پذّا بوائے: کچھ حقیقت کچھ فسانہ

ابراہیم افسر

 یہ ممکن ہے کہ کوئی بھی مہذب انسان توصیف بریلوی کے افسانے ’’پذّا بوائے‘‘کی ورق گردانی کرکے شاید ہی اپنے گھر کے لیے ’’پذّا‘‘ کا آرڈر دے۔ کیوں کہ اُنھیں ہر ایک پذّا ڈیلیوری بوائے میں توصیف بریلوی کے کردار ’’پذّابوائے ‘‘کا عکس نظر آنے لگے گا۔ انسان کاایسا محسوس کرنا اور سوچنا ایک فطری عمل ہے۔ جنسی بے راہ روی نے گھر خان دان اور انسان کے وجود تک کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ان تمام باتوں اورعوامل کے پیچھے مغربی طرز ِ زندگی اور مغربی کلچر ہے۔ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ہوڈ نے انسان کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ اُس کے روحانی سکون کو بھی سلب کر لیا ہے۔ مغربی کلچر کے جادو میں نئی نسل کے ساتھ اگر پُرانی پیڑھی بھی گرفتار ہو جائے تو نوع انسانی کا تو اللہ ہی مالک ہے۔ ’’پذّا بوائے‘‘خاندانی جنسی بے راہ روی کی عمدہ مثال ہے۔ ماں اوربیٹی کے نا جائز تعلقات ایک ہی مرد سے ہونا، یہ ہمارے معاشرے کے کھوکلے پن اور زوال کی کہانی بیان کرتا ہے۔ ساتھ ہی لڑکوں کا پیسوں کی خاطر اپنے جسم کو جنس کی منڈی میں فروخت کرناسماجی دیوالیے پن کی نشانی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ معاشرے میں اس طرح کے بننے اور بگڑنے والے رشتوں کو قاری اور نقاد کیا نام دے؟قاری کے سامنے یہ ایک اخلاقی سوال سے زیادہ غور وفکر کرنے کا مقام ہے۔ ویسے افسانہ نگار اپنے وقت کا نباض ہوتا ہے۔ وہ وہی لکھتا ہے جو وہ دیکھتا ہے۔ آج موجودہ زمانے میں پذّا بوائے جیسے واقعات اکژ ہمیں سننے، پڑھنے اور دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔ دورِ حاضر میں زیادہ تر افسانے حقیقت پر مبنی تخلیق کیے جا رہے ہیں ۔ پذا بوائے بھی حقیقت پر مبنی افسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

توصیف بریلوی نے اپنے افسانے ’’پذّابوائے ‘‘میں کھوکلی قدروں اوررشتوں کی دبیز پرتوں کا جس عالمانہ اور مفکرانہ طریقے سے تجزیہ کر اُسے قاری کے سامنے پیش کیاہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ توصیف بریلوی نے اس افسانے کے ذریعے ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ انسان تنہائی میں رہ کر گناہوں کی دلدل میں کس طرح غرق ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ گناہوں کے اس مکڑجال میں اُلجھ کر اُسے اپنے رشتوں کی قدروں کا بھی خیال نہیں رہتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بہت سے لوگوں کی آنکھوں پر فیسن کا ایک موٹا چشمہ چڑھا ہوتا ہے۔ وہ اپنے نفس کی تسکین کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیا ر رہتے ہیں ۔ ان تمام باتوں کے مد نظر معاشرے میں ان جدید گناہ گاروں کو فوقیت حاصل ہے۔ ایسے خاندان معاشرے میں اعلا مقام و مرتبے کے مالک ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ترقی پسند اور جدید فکر و نظر کا محافظ بھی سمجھتے ہیں ۔ دراصل یہی لوگ معاشرے کو بنانے اور سنوارنے کی بجائے بگاڑ تے ہیں ۔ رات کی سیاہی انھیں اُجلی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ہر رات دیوالی ہوتی ہے۔

