مسلم نوجوانوں  کے ناکردہ گناہوں کی سزا کب تک ملتی رہے گی؟

گزشتہ کئی سال سے پولس جب جہاں  چاہتی ہے مسلم نوجوانوں  کو فرضی قسم کے الزامات کی بنیاد پر گرفتار کرلیتی ہے۔ برسوں  مقدمہ چلتا رہتا ہے۔ جب بیس پچیس سال یا اس سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر جاتا ہے تو جج صاحبان گرفتار شدہ نوجوانوں  کو بری کر دیتے ہیں  اور پھر اخباروں  میں  خبریں  آتی ہیں  کہ ’’ہندستان میں  انصاف زندہ ہے‘‘  اگر اسی کا نام انصاف ہے تو آخر نا انصافی یا ظلم و زیادتی کس چیز کا نام ہے؟

 گزشتہ جمعہ کو محمد حسین فاضلی اور محمد رفیق شاہ 12سال جیل کی سزا کاٹنے کے بعد باہر آئے تو ان کے چہرے پر نمایاں  ہونے والی لکیریں  ظلم و ستم کی غم ناک داستان بیان کر رہی تھیں ۔ 2005ء میں  عین دیوالی کے دن انسانیت کے دشمنوں  نے دہلی میں  قیامت صغریٰ برپا کیا جس میں  69 معصوم اور بے گناہ افراد کو اپنی جانوں  سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس طرح کے انسانیت سوز واقعات کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے مگر بم دھماکے کے فوراً بعد جو اندھا دھند گرفتاریاں  عمل میں  آئیں  جن کی وجہ سے بارہ بارہ سال بے گناہ نوجوانوں  کو جیل کی سلاخوں  کے پیچھے کر دیا محض اس بنیاد پر کہ وہ مسلمان ہیں۔

محض مسلمان کی بنیاد پر فرضی الزامات میں  ملوث کرکے برسوں  جیل کی سزا بھگتنے پر مجبور کرنا یہ کیا کسی دہشت گردانہ حملے سے کم ہے؟ پولس کو اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوان بے قصور اور بے گناہ ہے پھر بھی پولس ان کے گھر والوں  سے کہتی ہے کہ ابھی وہ منہ پر پٹی باندھے رہیں  ورنہ ان کے بیٹوں  کو لمبی سزا بھگتنی پڑے گی۔ دہلی پولس نے اپنے جھوٹے بیان میں  محمد رفیق پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ دہلی کے بس ٹرمینل میں  بم بلاسٹ کیا تھا۔ جب تفتیش شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ اس وقت وہ سری نگر میں  اپنے کالج کے کلاس میں  تھا۔ رفیق نے اپنے بیان میں  صاف کہا تھا کہ جب اسے حراست میں  لیا گیا تو وہ اپنے کلاس میں  موجود تھا۔ یونیورسٹی نے اس کی توثیق بھی پولس کے سامنے کی تھی۔ گواہوں  نے بھی رفیق کی بے گناہی کی گواہی دی تھی۔ پولس نے ان تمام ثبوتوں  اور سچائیوں  پر پردہ ڈال دیا تاکہ مقدمہ کی سماعت ہوتی رہے اور رفیق لمبی سزا کاٹنے پر مجبور ہو۔

 مشہور مصنفہ منیشا سیٹھی نے اپنی کتاب ’’کافکار لینڈ‘‘ میں  رقمطراز ہیں  کہ ’’یہ واحد کیس نہیں  ہے بلکہ 70فیصد مقدمات میں  اسپیشل سیل پولس اس طرح کے معاملات میں  تعصب کی نظر سے ملزمان کو جیل کی سلاخوں  کے پیچھے دھکیل دیتی ہے، بعد میں  عدالت کو ملزموں  کو رہا کرنا پڑتا ہے۔ دراصل یہ کہنا زیادہ مبنی بر حقیقت ہے کہ زیادہ تر کیسوں  میں  معصوم اور بے گناہ لوگوں  کو جھوٹے کیسوں  میں  پھنسا کر انھیں  جیل میں  بری طرح مارا پیٹا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اسلاموفوبیا کی وجہ سے اقلیتوں  کے نوجوانوں  کے عرصۂ حیات تنگ کرنے کا منصوبہ ہے۔ سخت گیر پولس جو جانبداری سے معصوم لوگوں  پر ظلم و ستم سے لذتِ روح محسوس کرتی ہے۔ بارہا معصوم صعوبتوں  کے شکار ہوتے ہیں  اور مجرم سلاخوں  سے دور باہر آزاد گھومتے پھرتے ہیں ۔

