اور دیوار ٹوٹ گئی………….

شیما نظیر

اماں کے کھانسنے کی آواز سن کر میں دوڑی ..

اور انھیں پانی پلا کر پھر آرام سے سلادیا وہ پھر ہانپ رہی تھیں لگتا تھا پھر بھیا خواب میں نظر آئےـ

پھر صبح فجر کو انھیں وضو کروایا نماز ادا کرکے وہ تسبیح لےکر بیٹھ گئیں..

میں وہیں قریب میں آنگن میں بنے چولہے کے پاس چائے بنانے گئی””’ آدھی ادھوری دیوار پر رکھے پانی کے گھڑے سے پانی دیگچی میں ڈالی چائے پتی ڈال کر دوسرے چولہے پر دودھ کا بھگونہ رکھا ساتھ ساتھ اماں کی جھکی کمر پر نظر بھی تھی۔

میرا ہر روز کا معمول تھا فجر کے ساتھ ہی آنگن میں پانی کا چھڑکاؤ کرنا پورا گھر جھاڑنا چائے اماں کو دینا پھر ناشتہ تیار کرنا تب تک بابا آجاتے اور پھر دونوں کو ناشتہ پروسنا……..

اماں کی کمر کتنی جھک گئی انھیں دیکھا تو پرانی یادیں ذہن میں تازہ ہوگئیں۔

تقریباً بیس سال پہلے کی بات تھی….اس وقت اماں بہت تندرست تھیں اور انھیں پیڑ پودوں کا بہت شوق تھا۔ آنگن میں کئی پیڑ پودے تھے اماں کو گلاب کا پھول بہت پسند تھا ‘ بہت زیادہ نگہداشت کرتیں اور میں اس وقت بالکل چھوٹی بچی اور مجھے ان کا گلابوں کا گملہ اور اس میں کھلے پھول بہت پسند تھے۔

ہمیشہ دن کے وقت جب سب کام میں مصروف ہوتے میں اپنے گھر کی گرتی دیوار سے کود کر اماں کے آنگن میں جاتی اور…….ان کے گلاب کے کچھ پھول توڑلیتی۔

اچانک اماں کی نظر پڑتی تو مجھے مارنے دوڑتیں لیکن میں یہ جا وہ جا ….غائب۔

اماں کا صرف ایک ہی بیٹا تھا جو اس وقت دسویں میں پڑھتا تھا اس قدر خوبصورت فرمانبردار ‘ اطاعت گزار ‘ تعلیم میں اول، خدمتِ خلق میں آگے، غرض کوئی ایسی خوبی نہ تھی جو اس میں موجود نہ رہی ہو………..

والدین اس پر جان چھڑکتے دوستوں میں وہ ان کے لئے قیمتی شئے کی مانند اساتذہ کا لاڈلا’ محلے والوں کی آنکھ کا تارا، غرض ہر ہر جگہ اسے پسند کیا جاتا….

اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

اسکول ختم ہوا رزلٹ آیا تو ماں کے قدموں میں بیٹھ گیا۔

کہنے لگا” اماں آپ سے دور جانے کو جی نہیں چاہتا”

اماں نے گلے سے لگالیا، پیار سے گال پر ایک چپت لگائی، پگلے تو تو میرا ہیرا ہے میرا بیٹا تجھے بھلا میں کیوں دور کروں گی۔

میں اس روز بھی گلاب چرانے آنگن میں کودی تھی۔ اماں نے اس روز ہنستے ہوئے کہا پرکلی لے لے آج تجھے نہیں ڈانٹوں گی۔

آج میرا بیٹا دسویں میں کامیاب ہوا ہے…..

