چند کلمات اردو کی نو خیز آبادی کی ستائش میں

صفدرامام قادری

اردو کے مرنے ،مٹنے اور زوال آمادگی کی باتیں تو روز ہوتی رہتی ہیں اور نئی نسل کے بارے میں دل آزارانہ خیالات پیش کرنے کی عام طور پر مہم قائم رہتی ہے لیکن مایوسی کے ان اندھیروں میں روشنی کی ایک کرن بہر طور موجود ہے۔
صفدر امام قادری
بزرگان ادب اور علم و ادب کے آفتاب وماہتا ب سے پہلے ہی معذرت کر لیں کیوں کہ آج ان کے دعووں کے خلاف حقائق کے نئے طور کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بتانا مقصود ہے کہ کیسے ہماری زبان کی نو خیز آبادی اپنے روشن مستقبل کے پرچم لہرانے کے لیے تیار ہے لیکن افسوس یہ کہ ان کی کار کردگی پر کسی کو بھروسہ ہی نہیں۔ سب اردو کا ماتم کدہ تیار کیے بیٹھے ہیں اور نئے لکھنے پڑھنے والوں سے مایوس اور نا مراد ہو کر انہیں اور کبھی کبھی ان کے اساتذہ کو، اگر وہ خود نہیں، کوسنے میں اپنا وقت خرچ کرتے ہیں۔
دہلی اردو اکادمی پر جب سے ڈاکٹر ماجد دیوبندی کی حکمرانی قائم ہوئی، بالعموم ملک کے دور دراز کے علاقوں میں یہ مانا گیا کہ اردو اکادمی اپنے بنیادی اغراض و مقاصد سے دور ہو رہی ہے اور اس کی قومی سطح کے کاموںاور ادبی و علمی شناخت پہ حرف آرہا ہے۔تین دہائیوں سے زیادہ مدت تک اردو اکادمی نے اپنی ایک شناخت قائم کی تھی اور اپنے سیمینار ، بہترین مطبوعات اور اپنے مشہور رسائل کی وجہ سے وقار حاصل کیا تھا۔ اس مایوسی میں ان سطور کا لکھنے والا بھی شامل رہا ہے لیکن ایک ادیب دوست سے یہ معلوم ہوا کہ دہلی اردو اکادمی نے تقریبا دس روزہ تعلیمی مقابلے اسکول کے بچوں کے لیے منعقد کیے ہیں۔گذشتہ جمعہ کو غزل سرائی کے مڈل زمرے کے مقابلے مقرر تھے۔ اتفاق یہ رہا کہ مقابلے کے منصفین کی دوستی میں ساڑھے تین گھنٹے تک چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں کی غزل سرائی کے مقابلے کو بہ نفس نفیس دیکھنے کا موقع ملا۔
پچاس سے زیادہ لڑکے اور لڑکیوں نے شرکت کی۔ ایمان کی بات تو یہی ہے کہ تمام بچوں نے جو کلام پیش کیے، انھیں انتخاب، پیش کش اور معیاری ادائیگی کے ترازو سے تولا جائے تو آٹھویں جماعت سے نیچے کے یہ طالب علم ہماری یونیورسٹیوں کے طلبا سے کسی بھی طور پر کم تر نہیں تھے۔ آپ ایک دن کسی قومی اور بین الاقوامی سیمینار میں چلے جائیے اور خاموشی سے دن بھر کی روداد کا تحریری جائزہ لیجیے۔ مجلس صدارت، ناظم ، مقالہ خواں اورسوال پوچھنے والوں کے بولے گئے لفظوں پر غور کریں گے تو روزانہ ایسے سینکڑوں الفاظ مل جائیں گے جن میں تلفظ کا نقص شامل ہوگا اور تذکیر و تانیث سے لے کر ساخت اور نحو کے نہ جانے کتنے مسائل موجود ہوتے ہیں۔ یہ سب کے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ڈگری یافتگان ہوتے ہیں۔