رفیق شاہ کی ماں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا۔ دہلی پولس اس کے بیٹے کے بارہ سال کے قیمتی لمحوں  کو کیا واپس کرسکتی ہے؟‘‘ رفیق شاہ نے اپنے بیان میں  کہا ہے کہ ’’جب مجھے گرفتار کیا گیا تھا تو میں  اسلامک اسٹڈیز میں  ایم اے کر رہا تھا۔ مجھے کلاس سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جب میں  نے پولس سے کہاکہ آپ میری کلاس حاضری ریکارڈ دیکھ لیجئے لیکن پولس نے ایک نہ سنی۔ کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر عبدالودود قریشی نے عدالت میں  بتایا کہ 29 اکتوبر 2005ء کو جس دن دہلی میں  دھماکہ ہوا اس دن شاہ اپنی کلاس میں  بیٹھا پڑھ رہا تھا۔ ناصر نے ایک انگریزی روزنامہ کو بتایا کہ جب مجھے گرفتار کیا گیا تھا تو میری عمر 20سال تھی۔ 23سال مقدمہ لڑنے کے بعد مجھے رہائی ملی۔ اب میری عمر 43سال کی ہوگئی ہے۔ اس وقت میری بہن کی عمر 12سال کی تھی۔ اس کی شادی ہوگئی ہے۔ جب میں  جیل سے نکل کر گھر پہنچا تو دیکھا کہ میری بہن کی بیٹی 12 سال کی ہوگئی ہے۔ میری بھتیجی مجھ سے ایک برس بڑی تھی۔ وہ شادی شادی ہے۔یہ میری بدقسمی کہئے یا پولس کی بربریت اور ظلم کہئے کہ میری ایک نسل مجھ سے بے تعلق رہی۔ جوکہانی رفیق شاہ یا نصیر الدین احمد کی ہے یہی کہانی ہزاروں  مسلم نوجوانوں  کی ہے جو فرضی الزامات میں  برسوں  جیل کی سلاخوں  کے پیچھے مشقت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔

  سوال یہ ہے کہ عوامی حکومتیں  جو پولس کے اس کارنامے سے واقف ہیں  وہ پولس کی بربریت اور ظلم کو جانتے ہوئے آخر کیوں  چشم پوشی سے کام لے رہی ہیں ؟ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ نام نہاد عوامی اور فلاحی حکومتیں  اگر پولس پر شکنجہ کسیں  اور ان کو غلط اور فرضی الزامات پر گرفتاریاں  کرنے اور جھوٹی گواہیاں  پیش کرنے پر اگر سزا دلوانے کی کوشش کریں  تو پھر پولس کا محکمہ کیا مسلم نواجونوں  کے ساتھ اس طرح کی ظلم و بربریت کو روا رکھ سکتی ہے؟

ایک طرف پولس اور حکومت کی زیادتیاں  دن بدن مسلم نوجوانوں  پر بڑھتی جارہی ہیں  تو دوسری طرف ملت مسلمہ ٹھنڈے پیٹوں  اس ظلم و بربریت کو برداشت کرتی جارہی ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں  کی تمام تنظیمیں  اس سلسلہ میں  سر جوڑ کر بیٹھیں  اور اس ظلم و بربریت کے خلاف نہ صرف مقدمہ لڑنے کی کوشش کریں  بلکہ جمہوری اور عوامی سطح پر بھی بھرپور احتجاج کا منصوبہ بنائیں ۔ دلتوں  میں  ایسے لیڈر اور رہبر ہیں  جو اپنے نوجوانوں  کی غلط گرفتاریوں  پر زبردست احتجاج اور مظاہرہ کرتے ہیں  جن کی وجہ سے پولس کسی دلت نوجوان کو بلا وجہ گرفتار کرنے سے ڈرتی ہے۔  اگر گرفتار کر بھی لیتی ہے تو دلتوں  کے زبردست مظاہرے اور احتجاج سے جلد ہی پولس رہائی دینے پر مجبور ہوتی ہے اور حکومتیں  بھی مظاہرہ اور احتجاج کے خوف سے پولس کو چھوٹ نہ ینے پر مجبور ہوتی ہیں ۔ امت مسلمہ کو دلتوں  سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ملت ہمت اور شجاعت کا مظاہرہ نہیں  کرتی تو پولس کا ظلم و ستم مسلم نوجوانوں  کیلئے جاری رہے گا؟ اور عوامی حکومتیں  بھی پولس کو مسلم نوجوانوں  کو اندھا دھند گرفتاریوں  پر حوصلہ افزائی کرتی رہیں  گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