شوال کے چھ روزے: فضائل ومسائل

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

رمضان المبارک کے مہینہ کے بعدشوال کا مہینہ آتا ہے ،رمضان میں ایک مہینہ تک مسلسل روزوں کا اہتما م کیا جاتا ہے،اور چوں کہ رمضان کے روزے فرض ہیں اس لئے ہر کوئی ہر ممکن رکھنے کی پوری کوشش بھی کرتا ہے ۔رمضان کے گزرنے کے بعد شوال کے مہینہ میں چھ نفل روزے رکھے جاتے ہیں ،جن کو ’’ ستۂ شوال ‘‘ کہاجاتا ہے ،یعنی شوال کے چھ روزے ۔عام طور پر ہمارے پاس رمضان المبارک کا جو نظام الاوقات چھپتا ہے اس میں بڑے اہتمام کے ساتھ اس کے بھی سحر و افطار کے اوقات درج ہوتے ہیں ،اور اللہ کے کچھ بندے ان چھ روزوں کے رکھنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں ۔تو آئیے مختصراً ان روزوں کی حقیقت ،فضیلت او ر ان سے متعلق ضروری مسائل جانتے ہیں ،تاکہ ہمیں ان روزوں کی حقیقت اور حیثیت معلوم ہوجائے۔
چھ روزوں کی فضیلت:
شوال کے مہینہ میں رکھے جانے والے ان روزوں کی فضیلت میں مختلف حدیثیں وارد ہوئی ہیں ،جن میں سے ایک یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:مَنْ صَاْمَ رَمَضَانَ ثُمَّ اَتْبَعَہ‘سِتّاًمِنْ شَوَّالٍ کَاْنَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ۔( مسلم : حدیث نمبر؛689)یعنی جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ روزے شوال کے رکھے تو گویا اس نے ساری عمر روزے رکھے۔حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے مروی ایک حدیث یہ ہے :مَنْ صَاْمَ رَمَضَاْنَ،وَسِتّاًمِنْ شَوَّالٍ،فَکَاَنَّمَاْصَاْمََ السَّنَۃَ کُلَّھَا ۔( مسند احمد: حدیث نمبر؛14014)یعنی آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھے ، تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔حضرت ثوبانؓ نے نبی کریم ﷺ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ:صِیَامُ شَھْرِ رَمَضَانَ بِعَشْرَۃِاَشْھُرٍوَصِیَامُ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ِ بشَھْرَیْنِ،فَذٰلِکَ صِیَامُ سَنَۃٍ ۔( السنن الکبری للنسائی:حدیث نمبر؛2816)یعنی رمضان کے مہینہ کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اور شوال کے چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں ،پس یہ پورے سال کے روزوں کے برابر ہیں۔ان احادیث کے علاوہ بھی اور حدیثیں ان چھ روزوں کی فضیلت کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے منقو ل ہیں۔
چھ روزں کی خصوصیت:
احادیث میں خود نبی کریم ﷺ سے یہ منقول ہے کہ رمضان المبارک کے تیس روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا گویا پورا سال روزے رکھنے کے برابر ہو گا اور سال بھر روزے رکھنے کا اجر وثواب ملے گا۔علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ مسلم کی شرح ’’فتح المہلم ‘‘میں حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:وَاِنَّمَاکَانَ ذٰلِکَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ،ِ لاَنَّ الْحَسَنَۃَ بِعَشْرَ اَمْثَالِہَا،فَرَمَضَان بِعَشْرَۃِ اَشْھُرٍ وَالِستَّۃُ بِشَھْرَیْنِ ۔