گذشتہ دنوں محمد مستمر کا افسانہ’’حدوں سے آگے ‘‘منظرِ عام پر آیا۔ اس افسانے میں بھی معاشرے کے علم برداروں کے نفسیاتی اور جنسی مسائل کو قاری کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس افسانے میں حیوان اور انسان کے جنسی تعلقات کو قاری کے سامنے پیش کیا گیا۔ تیز رفتار زندگی نے انسانی رشتوں کی چادر کو کب اُتار پھینکا، یہ ہمیں تب معلوم ہوتا ہے جب ہمارے آس پاس یا معاشرے میں حدوں سے آگے یا پذا بوائے جیسے واقعات رو نما ہوتے ہیں ۔ آج انسان کے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ وہ گھڑی دو گھڑی اپنے اہلِ خانہ کے پاس بیٹھ سکے۔ ویسے یہ باتیں مغربی تہذیب کے پرستاروں کو فرسودہ نظر آتی ہیں ۔ نئی نسل اپنی تہذیب اور قدروں سے ناآشنا ہوتی جا رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں تمام طرح کی برائیاں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔

 بیسویں صدی میں معاشرے کی اصلاح کے لیے راشدالخیری تھے تو معاشرے کی حقیقت کو قاری کے سامنے لانے کے لیے سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی تھے۔ ان افسانہ نگاروں نے معاشرے کی خامیوں اور خوبیوں کو اپنے افسانوں میں خوب سے خوب تربیان کیا۔ لحاف ہو یاٹھنڈا گوشت، ٹیڑھی لکیر ہو یا کالی شلواران کہانیوں میں معاشرے کی سچائی کو بیان کیا گیا۔ دم توڑ رہے معاشرے میں ایک تازہ روح پھوکنے کی کوشش کی گئی۔ اس زمانے میں بھی افسانہ لکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں ۔ لیکن معاشرے کے ننگے سچ کو آئنہ دکھانا سب کا کام نہیں ۔ اس کارنامے کو انجام دینے کے لیے محمد مستمر یا توصیف بریلوی بننا ہی پڑے گا۔ ان دونوں نوجوان افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے سیاہ پہلو کو اپنے قلم سے دنیا اور قاری کے سامنے پیش کیا۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ان سے پہلے کے افسانہ نگاروں نے اس کارِ خیر میں کوئی رول ادا نہیں کیا۔ لیکن ان دونوں افسانہ نگاروں نے اپنے سے سینیرافسانہ نگاروں کے ہوتے ہوئے اپنی بات بڑے سلیقے اور مہذب طریقے سے کہی۔ یہ ان کے کمال ِ فن کی معراج ہے۔