اس روز پہلی بار مجھے پھول لے کر بھی وہ مزہ نہیں آیا جو اماں کی ڈانٹ پر آتا تھا۔

کچھ دن اور گذرے اور کلیم بھیا کو کسی اچھے کالج میں ایڈمیشن مل گیا جو شہر سے پانچ کلو میٹر دور تھا۔

اس روز عشاء کی نماز سے آکر معمول کی طرح تلاوت قرآن کے بعد بھیا اماں کے قریب بیٹھ گئےـ

ہر روز ماں بیٹے گھنٹوں باتیں کرتے۔

کچھ دنوں سے بھیا اداس اداس لگ رہے تھے۔

اماں نے پوچھا بھی مگر کوئی وجہ بتا نہیں پائے۔ بس اماں ایسا لگتا ہے میں آپ سے دور جا نے والا ہوں…..

بات تشویش کن تھی۔

اماں نے اپنے شوہر سے بیان کیا۔ انھوں نے بھی دوستوں کے حلقے میں معلوم کیا لیکن…

کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تھی۔

وہ لوگ بھی چپ ہوگئے پھر ایک روز بولے:

اماں پرسوں صبح مجھے کالج جانا ہے، وقت پر اٹھادیجئے گا۔

اماں نے کہا ہاں بیٹا اٹھا دوں گی۔

اور دوسرے روز شام کو وہ اماں کے قریب بیٹھ گئے بلکہ اماں کےگود میں سر رکھ کر لیٹ گئے، بولے:

اماں بچپن کی طرح سلادو نا”

ماں کا دل عجیب انداز سے دھڑکا۔۔۔

فوراً بھانپ گئیں کچھ تو بات ہے۔

کہنے لگیں:  کیا ہوا بیٹا کیا کالج پسند نہیں آیا کچھ دنوں سے اس طرح کی عجیب باتیں کیوں کررہے ہو”

نہیں اماں کچھ نہیں آپ ایسے ہی فکر مند ہوتی ہیں۔

پھر اس روز تمام وقت ماں کے ساتھ گذارا۔

شام میں جب کنویں سے پانی سین کر ماں پیڑ پودوں کو ڈالنے لگی تو سارا کام خود کیا اور کہنے لگے: اماں آج آپ میرے سامنے بیٹھو میں پانی دوں گا درختوں اور پودوں کو کل سے آپ دے لیجئے گا””

 ماں نے پوچھا کیوں کہیں جارہے ہو؟

مسکرا کر ماں کی طرف نظر بھر کر دیکھا  ایسے جیسے آخری بار دیکھ رہے ہوں پھر سر کو اثبات میں ہلا کر کہا: ہاں جا رہا ہوں۔

ماں نے دل پر ہاتھ رکھ لیا پوچھا:

کہاں؟؟؟

کہنے لگے:

میری اماں آپ کتنی بھولی ہو کل سے میرا کالج شروع ہوگا میں پابندی سے جاوں گا تو گھر میں اس طرح آپ کا ہاتھ کیسے بٹاؤں گا؟

پھر ایک ہلکی سی مسکان دونوں کے چہروں پر آئی مگر ماں کی مسکان میں فکرمندی کا عکس تھا…….

صبح فجر کے بعد آئے کپڑے جوتے موزے سب نکالے جانے سے پہلے ماں سے کہا

اماں آج اپنے ہاتھ سے کھلادو۔

ماں نے روٹی کھلائی تو گلاب کے پھولوں کے گملے کی جانب اشارہ کرکے بولے اماں جب تک میں نہ آؤں ان گلاب کے پھولوں کو دیکھ لینا۔

اماں نے کہا:

یہ کیا کہہ رہے ہو کہاں سے آنے تکــ ـ؟

بات پر زور دے کر پوچھا

ارے اماں جان کالج سے

اسی انداز میں جواب دیا۔

والدین سے گلے ملے، جاتے جاتے بھی پلٹ پلٹ کر ماں کو کئی بار دیکھا

جب کالج چلے گئے اماں اپنے روز مرہ کے کاموں میں لگ گئیں مگر اس دن کمبخت دن کاٹے نہیں کٹ رہا تھا۔

….آج بیٹے کی پسند کا سالن بنایا انتظار کر رہی تھیں،

ابھی آئے گا  اور ماں سے لپٹ جائے گا اتنے میں محلے کی کچھ خواتین گھر آئیں، ان کے سامنے بھی بیٹے کی تعریفیں کرتی رہیں

پھر اچانک ان کے شوہر پریشان سے گھر آئے،

ان کا متفکر چہرہ دیکھتے ہی پتہ چل گیا کچھ ہوا ہے۔

ان سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ……..