( فتح الملھم : 6/258،دار الضیا ء کویت)ان روزوں کی وجہ سے عمر بھر روزے رکھنے کی طرح ہوگیا ،اس لئے کہ ہر نیکی کا اجر دس گناہ ہے ، پس رمضان کے تیس روزے دس مہینے ( یعنی تین سو دن )کے برابر ہوگئے ،اور چھ روزے دو مہینے ( یعنی ساٹھ دن ) کے برابر ہوگئے اس طرح پورا سال روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔حکیم الاسلام قاری محمد طیب ؒ بھی اس کی اسی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :ماہِ رمضان کے دنوں کو دیکھئے تو ان میں 30 روزے رکھے گئے ہیں اور شریعت کی بخششیں بے کراں نے ایک نیکی کو دس نیکی کے برابر شمار کیا ہے من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالہا ۔ اس اصول پر یہ 30 روزے 300 ہوجاتے ہیں،اور ادھر عید کے بعد شش عید جو بطور تتمہ و توابع رمضان کے ساتھ لاحق کئے گئے ( گو بوجہ تسہیل و رحمت انہیں اختیاری رکھا گیا ،اور جزو رمضان نہیں بنایا گیا) اصولِ مذکورہ پر 60 ہوجاتے ہیں تو رمضان کے اصل اور ملحقہ روزوں کا مجموعہ بھی وہی 360 ہوجاتا ہے جو سال کے دنوں کی تعداد ہے ،اور اس کا حاصل بھی وہی نکلا کہ رمضان کے یہ انعامی 360 روزے سال بھر کے پورے 360 دنوں کے مساوی ہیں اور رمضان کے یہ اصل اور توابع روزے پورے کردینے والا سال کے تمام روزے رکھنے والا بن کر ’’صائم الدھر‘‘ بن جاتا ہے ۔( خطبات حکیم الاسلام:9/108)
چھ روزوں کے مسائل:
*شوال کے یہ روزے لگاتار رکھنا ، یا عید کے اگلے دن سے فوراً رکھنا ضروری نہیں بلکہ شوال کے مہینے میں عید کا دن چھوڑ کر جب اور جس طرح سے چاہیں رکھ سکتے ہیں ،بس اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ ان چھ روزوں کی تعداد شوال کے مہینے میں مکمل ہوجانی چاہیے ۔( شوال و عید الفطر : فضائل واحکام:418)
*رمضان کے روزے فرض ہیں ،شوال کے چھ روزے نفل ہیں ،لہذا شوال کے چھ روزوں میں رمضان کے روزوں کی قضا کی نیت کرنادرست نہیں ،اس طرح رمضان کا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔( روزے کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا:131)
*شوال کے روزے جائز اور مستحب ہیں ،نہ فرض ہیں اور نہ واجب ، اس لئے یہ سمجھنا کہ رمضان کے روزوں کا اجر ان روزوں پر موقوف رہتا ہے ،درست نہیں ہے۔( کتاب الفتاوی :3/442)
*عید کے فوراً بعد رکھنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر عید کے بعد سے لگاتا رہے تو یہ افضل ہے۔( الفقہ الاسلامی وادلتہ :2/589)
*بعض لوگ عید الفطر گزرنے کے بعد شوال کی آٹھ تاریخ کو ایک اور عید مناتے ہیں ،جب کہ بعض لوگ شوال کے چھ روزوں سے فارغ ہو کر یہ عید مناتے ہیں اور بعض لوگ اس عید کو ’’ عیدِ ابرار‘‘ کانام دیتے ہیں،اس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں اور اس کو عید قراردینا شرعاً غلط ہے ۔( شوال و عید الفطر کے فضائل واحکام:422)
آخری بات:
شوال کے چھ روزوں سے متعلق یہ چند اہم اور ضروری باتیں پیش کی گئیں ،شوال کے چھ روزے نفل ہیں لہذا اگر رکھیں تو اجر وثواب حاصل ہوگا ،لیکن اگر کوئی نہ رکھے تواس کو برُا بھی سمجھنا چاہیے ،اور بطور خاص چھ روزے ہونے کے بعد جو عید کا تصور ہے اس کو ختم کرنا چاہیے،ہمارا ہر عمل نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کی ہدایات کے مطابق ہونا چاہیے ،نہ اپنی طرف سے کسی قسم کی کمی ہو اور نہ ہی زیادتی تو پھر ہر چھوٹا عمل بھی اپنے اثرات وبرکات ظاہر کرے گا۔

تبصرے بند ہیں۔