مرزا اسداللہ خان غالب اور احمد علی برقی اعظمی

مرزا اسد اللہ خان غالب

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

جذبہِ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینہِ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

بس کہ ہوں غالبؔ، اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

احمد علی برقی اعظمی

کیوں کریں شکوہ کسی سے اپنی ہم تقدیر کا
صاف جب اپنے لئے ہے راستہ تدبیر کا

اب بھروسہ اُٹھ گیا ہے عدل کی زنجیر کا
کیوں بناتے ہیں ہدف وہ مجھ کو ہی تعزیر کا

شیریں و فرہاد کا قصہ پرانا ہوگیا
ذکر پھر بھی آج تک باقی ہے جوئے شیر کا

ایسے عاشق عہدِ حاضر میں ملیں گے خال خال
عاشقِ شیدا تھا رانجھا جس طرح سے ہیر کا

دیکھ کر جس کو بظاہر دے رہے ہیں داد سب
دوسرا رُخ میں سمجھتا ہوں اسے تصویر کا

مِٹ گئے دنیا سے جانے کتنے ہی فرعونِ وقت
وہ سمجھ جائے گا مطلب آہ کی تاثیر کا

رخ ہوا کا ایک یہ جانب نہیں رہتا سدا
مڑ نہ جائے اس کی جانب یہ نشانہ تیر کا

میرؔ کا سوزِ دروں غالبؔ کا حسنِ فکر و فن
نام ہے اردو غزل کی خوشنما تفسیر کا

منحصر ہے جس پہ برقی کی کتابِ زندگی
منتظر ہوں میں ابھی اُس خواب کی تعبیر کا

تبصرے بند ہیں۔