بچوں کی غزل سرائی کے اس انعامی مقابلے میں تلفظ کی سطح پر ایک فی صد سے زیادہ غلطی دیکھنے کو نہیں ملی۔ کانوں کو نا گوار گزرنے والا غلط لفظ صرف ایک ملا جسے کسی نے سزا کی جگہ پر سجا کہہ دیا تھا۔ بے سری آواز بھی پانچ فی صد سے زیادہ نظر نہیں آئی۔ باون یا ترپن بچوں میں سے بیس سے زیادہ بچوں نے غالب کی غزلوں کا انتخاب کیا۔ کہنا چاہئے کہ غالب کی دلی میں اب بھی ان سے محبت کرنے والے بھرے پڑے ہیں لیکن افسوس میر کا ہوا جنہیں کسی نے بھی غزل سرائی کے لیے موزوں نہ سمجھا۔ اقبال اور فیض کے ساتھ شکیل بدایونی کو بھی کئی بچوں نے منتخب کیا۔ ذوق، داغ، مومن، بہادر شاہ ظفر، منیر شکوہ آبادی، ندا فاضلی، قمر جلال آبادی، احمد فراز اور ماجد دیو بندی کے کلام بھی پیش کیے گیے۔ کئی بچوں نے اپنے والد کا کلام بھی پیش کیا۔ ہم عصر شعرا پر کلاسیکی شعرا کی فوقیت کے اسباب علمی حلقے کے لیے قابل توجہ ہونے چاہیے۔
الگ الگ اسکولوں کے بچوں کو تیار کر کے ان کے والدین اور ان کے اساتذہ نے مشقت کر کے انہیں اس مقابلے میں بھیجا ہوگا۔ ابھی ریسرچ اسکولرس کے کئی سیمینار مختلف اداروں اور یونیورسیٹیوں کے منعقد ہوئے جن میں مقالہ جات ایسے ہی طلبا نے پیش کیے جن کے پاس ایم اے کی ڈگری موجود ہے۔ بہت سارے بچے نیٹ اور جے آر ایف بھی ہیں۔ اکثر ملک کی نامی گرامی یونیورسیٹیوں میں زیر تحقیق ہیں لیکن وہاں پچاس فی صد ایسے مقالے پیش کیے گئے جن میں بے علمی ، بے پر وائی اور معیار کے ساتھ کھلواڑ کی رسمیں عام تھیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی اعلان کیا جاتا تھا کہ انہیں ان کے صدر شعبہ ہاے اردو نے منتخب کر کے اس بین الاقوامی یا قومی اجتماع میں بھیجا تھا۔ اسکول کے اور یونیورسیٹیوں کے اساتذہ کے انتخابات یا ان کی تربیت کا موازنہ کریں تو ہم حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔
ساتویں سے نویں جماعت کے ان بچوں نے اپنے تلفظ، ترنم اور شعری لہجہ کو حسب ضرورت تبدیل کرنا، درست ادائیگی، شعر کے مزاج کے اعتبار سے ترنم کو شامل کرنا اور تاثر کو زائل ہونے سے بچانے کی کو شش کرنا ہمارے لیے ایسا ہنر نظر آیا جس پر ان بچوں کے اساتذہ اور سرپرستوں کو داد نہ دینا نا انصافی ہے۔ کسی اچھے مشاعرے میںپیش کش کے اگر چار پانچ اچھے نمونے مل جائیں تو بہت ہے لیکن ہمارے نو خیز بچوں نے ایسا سماں باندھا کہ شاید ہی اس سے بڑھ کر کچھ ہو سکے۔ اس غزل سرائی کے مقابلے کے جج دو نام ور شاعر، ملک زادہ جاویداور ڈاکٹر واحد نظیر بنائے گئے تھے۔ اتنے مشہور اور شعر گوئی میں مستحکم افرادنے ان بچوں کو سنجیدگی سے سنتے ہوئے جن نتائج کو پیش کیا، اس سے مجمع میں اطمینان ہی تھا۔
اس غزل سرائی کے مقابلے میں اپنے اپنے حصے کی تربیت پا کر، بچوں نے جو کچھ پیش کیا، اسے ذرا اور توجہ سے دیکھنا چاہیے۔ اپنی بہترین ادائیگی کی وجہ سے ان نو خیز بچوں نے جن مصرعوں یا اشعار کو کچھ ایسے دل لگا کر پڑھا جیسے غزل سنتے ہوئے ہم کہہ سکیں : تیری آواز نظر آتی ہے۔ پتہ نہیں یہ بچے ان شعروں یا مصرعوں کی تہ دار معنوی دنیا سے واقف ہیں یا نہیں، چار دن کے بچے زندگی کو کیا جانیں گے لیکن انہوں نے پرسوز لہجے میںان مصرعوں یا اشعار کو کچھ ایسے پڑھا کہ محفل کی کیفیت ہی بدل گئی تھی۔پہلے غالب کے اشعار سنیے؛
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
