔ ۔ اسی قلم سے ہمیں قوم کے نادان لوگوں کو جگانا ہے۔ ۔ ہماری مائیں جو آج صرف بچوں کو کھلا کھلا کر اور نفیس کپڑے پہنا کر خوش ہوتی ہیں۔ ۔ ہمارے ابو صاحبان زندگی کی دوڑ دھوپ میں پسے چلے جاتے ہیں۔ ۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے چلے جاتے ہیں اور فخریہ کہتے ہیں کہ بیٹے کو ڈاکٹری،  انجینیرنگ کروا رہے ہیں۔ ۔ لیکن یہ سوچنا بھول گئے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو کیا آخرت کے لئے تیار کیا ہے؟؟ ان کو ذرا سا دھکا لگے تو دل دھک دھک کرنے لگتا ہے لیکن ہم اس میدان حشر کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ جب اعمال کا حساب ہوگا اور جنت و جہنم کا فیصلہ۔ ۔ تب کیا ہم ان کو چیختے چلاتے دیکھ پائیں گے؟؟ کبھی نہیں۔ ۔ کبھی نہیں۔

 ہم پیدائشی مسلمان ہیں۔ ۔ الحمدلله۔ ۔ اللہ کا کلمہ پڑھتے ہیں لیکن صرف قائل ہو کر ہمیں اس کی معرفت کا علم نہیں۔ ۔ اس کے ایک ہونے پر صدق دل سے ایمان لاتے ہیں لیکن جہاں زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہیں اس وقت ہمارے عمل میں وہ یقین کامل کیوں نہیں نظر آتا اور اسباب میں اپنے دُکھوں کا مداوا تلاش کرنے لگتے ہیں اور پھر رسم ورواج کے دام فریب میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ہم کیوں ایسا کرتے ہیں؟؟ وجہ روز روشن سی عیاں ہے کہ ہم نے اللہ کے کلام قرآن پاک کو صرف برکت کی کتاب بنا لیا ہے جب کہ ہمیں اس سے ہدایت لینی چاہئے۔ ۔ یہ کتاب زندہ،  جیتی جاگتی،  چلتی پھرتی ہستیوں کے لئے اللہ رب العزت نے ہمیں عطا کی ہے اور ہم ہیں کہ کبھی کبھار ایک دو رکوع کی تلاوت کر کے یا  کسی کی فاتحہ خوانی پر کھولتے ہیں یا کجھ آیات سے جن بھوت بھگانے کے لئے یا گلے میں تعویذ بنا کر لڑکی کی شادی پر اس کے سر پر رکھ کر یا ساتھ دے کر سمجھتے ہیں کہ اس کا سایہ ہمیشہ بچی پر رہے گا۔ ۔ جب وہ کھول کر بامعنی تلاوت نہ کر لے اسے کیا حاصل ہوگا؟؟

میری آپ سبھی سے مودبانہ درخواست ہے کہ ان مکروفریب رسم ورواج کی پُر پیچ پگڈنڈیوں سے نکل کر زندگی کی اصل شاہراہ پر آئیں تاکہ دونوں جہانوں کا سفر ہنستے کھیلتے طئے کیا جا سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