عرضداشت- پورٹ بلیئر یعنی کالا پانی : اردو آبادی اُدھر بھی متوجہ ہو

صفدر امام قادری

بحرِ ہندکے قلب میں ہندستان کا ایک چھوٹا سا حصہ انڈمان اور نیکو بار کے جزائر پر محیط ہے جہاں اردو عوام کی تعداد نصف سے بڑھ کر ہے لیکن ملک کے نئے حالات اور فرقہ وارانہ صورت حال کی زد میں وہاں کی امن پسندی کا امتحان ہورہا ہے۔
انگریزوں نے اٹھارویں صدی میں جب انڈمان اور نیکوبار کے جزائر کی پہچان کی اور قومی سا لمیت کے اعتبار سے بحرِ ہند کے بیچ میں موجود ان علاقوں کو بہ غور دیکھا تو شاید انھیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہو کہ یہ آبادی اپنی انفرادی شناخت بھی قائم رکھنے میں کامیاب ہوکر رہے گی۔ کمپنی حکومت نے انڈمان کو ہندستان کے مجاہدینِ آزادی کو خطّۂ زمین سے دور سمندر کے پیٹ میں اس طرح پیوست کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ وہ پھر سے انگریزوں کے خلاف کبھی ایک لفظ بول نہ سکیں گے۔ سینکڑوں اور ہزاروں لوگ ہندستان کے ہر علاقے سے وہاں بھیجے جانے لگے ۔ جیل اور سزا کے دوسرے اہتمامات تو الگ ہیں ، آج سے سو اور دیڑھ سو برس پہلے جن لوگوں کو اپنے ملک سے محبت اور ملک کے دشمنوں سے دشمنی کے جرم میں انڈمان بھیجا گیا ، وہ سب یہ جانتے تھے کہ اس زندگی میں وہ پھر سے اپنے ملک کو نہیں دیکھ سکیں گے۔
غدر کے دوران پہلی بار دو سو قیدیوں کی ٹولی انڈمان کے لیے روانہ کی گئی۔ ان میں وہابی تحریک کے صفِ اول کے افراد بہ شمول احمداللہ اور مشہور عالمِ دین ، غالب کے ہم عصر اور دوست علامہ فضلِ حق خیرآبادی بھی تھے۔ چوتھم جزیرہ اور وائپر جیل ان کے مقدر کا حصہ بنے۔ غیر آباد جزیرے کے جنگلات کی صفائی کی مشقت ان علماے کرام اور مجاہدینِ آزادی کو کرنی ہوتی تھی۔ رات میں ان غیر آباد علاقوں میں بھی زنجیروں میں قید کرکے انھیں رکھا جاتا تھا۔ سزا کے نظام میں مزید باضابطگی لانے اور مجاہدینِ آزادی کو نئے نئے امتحانات سے گزارنے کے لیے باضابطہ ایک بڑی جیل بنانے کا تصور قائم ہوا جس کی تعمیر 1906ء میں مکمل ہوئی۔ ساڑھے تیرہ فٹ لمبے اور سات فٹ چوڑے کمرے تیار کیے گئے اور ایک ساتھ سات سو سے زیادہ قیدیوں کے رکھنے کا انتظام کیا گیا۔ پھانسی گھر بھی متصل بنایا گیا تاکہ انگریز جسے چاہیں اسے ٹھکانے لگا سکیں۔ جیل کی عمارت اور اندازِ تعمیر سے آسانی سے یہ نہیں سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ عالیشان سہ منزلہ عمارت اور سات رُخوں میں جس کے کمروں کی روشیں مکمل ہورہی ہوں ، وہ ہندستانیوں کو سزا دینے کے لیے تیار کی جارہی ہیں۔ سمندر بالکل قلب واقع ہے اور کہنا چاہیے کہ پُرفضا مقام پر یہ جیل تعمیر ہوئی تھی۔