 بہرِ کیف!توصیف بریلوی کی اس افسانے کو تخلیق کرنے پر جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔ اس ا فسانے نے جدید طرزِ حیات کے کالے کارناموں کو صفحۂ قرطاس پر اُکیرا ہے۔ کہ کیسے اعلا اور مہذب لوگ اپنی خواہشات ِ نفس کو مٹانے کے لیے دوسرے لوگوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ جب انسان اکیلا رہتا ہے تو اس کی نفسی خواہشات کے زیادہ بھڑکنے کا امکان رہتا ہے۔ افسانہ ’’پذّا بوائے‘‘میں بھی اسی طرح کے خیالات کی نمائندگی اور ترجمانی کی گئی ہے۔ کہ فلیٹ میں اکیلی زندگی بسر کر رہی لڑکی رنکی’پذّاکھانے‘کے نام پر ’’پذّا بوائے ‘‘سے اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرتی ہے۔ ساتھ ہی اپنی سہیلی کو بھی پذّا بوائے کے جسم سے کھیلنے کا موقع فراہم کراتی ہے۔ اس کے بدلے ٹیناپذا بوائے کو خطیر رقم بھی دیتی ہے۔ تاکہ پذا بوائے کو وقت بے وقت اپنے فلیٹ پراپنی نفسی خواہشات کو مٹانے کے لیے بلایا جا سکے۔ لیکن پذا بوائے کو اب اور زیادہ رقم کی درکار ہے۔ ٹینا اسے اورزیادہ رقم دینا چاہتی ہے۔ افسانہ تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔ ٹینا اپنے ہی کمپاؤنڈ میں پذا بوائے کو آتے جاتے دیکھتی ہے۔ وہ اُس کاپیچھا کرتی ہے۔ رنکی کی آنکھیں اُس وقت پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں جب وہ اپنی ماں کے فلیٹ سے پذا بوائے کو رنگے ہاتھوں رنگ رلیاں مناتے پکڑ لیتی ہے۔ ٹیناکو اس بات کا ملال، حیرت، افسوس، غم اور غصہ ہے کہ اُس کی ماں بھی جنسی بے راہ روی کا شکار ہو کر پذا بوائے سے اپنی جنسی خواہشات کو پورا کر رہی ہے۔ یعنی ماں اپنے شوہراور ٹیناکے والد کو دھوکہ دے رہی ہوتی ہے۔ ماں بیٹی کے درمیان اس مسئلے پر طویل بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ دونوں اپنے گناہوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلیلیں پیش کرتی ہیں ۔ بیٹی، ماں کے پارٹیوں کے نام پر رات بھر غائب رہنے اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اُسے الگ فلیٹ دلانے کو ایک سازش قرار دیتی ہے۔ وہیں ماں بھی بیٹی کو اس کے کالے کارناموں کی یاد دلاتی ہے، کہ کیسے وہ اپنی سہیلی کے ساتھ تسکینِ نفس کا سامان تلاش کرتی رہتی ہے۔

یہاں قاری کے دل میں ا ن دونوں سے نفرت کے ساتھ ساتھ ہم دردی کا گوشہ بھی اُبھرتا ہے۔ کیوں کہ لڑکی کتنی بھی گناہ گار سہی لیکن اس کے دل میں ماں کے پاکیزہ رشتے کی قدر اور اہمیت باقی اور زندہ تھی۔ حالات سدھرنے کے بجائے بگڑ جاتے ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد ماں ، پذا بوائے سے بے روک ٹوک اپنی جسمانی خواہشات کو پورا کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے۔ لیکن ٹنکی اس گناہ کو ہمیشہ ختم کرنا چاہتی ہے۔ وہ پذا بوائے سے شادی کرکے راہ راست پر آنا چاہتی ہے ٹینا، شادی کی بات پذا بوائے سے کہہ دیتی ہے۔ لیکن پذا بوائے پہلے سے ہی شادی شدہ ہے اور وہ رنکی سے شادی کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ ٹیناچاقو کی نوک پر پذا بوائے کو قابو میں کر، پولس کو بلا لیتی ہے۔ پذا بوائے سماج میں بدنامی کے ڈر سے ٹیناکے فلیٹ کی دسویں منزل سے کود کر پیوندِ خاک ہو جاتا ہے اور ٹینا کا شادی کا خواب بھی پذا بوائے کی موت کے ساتھ چکنا چور ہو جاتا ہے۔

