تحفظ دین یا تحفظ مسلک؟ اتحاد امت کے تناظر میں

 جو دین یعنی اسلام پو ری دنیا میں وحدت الٰہ اور وحدت ابن آدم کی دعوت دیتا ہے، اس کے خلاف آج کفر و شرک اور الحاد دہریت کی علمبردار طاقتیں متحد ہو کر اسے بیخ و بن سے اکھاڑ نے کے لیے چو طرفہ حملے کر رہی ہیں، اور اس دین کی حامل سمجھی جا نے والی امت مسلمہ کو انتشار و افتراق ،محکومی و مظلو می ، بے وقعتی و بے بسی میں اس قدر مبتلا کر نے میں کامیاب ہو گئی ہیں کہ جس کی مثال پو ری اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی ۔اس صورتحال کی سنگینی دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔اس صورتحال اور اس سے نکالنے کے کون ذمہ دار ہیں؟یقیناًامت کے علماء ،دانشور ان اور قائدین ذمہ دار ہیں ،اس لیے کہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اچھا ئی یا خرابی ،بناؤ یا بگاڑ کا بہاؤ اوپر سے نیچے کی طرف ہو تا ہے نہ کہ نیچے سے اوپر کی جانب ۔وہ اگر اسلام کی وحدت الٰہ و وحدت بنی آدم کی دعوت کو دنیا ئے انسانیت کے سامنے پورے زور کے ساتھ اور مسلسل پیش کرتے اور انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں دین کی اقامت اور غلبہ کو اپنا اور امت مسلمہ کا نصب العین (جیسا کہ قرآن و سنت و سیرت پاک سے ثابت ہے) قرار دیتے ہوئے اس کے اور صرف اسی کے حصول کے لیے متحدہ و اجتماعی جدو جہد کرتے تو اس بد ترین صورتحال سے امت دو چار نہ ہو تی ،اور آج بھی اگر وہ ایسا عزم کریں اور اخلاص کے ساتھ مسلسل عملی جدو جہد کریں تو امت کا قرن اولیٰ کا شاندار دور لو ٹ سکتا ہے ۔ لیکن مسئلہ ہمیشہ یہ رہا اور اب بھی ہے کہ امت کے علماء ودانشوران اور قائدین نے دین کے تحفظ اور اس کی اقامت اور غلبہ کو اپنا اور امت کا نصب العین و مشن قرار دینے اور اس کے لیے فکر مند اور کو شاں رہنے کے بجا ئے اپنے اپنے مسلک (فقہی ،فکری،سیاسی وغیرہ )کو نہ صرف تر جیح دی بلکہ شدت پسندی اور افراط و تفریط سے بھی کام لیا اور امت کو بے شمار ٹکڑوں میں بانٹتے ہو ئے ایک دوسرے کا مخالف و معاند بنا دیا ،نتیجتاً امت کا دین بھی گیا اور دنیا بھی گئی ۔یہ حضرات کسی مشترکہ اجلاس میں مدعوکیے جا نے پر امت کی زبوں حالی اور اتحاد و اتفاق پر تو خوب لچھے دار تقریریں کرتے ہیں اس طرح کہ گو یا ملت کی خیر خواہی اور ملی اتحاد کے سب سے بڑے اور مخلص ترین چیمپئین وہی ہیں ۔لیکن بعد میں پھر وہی میرا مسلک میری جماعت، میری پارٹی کی ڈھپلی بجا تے رہتے ہیں ۔ویسے ان میں سے بعض تو کسی ایسے مشتر کہ فورم میں شامل ہی نہیں ہو تے ،نہ اس کا تعاون کرتے ہیں جو ملی اتحاد اور ملی مسائل ہی کے حل کے سلسلے میں وجود میں آ یا ۔ دراصل شیطان یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ امت اگر واقعی متحد ہو گئی تو اس کی دال با لکل نہیں گلے گی ،اور وہ یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ واقعی متحد ہو نے اور رکھنے کی واحد صورت یہ ہے کہ امت کے علماء ،دانشور ان اور قائدین دین کے تحفظ اور اس کی اقامت اور غلبہ کو اپنا نصب العین اور مشن بناتے ہو ئے اسکے حصول کے لیے فکر مند اور کوشاں رہیں نہ کہ اپنے اپنے مسلک ،جماعت یا پارٹی کے تحفظ اور غلبہ کے لیے۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ علماء دانشوران و قائدین ملت کے اس روئیے کی وجہ کیا ہے ؟ کیا وہ قرآن مجید کی ان ہدایات اور تنبیہات سے نا واقف ہیں ؟: 1۔َولَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنِ ہج 46 ( انفال ۔46)’’اور آپس میں نہ جھگڑوورنہ تم میں کمزوری آ جا ئے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جا ئے گی ۔اور صبر سے کام لو ،بے شک اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ 2۔ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ص (آل عمران ۔103)’’اور تم سب مل کر اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘ 3۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَان’‘ مَّرْصُوْص’‘ ہ4 (الصف۔