مجاہدینِ آزادی کی مختلف نسلوں نے کالا پانی کی سزا کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کیے ہیں۔ انگریزوں نے جس اہتمام سے عمارت تعمیر کی ، اس سے بڑھ چڑھ کر سزا کے اصول و ضوابط قائم کیے۔ اس جیل کا پہلا جیلر ڈیوڈ بیری کو بنایا گیا جسے ہندستان کے مجاہدینِ آزادی کو نئے نئے انداز میں سزا دینے اور ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کرنے کا خاص ملکہ تھا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے ظالم لوگ کم ہوتے ہوں گے ۔ جیل کے کمروں میں روشن دان کے لیے گنجایش پیدا کی گئی تو کچھ اس انداز سے کہ اس سے ہوا بھی نہ آسکے۔ پیشاب اور پاخانے کے لیے صبح دوپہر اور شام کے اوقات مقرر کیے گئے ۔ اس دوران کسی کو حاجت ہو تو اسے سپاہیوں کے ڈنڈے کھانے ہوتے تھے۔ قیدی ایک دوسرے سے ایسا الگ تھلگ رکھے جاتے تھے کہ ساورکر کو تین برس کے بعد یہ پتا چلا کہ ان کے بڑے بھائی بھی اسی جیل میں قید ہیں۔
فضل حق خیرآبادی کا مزار سمندر کے کنارے آج بھی عقیدت مندوں کے لیے زیارت کا باعث ہے۔ اس پورے علاقے کو ’مزار شریف ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مزار کے انتظامات وقف بورڈ کے ذمہ ہیں لیکن ملک کی فرقہ وارانہ صورت حال کا اثر یہاں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جس طرح چار مینار کے نیچے اچانک مندر کا ورود ہوگیا ، اسی طرح فضل حق خیرآبادی کے مزار کے پہلے ہی ان دنوں ایک مندر کا قیام ہوگیا ہے۔ آنے والے وقت میں حالات یہی اشارہ کررہے ہیں کہ مندر کا اہتمام بڑھے گا اور فضل حق خیرآبادی کا مزار چوں کہ پُشت پر ہے ، اس لیے اسے ڈھکنے کی کوشش کی جائے گی۔ بعض مقامی لوگوں سے آس پاس کی زمین کے بارے میں واقفیت حاصل کی گئی تو معلوم یہ ہوا کہ مزار شریف اور وہاں تک پہنچنے کے راستے کے علاوہ تمام زمینیں مندر کے حصے میں آچکی ہیں اور خطرے کی بات یہ ہے کہ وہاں کا وقف بورڈ اس بات سے اتفاق رکھتا ہے اور اس نے حکومت سے مل کر گپ چپ سمجھوتا کرلیا ہے۔
مقامی باشندوں سے معلوم ہوا کہ 1970ء تک انڈمان میں ذریعۂ تعلیم اردو تھی۔ اس لیے غیر مسلموں کی بھی بزرگ آبادی اردو کے ناواقف نہیں ہے۔ لیکن حالات میں رفتہ رفتہ تبدیلیوں نے انڈمان سے اردو تعلیم کا بوریا بستر باندھ دیا ۔ بہ مشکل چند سرکاری اسکول اور ایک عدد کالج میں اردو کی واجبی تعلیم کا انتظا م ہے۔ جس سے اردو پڑھنے والوں کی نہ ضرورت پوری ہورہی ہے اور نہ ہی یہ مناسب صورت حال ہے۔ وہاں کے لوگوں نے بالخصوص گذشتہ ایک دہائی سے اس سمت کوشش شروع کی ۔ مدارس اور پرائیویٹ اسکول قائم کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا ۔ اردو آبادی نے اس سلسلے سے سلیقے سے کام شروع کیا ہے۔ جزائر کی دنیا بکھری آبادیوں کا مظہر ہے اس لیے مرکزی سطح پر بڑے ادارے قائم کرلینے کے باوجود اردو کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ وہاں کے لوگوں نے اردو کے اسکول اور مدارس گاؤں گاؤں میں قائم کرنا شروع کردیے ہیں جس کے بہتر نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔
مرکز کے زیرِ انتظام صوبہ ہونے کی وجہ سے اگر بعض سہولتیں وہاں کے لوگوں کو حاصل ہیں تو اسی کے ساتھ پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ سرکاری دفتروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور بہت کم نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اب دلی اور انڈمان دونوں جگہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ ایسے میں اردو اور اردو عوام کے حقوق کی حصولیابی ٹیڑھی کھیرہے۔ انڈمان کے مقامی باشندوں سے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ان کے سیاسی اعتبار سے کمزور ہونے اوراپنے حق کے حصول کی مشکلات کا اندازہ ہوا۔ انھیں کانگریس کی پچھلی حکومتوں سے بھی خاصی شکایت رہی کیوں کہ اقلیت آبادی کے مسائل کی طرف اس نے کبھی توجہ نہ کی۔
انڈمان کی لائبریری آبادی کے اعتبارسے اچھی خاصی اور رکھ رکھاو کے معاملے میں نہایت معقول ہے۔ ہزار دو ہزار اردو کتابیں بھی نظر آئیں لیکن اسٹیک میں کتابوں کے رکھے جانے کا انداز یہ صاف صاف کہتا تھا کہ ان کا پڑھنے والا کوئی نہیں۔ لائبریری کے ارباب نے بھی اس بات کی تصدیق کی ۔ جہاں لاکھوں کی آبادی روایتی طور پر اقلیتی طبقے سے تعلق رکھے ، اس کی اپنی مادری زبان سے حالات کے تحت ہی سہی یہ بے رغبتی خطرناک ہے۔
ہندستان کے قومی ادارے انڈمان بالخصوص پورٹ بلیئر کو اپنی ادبی علمی سرگرمیوں سے جوڑ کر چل سکتے ہیں۔ قومی اردو کونسل ، ساہتیہ اکادمی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی اگر ارادہ کرلیں تو اپنی علمی سرگرمیوں میں انڈما ن کو شامل کرسکتی ہیں۔ قومی اداروں کی سرپرستی میں ممکن ہے وہاں کے چھوٹے چھوٹے ادارے پنپنے لگیں اور عین ممکن ہے کہ وہاں کی سوئی ہوئی آبادی میں ایک جان آجائے۔ وہ اپنے اسلاف کی زبان کی طرف راغب ہوجائیں اور انڈمان میں اردو زبان کا بھولا ہوا سبق لوگوں کو یاد آجائے۔ مشکل جغرافیائی خطوں میں بسنے والی آبادیوں کے لیے ہر قوم کو اس طرح ہی آگے بڑھ کر محبت کا پیغام پھیلانا ہوتا ہے۔ اسی مہم میں شاید فضل حق خیرآبادی کے مزار کے سوالوں کو بھی اہلِ علم سماج کے سامنے لا سکتے ہیں اور حقیقی انصاف طلب کرسکتے ہیں۔
پورٹ بلیئر صرف ہرے پانیوں کے سمندر سے گھرا ہوا ایک شہر نہیں ہے۔ جنگِ آزادی کے صبر آزما دور کی ایک ایک سانس اور دھڑکن ، ہمارے اسلاف کی ہمتِ مردانہ کا جیتا جاگتا ثبوت بھی ہے۔ پرامن ماحول اور صحت افزا فضا میں ایک خوش حال آبادی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مسجدیں بھی اس آبادی کی بہتر مالی حالت اور کشادگی کا مظہر ہیں۔ ہمارے ایسے مجاہدینِ آزادی جو وہاں بچ گئے، ان کی دوسری اور تیسری نسل اب میدانِ کارزار میں ہے۔ اسٹیٹ لائبریری کے اسسٹنٹ لائبریرین نے فخریہ انداز میں بتایا کہ ان کے دادا اترپردیش سے کالا پانی کی سزا کاٹنے کے لیے آئے تھے ۔ مسلمانوں میں اس انداز سے گفتگو کرنے والے نظر نہیں آئے۔ مسلکی اختلافات سے بھی اجتماعی معاملات میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔ کہنا چاہیے کہ سمندر پار بھی ہندستان کی زہر آلودگی اپنا کام کررہی ہے۔ توقع ہے کہ کشادہ ذہن علما اور دانش وروں کی کوششوں سے یہ مسائل حل ہوجائیں گے اور انڈمان نیکوبار علاقے میں اردو اور اردو والوں کی انفرادی شناخت کے پھر سے مواقع پیدا ہوسکیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