 توصیف بریلوی نے اس اس افسانے میں اپنے قلم اور تجربے کے جوہر دکھائے ہیں ۔ انھوں نے بڑی عمدہ فن کاری سے افسانے کا تانا بانا بنا ہے۔ افسانے کا ہر کردار جیتی جاگتی تصویر نظر آتا ہے۔ قاری کو افسانہ پڑھتے ہوئے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا ہوگا۔ کیوں کہ توصیف بریلوی نے افسانے کوجنسیات کی چاشنی میں لپیٹ کر پیش کیا ہے۔ جنس کا موضوع افسانہ نگاروں کے ساتھ ساتھ قاری کا بھی دل چسپ موضوع رہا ہے اور ہے بھی۔ قاری ایسے افسانوں کاپورے انہماک کے ساتھ مطالعہ کرتا ہے۔ اس افسانے میں منظر کشی اتنی دل کش اور پُر فریب ہے کہ قاری اس میں اپنے آپ کو کھویا ہوا محسوس کرتا ہے۔ شہری زندگی کی عکاسی ہمیں اس افسانے میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ افسانے کے مکالمے چست اور چھوٹے ہیں ۔ عورتوں کی نفسیات کی سچی ترجمانی اس افسانے میں بہ خوبی کی گئی ہے۔ اپنے مفاداور عیش و عشرت کے لیے ایک عورت کیسے اپنے خون کے رشتوں کو بھی در کنار کر دیتی ہے۔ سماج کی کھوکلی دیواریں بھی افسانے میں منہدم ہوتی نظر آتی ہیں ۔ افسانہ نگار نے تنہائی کے مسئلہ کو بہ خوبی قاری کے سامنے رکھا ہے۔ افسانہ نگار نے مکمل اسٹڈی کرنے کے بعد ہی افسانہ تخلیق کیا ہے۔ کیوں کہ اگر افسانہ ایک بار شروع کر دیا جائے توایک ہی نشست میں اسے پورا کرنا قاری کے لیے لازمی ہو جاتا ہے۔ قاری اطمنان سے افسانے کا خاتمہ چاہتا ہے۔ افسانے میں کُل چار کردار ہیں ۔ ان چار کرداروں میں پذّابوائے کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ یہ افسانہ، روایتی افسانہ پڑھنے والے قاری کا ذائقہ حامِض کر دے گا۔ ممکن ایسا قاری ناک اور بھوں بھی سیکوڑے۔

 اخبارات اورٹیلی ویژن پر اکثر ایسے موضوعات کی شہ سرخیاں ہم دیکھتے ہیں ۔ ایسے واقعات کو افسانے کے قالب میں ڈھالنا کمالِ فن ہوتا ہے۔ میٹرو پولیٹن شہر اس وبا میں زیادہ مبتلا ہیں ۔ افسانہ نگار ایسے موضوعات کا انتخاب تبھی کرتا ہے جب اُس کے آس پاس خاطر خواہ مواد موجود ہو۔ یا اس طرح کے تجربات سے وہ رو برو ہوا ہو۔ دورِ جدید میں انسان کے زندگی گزارنے کے معنی ہی بدل گئے ہیں ۔ ہر انسان اپنی ہی دُھن میں مست ہے۔ اپارٹمینٹ، فلیٹ یا گھر کے پاس کون رہ رہا ہے، ان باتوں سے اسے کوئی مطلب اور واسطہ نہیں ہوتا۔ جدید آلات نے جہاں انسانی زندگی کو سہولات فراہم کیں وہیں دوسری جانب اُسے تنہائی اور عیش پسندی کا اسیر بھی بنادیا ہے۔ اس بیماری نے کب وبا کی شکل اختیار کر لی ہمیں معلوم ہی نہیں ہوا۔ اس وبا کا اثر Teenagersپر سب سے زیادہ ہوا۔ وہ اپنی کم سنی میں ہی اُن تمام (غیرمہذب اورمعاشرے کے ممنوعہ کاموں )کو جلد سے جلد پوراکر لینا چاہتے ہیں جنھیں کرنے کی سماج اجازت نہیں دیتا۔ انٹرنیٹ نے اُنھیں ان تمام سہولات کو فراہم کرا یا ہے، جن کاموں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ عنفوانِ شباب میں نئی نسل اپنی حدوں کو تجاوز کر رہی ہے۔

توصیف بریلوی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ان تمام حالات کا بہ غور مطایعہ کر، انھیں افسانے کی شکل عطا کی۔ آنے والے وقت میں ہم ان سے ایسے ہی موضوعات پر اورکھل کر لکھنے کی اُمید کرتے ہیں ۔ ویسے توصیف بریلوی نے اپنا قاری اور نقاد خود پیدا کر لیا ہے۔ یہ ان کے لیے خوش آئین بات ہے۔ اس افسانے کو پڑھ کر ہماری تیز رفتار زندگی میں بریک لگ جائیے تو بہتر ہے۔ یہی افسانے کی کامیابی کی ضمانت ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