جو بات معلوم ہوئی وہ تو سن بھی نہ سکیں اور بے ہوش ہوگئیں۔

 جب ہوش آیا تو سارا گھر خاندان اورپاس پڑوس کے لوگوں سے بھرا پڑا تھا کسی کی آنکھیں نم، کسی کی آنکھوں میں ہمدردی، کسی کے آنکھوں میں آنسو اور فکر دیکھ کر بیٹے کا خیال آیا۔

زور سے چلاتی ہوئی باہر بھاگیں،  دروازہ کے پاس ہی کسی نے روک لیا۔

کلیم کی نعش کو پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردیا گیا تھا نہلا دھلا کر تدفین کے لئے تیار کرنے کے بعد اماں کو چہرہ دکھایا گیا.

وہ کیا منظر تھا ۔۔۔ بیان سے باہر

اماں جس طرح رو رہی تھیں مجھ سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔

بہرحال کسی طرح یہ موقع ختم ہوا، ایک ایک کرکے سارے لوگ چلے گئے

مگر اماں کا تڑپنا …اب بھی….برقرار تھا۔ دوسرے دن بھی وہ بنا کھائے پیئے بیٹھی رورہی تھیں۔ میں امی سے مانگ کے کھانا لےگئی۔ اماں در اصل ہماری پڑوسن تھیں اور مکان مالک بھی۔

جب اماں رورہی تھیں تب میں وہ گلاب کے پھولوں کا گملہ اماں کے قریب لائی اور کہا اماں "”بھیا نے کیا کہا تھا جب بھی ان کی یاد آئے اسے دیکھ لینا۔۔۔۔

انھوں نے مجھے اپنے سینے میں بھینچ لیا اور زار و قطار رونے لگیں۔

پھر میں نے اپنے ہاتھ سے انھیں کھانا کھلایاـ

پھر دھیرے دھیرے سب کچھ نارمل ہونے لگا۔ سچ ہی کہا کسی نے وقت بڑے سے بڑے زخم کا مرہم ہے۔

ہم جملہ پانچ بہنیں تھیں میں سب سے چھوٹی تھی اور ہر روز اماں کے گھر میں جاکے گھنٹوں بتاتی تھی۔

پھر ایک دن اماں  نے میری امی بابا سے منت کرکے مجھے مانگ لیا اور کہا کہ میں اسے اپنی بیٹی کی طرح رکھوں گی۔ کلیم کے جانے کے بعد ہمارا اب اس دنیا میں ہے ہی کون؟  تم لوگ بھی زندگی بھر ہمارے اپنے بن کر اسی گھر میں رہو ہمارے بھائی بہن کی طرح،

اور پھر اس دن سے آنگن کی وہ گرتی دیوار ٹوٹ چکی تھی۔

آج بھی میں اماں کے ساتھ ہوں حالانکہ اماں نے اچھے گھرانے میں میری شادی کی اوران سے اجازت لے کر مجھے اپنے گھر رکھ لیا۔

میرے دو بچے بھی ہیں۔ میرے شوہر بیرون ملک میں رہتے ہیں۔ بھیا کا کسی خوفناک سڑک حادثے میں انتقال ہوئے بیس سال ہوگئے اور بہت کچھ بدل گیا۔ نہیں بدلا تو صرف وہ گملہ جس میں آج بھی تر و تازہ گلاب لگے ہوتے ہیں۔

(ایک سچے واقعہ سے ماخوذ)

تبصرے بند ہیں۔