ہاں وہ نہیں خدا پرست، جائو وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں
غالب کے ان اشعار کی سچی کیفیات ان بچوں نے اپنی پیش کش میں اجاگر کر دی تھیں۔احمد فراز، مومن اور شکیل بدایونی کی غزلوں کو بھی خوب خوب پڑھنے والے ملے۔ شکیل بدایونی کی غزل ’’کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں‘‘ کو جس بچے نے پڑھا اور مصرعے کے آخری حصے کو جس مخصوص ترنم سے ادا کیا؛ یہ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ سادہ سے، معمولی شکل وشباہت کے ایک طالب علم کے حلق میں کہاں سے ماہر موسیقار اتر آیا ہے! شعر پڑھنے کے دوران جس قرار واقعی کا ثبوت طلبا نے دیا، وہ حیرت انگیز تھا۔
ہر سال غالب انسٹی ٹیوٹ میں قومی کونسل براے فروغ اردو زبان کی مالی معاونت سے ہندستان بھر کے ریسرچ اسکولروں کا سیمینار ہوتا ہے۔ کہتے ہیں دس بیس لاکھ روپے اس میں خرچ ہوتے ہیں۔ بعض نئی عمر کے طالب علم خوب اچھا بھی کرتے ہیں لیکن اکثر اوسط سے اوپر نظر نہیں آتے۔ اتنے اخراجات کے باوجودا س کی قومی یا بین الاقوامی حیثیت معیار کے اعتبار سے حاصل نہیں ہو پاتی۔ لیکن یہ سچ ہے کہ اسی بہانے پچاس ساٹھ بچوں کی سو دو سو کے مجمعے کے سامنے بولنے کی مشق ہو جاتی ہے۔ لیکن اتنے بھر نتیجے کے لیے قوم کی اس قدر رقم کا خرچ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ قومی کونسل یا ہندستان بھر کی اردو اکادمیاںکروڑوں کی رقم ان کاموں پر لگاتے رہتی ہے جن کا سیدھا علمی مصرف سمجھ میں نہیں آتا۔ہاں،یونیورسٹی کے کچھ مشہور تنخواہ داروں کی جیب میں کچھ رقم کا اضافہ ضرور ہوتا ہے۔
دلی اردو اکادمی نے شعرو ادب کی بنیادی صلاحیتوں کو صیقل کرنے کے لیے جن مقابلہ جاتی پروگراموں کا انعقاد کیا ہے، اسے ہندستان کی ہر اردو اکادمی کو اپنی مستقل سرگرمیوں کا حصہ بنانا چاہیے۔ ہر سال پیٹ بھرے ہوے ادیبوں اور شاعروں کو لاکھوں کے انعامات دیے جاتے ہیں، ان میں بار بار رقم کا اضافہ ہوتا ہے۔کاش اسکول اور یونیورسٹی کے بچوں کے مقابلوں میں کوئی ادارہ پچاس ہزار اور ایک لاکھ کا انعام دیتا! پتیوں پر چھڑکاو سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اپنی جڑوں کی آبیاری کرنی چاہیے۔ طلبا کو آنے والے وقت کے تقاضوں کے مطابق اگر تیار نہ کیا جائے اور اردو کے نام کی رقم صرف بزرگوں میں وظیفے کے طور پر تقسیم ہو جائے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اردو کی طرف نئی نسل کی توجہ بڑھانے کے لیے، ہمیں ہزار طرح کے نئے نئے کاموں کو کرنا پڑے گا۔ اردو کے بڑے ادارے، خاص طور پر یونیورسٹیوں کے شعبہ ہاے اردو، اردو اکادمی اور اردو دنیا کے سب سے بڑے ادارے قومی اردو کونسل کا یہ سچا فریضہ ہے کہ وہ اپنے بجٹ کا دو تہائی حصہ اسکول سے یونیورسٹی سطح کے طلبا کی ضرورت کے کاموں میں صرف کریں اور اساتذہ اکرام کی جیبیں بھرنے اور ڈنر کر نے کرانے کے شوق فضول کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا ارادہ کریں۔ اس کے بغیر اردو کی سوکھتی ہوئی جڑوں کو شاید ہی ترہ تازہ کیا جا سکے۔

تبصرے بند ہیں۔