اردوغان ہمارا ہیرو نہیں لیکن اس کی وجہ سے ہم ہیرو ضرور ہیں !

ترکی کے صدر اردوغان کو امت نے کبھی آئیڈیل کے طور پر پیش نہیں کیا اور ان کے مختلف فیصلوں پر مخالفتیں بھی ہوئی لیکن چونکہ امت کا اسلام پسند طبقہ اس وقت پوری دنیا میں حتی کہ مسلم اکثریتی ممالک میں اتنے مظالم کا سامنا کررہا ہے کہ مدد کا ایک کمزور ہاتھ بھی اس کے لیے بہت بڑی نعمت محسوس ہوتا ہے۔ پوری عرب دنیا جب اسلام پسند تحریکات کے لیے تنگ پڑ گئی اور بڑے بڑے علماء دین جیلوں میں بچی ماندہ زندگی کاٹنے لگے۔ کتابوں کی اشاعت پر پابندیاں عائد ہو گئیں۔ اسلامی حکومت کا نام لینا بڑا جرم قرار پایا جانے لگا اور یہ سلسلہ عرب سے آگے بڑھ کر شمالی افریقہ میں بھی پھیل گیا اور مصر میں اخوان پر مظالم کو دنیا نے دن کے اجالوں میں دیکھا۔ ایسے حالات میں اگر اسلام پسندوں کو کسی نے پناہ دی تو وہ قابل تعریف تو ہے ہی۔

مصر میں مرسی کی حکومت کا تختہ پلٹ جانے کے بعد اخوان پر ہونے والے مظالم پر بین الاقوامی پلیٹ فارمس پر اگر کسی نے آواز اٹھائی تو وہ قابل تعریف تو ہے ہی۔
غزہ میں اسرائیل کی بمباری کے خلاف اگر کسی نے احتجاج کیا اور مختلف ذرائع سے ان کو مالی مدد پہنچائی اور حماس کے ترجمانوں کو عالمی میڈیا میں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کروایا اور اسرائیل کی بمباری میں زخمی ہونے والے غزہ کے لوگوں کے علاج کا انتظام اگر کسی نے کیا تو وہ تعریف کے قابل تو ہے ہی۔
شام میں اسلام پسند گروہوں کی بشار کے خلاف جہاد میں اگر کسی نے پشت پناہی کی، انہیں جنگی وسائل پہنچائے، زخمی مجاہدین کے علاج کا انتظام کیا، رفاہی دستے ملک میں بھیجے، ان کے علاقوں پر بمباری کررہے روسی جنگی جہاز کو مار گرایا۔ روس سے چل رہے مضبوط معاشی تعلقات کو مجاہدین کے دفاع میں ایک پل میں کنارے لگا دیا، مجاہدین شام کے دفاع میں روس تو روس امریکہ کو خیرآباد کہہ دیا اور جب پوری دنیا نے شام کی عوام کے لیے اپنی سرحدیں بند کرلیں اس وقت لاتعداد مہاجرین کو سہارا دیا وہ بھی ان حالات میں کہ علیحدگی پسند کرد آے دن ملک کے دفاعی نظام کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ شام کی اسلام پسند تنظیموں کو دہشت گرد قرار دینے کی عالمی کوششوں کا جم کر اگر کسی نے سامنا کیا ہے اور کررہا ہے تو وہ تعریف کے قابل تو ہے ہی۔
ریڈ کارنر نوٹس مل جانے کے بعد بھی علامہ یوسف القرضاوی صاحب کو عالمی سطح کی کانفرنس کروانے اور تمام تحریکی سرگرمیاں کرنے کے لیے پلیٹ فارم اگر کوئی مہیا کرتا ہے تو تعریف کے قابل تو ہے ہی۔
اور ان جیسی نہ جانے کتنی اعلی سطحی امداد اسلام پسند تحریکات کو اردوغان کے ذریعہ پہنچ رہی ہیں جن کا انکار کوئی نہیں کر سکتا۔
اب بات اس طرف آتی ہے کہ اور کیا کیا کرنا چاہئیے تھا یا کرسکتا ہے؛ تو ظاہر ہے ترکی ایک جمہوری ملک ہے اور اسلام پسند تحریکات کی طرف اردوغان کے جھکاؤ کے خلاف خود ملک میں احتجاجات ہوتے رہتے ہیں اور اسے اسلام پسند کہہ کر کمزور کرنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ ظاہر ہے ملک کے داخلی و خارجی سیاسی حالات اور ملک کی دفاعی طاقت کے ساتھ ساتھ اردوغان کو اپنا سیاسی استحکام بھی دیکھنا ہوگا ورنہ ترکی نے اپنی نئی تاریخ بھی دھرادی تو مسجدوں میں داڑھیاں رکھی ملیں گی۔
اب رہی بات اسلامی نظام کو قائم کرنے کی تو ترکی کوئی بادشاہت نہیں کہ جب چاہا اسے خلافت میں تبدیل کردیا اور نہ ہی خلافت ہے کہ جب چاہا بادشاہت میں تبدیل کردیا۔ یہ ایک جمہوری ملک ہے اور کوئی بھی بڑا کام رائے عامہ ہموار کرنے کے بعد ہی ہوتا ہے اور رائے عامہ ہموار کرنے کی دشواریاں کم از کم ہندو پاک کے مسلمانوں سے پوشیدہ نہیں۔
ناٹو میں ترکی کی شمولیت کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں؛ روسی اگریشن سے اپنا دفاع، خطے کی سیاست میں اپنا استحکام، دوسرے مغربی ممالک کے سامنے اپنی مضبوطی، وغیرہ۔
مزید یہ کہ اسلامی نقطہ نظر سے ترکی کے موجودہ حالات کچھ عرصہ قبل کے حالات سے بہت بہتر ہو چکے ہیں اور مزید بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ اب ظاہر ہے اس طرح کے سماج میں بڑی تبدیلیاں لانے کے لیے وقت اور طاقت درکار ہے۔ اور شاید اسی لیے اردوغان ترکی کو پارلیمانی جمہوریت سے بدل کر صدارتی جمہوریت بنانا چاہتے ہیں جس کی مخالفت خود ملک کے اندر بہت زیادہ ہے اور انہیں بار بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
تبصرے کرنا اچھی بات ہے لیکن اس سے قبل اس خطے کی سیاسی ، معاشی، سماجی ، دفاعی صورتحال کو سمجھنا ضروری ہے۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ غزہ اور مصر کا بارڈر جب کھلتا ہے تو غزہ کے لوگ عموماً ترکی کا رخ کرتے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ شام کے مجاہدین ہمیشہ صرف ترکی کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ حماس اردوغان کی تعریف کرتے رہتے ہیں؟ شام کی بکھری ہوئی طاقتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر جیش الفتح کی تشکیل دے کر بشار کی نیند کس نے اڑا دی؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