غزل – بزم دنیا کا تماشا نہیں دیکھا جاتا

ابراہیم اشک

بزم دنیا کا تماشا نہیں دیکھا جاتا
زندگی یوں تجھے رسوا نہیں دیکھا جاتا

جب سے تنہائی کا احساس ہوا ہے مجھ کو
کوئی دشمن بھی اکیلا نہیں دیکھا جاتا

کوئی سچ بولنے والا بھی تو آگے آئے
ہر طرف جھوٹ کا چرچا نہیں دیکھا جاتا

کون سا درد کا سیلاب ہے اپنے دل میں
ایک آنسو بھی کسی کا نہیں دیکھا جاتا

لوچ دیکھا ہے کسی شوخ بدن کا جب سے
ہم سے بہتا ہوا دریا نہیں دیکھا جاتا

جس کو آنا ہے چلا آئے گا ملنے کے لیے
بے سبب بیٹھ کے رستا نہیں دیکھا جاتا

آئینہ سیکھ گیا شکل بدلنا جب سے
ہم سے تو عکس بھی اپنا نہیں دیکھا جاتا

دکھ جو اپنا ہو تو ہر حال میں سہہ سکتے ہیں
دکھ مگر ہم سے پرایا نہیں دیکھا جاتا

تبصرے بند ہیں۔