IND VS SA: کارواں کیوں لٹا کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں؟

سدھیر جین

کیپ ٹاؤن میں بھارت کی شکست کا تجزیہ کرنے میں دقت آ رہی ہے. یہ پہلا ٹیسٹ میچ تھا. ابھی دو اور کھیلنے ہیں. اتنا ہی نہیں ٹی 20 اور ون ڈے بھی کھیلنے ہیں. لہذا اس ہار کا تجزیہ جنوبی افریقہ کے دورے میں آگے کی حکمت عملی بنانے کے لحاظ سے بھی ہے.

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ کرکٹ اتفاقی کھیل زیادہ ہے. اور اسی لیے اسے ہار جیت کے امکانات کی بہت بڑی رینج کا کھیل سمجھا جاتا ہے. لیکن کھلاڑیوں  کی  اپنی مہارت اور کپتان اور کوچ کی حکمت عملی کا بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے. یہ حکمت بھی اس کھیل کو دلچسپ بناتی ہے. بتا دیں کہ کیپ ٹاؤن میں ہماری جو ٹیم کھیل رہی تھی وہ دنیا میں اپنے عروج پر کھیل رہی ٹیم تھی. کیپ ٹاؤن کے اس میچ میں درجہ بندی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے اوپر کی دو ٹیمیں آمنے سامنے تھیں. وہ کھلاڑی بھی درجہ بندی کے لحاظ سے کم و بیش ایک جیسے تھے. یعنی ایسے میچوں میں اگر جیت حاصل کرنی ہو تو اس کی بنیاد کھیل کی حکمت ہی ہو سکتی ہے. اس طرح کی حکمت جو پہلے سے طے تو ہوں ہی، ساتھ ہی وہ بھی جو کھیل کے دوران ہی سیشن در سیشن بنانی پڑتی ہیں. اس لحاظ سے تجزیہ کریں تو پورے میچ میں دونوں ٹیمیں تقریبا برابر کی مہارت سے كھیليں ۔آخري سیشن میں بھارت کے سامنے جیت کا مقصد صرف 208 رنز کا تھا جو بتاتا ہے کہ اس وقت تک بھارت نے پورا میچ جنوبی افریقہ سے بہتر کھیلا. ہم ہارے تو چوتھی اننگز میں جیتا ہوا دکھائی پڑ رہا میچ ہار گئے.

دو سو آٹھ رن بنانے تھے. چوتھا دن تھا. چوتھے دن کے دو سیشن یعنی 60 اوور اور پانچویں دن کے 90 اوور ہمارے پاس تھے. ہمارے پاس اس کا تجربہ بھی تھا کہ پہلی اننگز میں تقریبا تباہ ہوتے ہوئے بھی ہم نے 209 رن بنائے تھے. ہم نے یہ رنز تب بنائے تھے جب ہمیں اس پچ پر بیٹنگ کا اندازہ نہیں تھا. حالاں کہ، اسی پچ پر ہم نے جنوبی افریقہ کو پہلی اننگز میں 286 رنز بناتے دیکھا تھا. ویسے پچ کے مزاج کا یہ تجربہ ہندوستانی گیند بازوں اور وکٹ کیپر کو ہی سب سے زیادہ ہوا تھا. یہیں پر یہ ذکر کر لینا چاہئے کہ بھارت کی ڈھہتی ہوئی پہلی اننگز کو ہمارے گیند بازوں نے سنبھالا تھا. مثلا 93 رن بنانے والے ہاردک پانڈیا اور 86 گیندوں تک ٹکے رہنے والے بھونیشور کمار نے. بہرحال ہدف کا تعاقب کرتے وقت ایک اور حقیقت ہمارے سامنے تھی کہ ہم نے جنوبی افریقہ کو دوسری اننگز میں 130 رنز پر سمیٹ کر پہلی اننگز کا سارا خسارہ برابر کر لیا تھا۔ برابر ہی نہیں بلکہ معجزانہ طور پر منافع بھی حاصل کر لیا تھا. یعنی اگر کوئی کہے کہ بھارت کو پہلی اننگز کا 77 رنز کا خسارہ بھاری پڑ گیا، تو یہ بیکار کی بات ہے. جو بات بھاری پڑی وہ صرف ایک ہی ہے کہ ہم 208 رن کا ایک چھوٹا سا ہدف حاصل نہیں کر پائے.

ہم فوری طور پر یعنی چوتھے دن ہی ہدف حاصل کرنے میں لگے نظر آئے. ہم جوش میں ہم بھول گئے کہ وہ صورتحال ٹھنڈا کرکے  کھانے والی تھی. ایسی خوشگوار صورتحال تھی کہ اگر یہ اصول بنا لیتے کہ شروع کے دس بیس اوور میں رن بنانا ہی نہیں ہے اور صرف وکٹ محفوظ رکھنا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا کیونکہ وقت کی کسی طرح کی کوئی فکر تھی ہی نہیں. ہماری حکمت عملی صرف گیند بازوں کو تھكانے کی بننی تھی. اس کے لئے چاہے وراٹ کوہلی اور ساہا کو ہی اوپننگ کرنے کیوں نہ آنا پڑتا. دھونی تو خیر سنیاس لے چکے ہیں لیکن اس موقع پر خود اور دوسرے کھلاڑیوں کو مشورہ دینے کے کام کے لئے انہیں بھی یاد کر لینے میں حرج نہیں ہے. ویسے اگر ٹیسٹ کرکٹ میں اپنا دبدبہ برقرار رکھنا ہے تو ہمیں ستر کی دہائی کے کھلاڑی ایکناتھ سولکر، مہیندر امرناتھ، GR وشوناتھ اور راہل دراوڑ جیسے کھلاڑیوں کی پرانی ویڈیو ركارڈنگس کو بار بار دیکھ کر جاننے کی ضرورت آج بھی ہے.

پورے میچ میں کوئی بھی ماہر تالی ٹھوك كر یہ نہیں کہہ پایا کہ پچ میں کوئی جن تھا. پہلی گیند سے لے کر آخر تک گیند بازوں کے نظم و ضبط اور کلاسیکیزم کی تعریف ہوتی رہی. پہلی اننگز میں جنوبی افریقہ کے کچھ بلے بازوں کے کلاسیکی کھیل کی بدولت ہی وہ پونے تین سو سے زیادہ رنز بنا پائے. ویسے مجموعی طور پر یہ میچ اشارہ کر رہا ہے کہ بلے بازوں کے غلبہ والا گول اتار پر ہے. کم سے کم اس میچ میں جنوبی افریقہ کے گیند بازوں نے یہ اشارہ دے دیا ہے. سدھی ہوئی لائن پر ہوا میں من مرضی کی سوئنگ كراكے انہوں نے جو کلاسیکی مظاہرہ کیا وہ بتا رہا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں بلے بازوں کو بائیلوجیکل ریفلیکس اور نفسیاتی ایٹولوجی یعنی حاضر دماغی بڑھانے پر اور کام کرنا پڑے گا. تین دن میں نپٹے اس واحد ٹیسٹ میچ میں جتنی بار کرکٹ کے سائنٹفک كاپي بك اسٹائل کو دیکھنے کے مواقع ملے، اس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ حاضرین میں وکٹ بچانے کے کلاسیکی کھیل دیکھنے کی دلچسپی بھی تیار ہوئی ہوگی.

مترجم: محمد اسعد فلاحی

تبصرے بند ہیں۔