4)’’بے شک اﷲ ان لو گوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں،گو یا کہ سیسہ پلا ئی ہو ئی دیوار ہیں۔ ‘‘ 4۔ اَنْ اَقِیْمُواالدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط(الشوریٰ۔13)’’قائم کرو دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ ۔‘‘ 5۔وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَ ھُمُ الْبَیِّنٰتِ ط وَاُولٰٓءِکَ لَھُمْ عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘ ہلا 105 (آل عمران ۔105)’’اور ان لو گوں کی طرح نہ ہو جا نا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پا نے کے بعد پھر اختلاف میں مبتلاء ہو گئے،جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پا ئیں گے۔ ‘‘ 6۔ اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْْءٍ ط اِنَّمَآاَمْرُھُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّءُھُمْ بِمَاکَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ہ159(الانعام۔159)’’جن لو گوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے ،یقیناًان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں ۔ان کا معاملہ تو بس اﷲ کے سپرد ہے ،وہی بتا ئے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ ‘‘ 7۔ وَاِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاََنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ ہ52 فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَھُمْ بَیْنَہُمْ زُبُرًا ط کُلُّ حِزْبٍ م بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ ہ53 فَذَرْھُمْ فِیْ غَمْرَتِھِمْ حَتّٰی حِیْنٍ ہ54 (المؤمنون۔52،53،54) ’’اور تمہاری یہ امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں ،پس مجھ ہی سے ڈرو ،مگر بعد میں لو گوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس میں مگن ہے،اچھا تو چھوڑو انھیں ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقت خاص تک۔ ‘‘ 8۔مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہُ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہلا 31 مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا ط کُلُّ حِزْبٍ م بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَہ32 (الروم۔31،32)’’ قائم ہو جا ؤاس بات پر اﷲ کی طرف رجوع کرتے ہو ئے اور ڈرو اس سے اور نماز قائم کرواور نہ ہو جا ؤ ان مشرکین میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا اور گروہوں میں بٹ گئے ،ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس میں مگن ہے ‘‘۔ 9۔دنیاو آخرت کے خسران سے نہیں بچ سکتے جب تک کہ ایمان و عمل صالحہ کے ساتھ حق پرستی اور ادا ئے حقوق کی اور صبر کی ایک دوسرے کو تلقین نہیں کرتے ۔ (العصر) 10۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًام بَیْنَھُمْ ط وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ہ19 (آل عمران ۔19)’’اﷲ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ،اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لو گوں نے اختیار کیے ،جنہیں کتاب دی گئی تھی ان کے اس طرز عمل کی کو ئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کر نے کے لیے ایسا کیا تھا،اور جو کو ئی اﷲ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کردے ،اﷲ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ۔‘‘ کیا یہ حضرات حضور ﷺ کے ان ارشادات سے لا علم ہیں ؟:’’مسلمان مسلمان کا آ ئینہ اور مسلمان مسلمان کا بھا ئی ہے،وہ اس کو بربادی سے بچاتا ہے اور اس کی حفاظت کر تا ہے ،اس کا حامی ہو تا ہے ۔‘‘(مشکوٰۃ۔ابو ہریرہؓ) ’’جب تم عینیہ کے ساتھ کا رو بار کر نے لگو ،جب تم بیل کی دم تھام لو گے اور کھیتی باڑی میں مگن ہو جا ؤ گے اور دین کے(نہ کہ اپنے مسلک اور جماعت کے) کے قیام کی مہم میں جہاد سے گریز کرو گے تو اﷲ تم پر ذلت و محکو می مسلط کر دے گا جو تم سے کبھی نہ ہٹے گی، جب تک اپنے دین کی طرف نہیں پلٹو گے ۔‘‘ابو داؤد۔ عبد اﷲابن عمرؓ’’اپنے آپ کو بد گما نی سے بچا ؤ ،اس لیے کہ بد گما نی سے جو بات کہی جا ئے گی وہ سب سے زیادہ جھوٹی بات ہو گی اور دوسرے کے بارے میں معلومات حاصل کرتے نہ پھرو(بری نیت سے )اور نہ ٹوہ میں لگو (کسی کے عیب کی )اور دلالی نہ کرو (گاہکوں کو پھنسا نے کے لیے)،آپس میں بغض نہ رکھو ،ایک دوسرے کی کاٹ میں نہ لگو ،اﷲ کے بندے بن کر رہو ،آپس میں بھا ئی بھا ئی بن کر رہو۔‘‘(ابو داؤد ۔ابو ہریرہؓ )’’…….سنو دیکھو میرے بعد کافر نہ ہو جا نا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو ‘‘(خطبہ حجۃالوداع،بخاری ،عبد اﷲ بن عمرؓ)بلاشبہ ان تمام ہدایات اور تنبیہات کا انھیں علم ہے باوجود اس کے وہ اپنی اس روش کو بدلنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔اس کی واحد وجہ انانیت و نفسانیت ہے،قرآن کہتا ہے :وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا م بَیْنَہُمْ ط(الشوریٰ۔14)لو گوں میں جو تفرقہ رونما ہوا،وہ اس کے بعد ہوا کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کر ناچاہتے تھے ۔ مزید دیکھئے اوپر مذکور آل عمران کی آیت 19 ۔ اور اس خبیث مرض ’’بغی ‘‘(جو یقیناًانانیت و نفسانیت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ) کا علاج جب تک علماء ، دانشور ران و قائدینِ امت نہیں کراتے اور درج ذیل عملی تدا بیر اختیار نہیں کرتے اور عوام بھی ان سے اس کا مطالبہ نہیں کرتے نیز اندھی تقلید سے گریز نہیں کرتے اور صالح قیادت کو پسند اور اس کی حوصلہ افزا ئی اور پیروی نہیں کرتے ،اتحاد امت اور اس کے درخشاں ماضی کی واپسی کا خواب کبھی شر مندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ 1۔اپنے مسلک اور جماعت کے تحفظ اور اس کے غلبہ کے بجا ئے دین کے تحفظ اور اس کی اقامت اور غلبہ کو اپنا نصب العین اور مشن بنا ئیں ۔ 2۔ اپنے مسلک اور جماعت ہی کو کشتی نوح سمجھنے اور سمجھانے سے سخت اجتناب اور ایسی ہر خواہش اور کو شش کی پر زور مذمت ۔ 3۔ فروعی امور و مسائل کو فرائض و واجبات کا درجہ دینے سے سخت پر ہیز ۔ 4۔ دین کے تحفظ اور اس کی اقامت اور غلبہ کے لیے اجتماعی جدو جہد کی حوصلہ افزا ئی اور انفرادیت پسندی کی حوصلہ شکنی خواہ کتنی ہی بڑی شخصیت کیوں نہ ہو ۔ 5۔ مختلف جماعتوں کے فروعی امور و طریقہ کار میں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے تئیں خیر سگا لی ،خیرخواہی اور تجربات کے لین دین کی اسپرٹ ہو اور اسے باقی رکھنے کی مخلصانہ کو شش۔ 6۔ ہر جماعت اس بات کا پو را دھیان رکھے کہ اس کے وابستگان و کارکنان کے اندر دوسری جماعتوں کے خلاف تعصب ،بغض ،اور نفرت اور بہتان تراشی کا ادنیٰ سا بھی رجحان پیدا نہ ہو۔ اپنے اخبارات و جرائد اور مدارس ،دار العلوم میں بھی ان مہلک جرائم کو پنپنے نہ دیں ،ماضی کی ایسی کو ئی تحریر اور تصنیف ہو تو اسکی اشاعت پر سخت پابندی لگا دی جا ئے بلکہ بہتر ہو گاکہ ان کو جلا کر قبرستان میں دفنا دیا جائے۔ 7۔ مشترکہ ملی مسائل مثلاًمسلم پرسنل لا ء کا تحفظ ،مدارس و مساجد کا تحفظ ،مسلمانوں کی جان و مال ،عزت و آبرو کا تحفظ ،تعلیمی و معاشی ترقی کے لیے مشتر کہ فورم ہو، جس میں ہر جماعت لازماً شامل ہو ۔یہ فورم صرف جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ہو ۔جو کسی جماعت سے وابسطہ نہیں ہے اسے اس فورم کا رکن نہ بنایا جا ئے ۔پھر یہ کہ یہ مشترکہ فورم صرف مذکورہ ملی مسائل کے لیے کام کرے ۔ملک کی الیکشنی سیاست سے قطعاً لا تعلق رہے ورنہ مشاورت کی طرح یہ بھی جلد ہی بے اثراور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جا ئے گا۔

تبصرے بند ہیں۔