اسلام آباد ہائی کورٹ کا ویلنٹائن پر فیصلہ: ایک  جائزہ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک لینڈمارک یعنی تاریخی فیصلہ دیا ھے جس کا اطلاق پورے ملک میں ہوگا۔ فیصلے کے مطابق پاکستان بھر میں ویلنٹائن ڈے منانے پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ھے۔ انٹرنیٹ اور میڈیا پر ہر قسم کے اشتہارات بند کردیئے گئے ہیں، بازاروں میں ایسی تمام پراڈکٹس کی خرید و فروخت پر بھی پابندی لگا دی جن سے ویلنٹائن ڈے کی کسی قسم کی نسبت پائی جاتی ہو۔

میں ذاتی طور پر ویلنٹائن ڈے کے سخت خلاف ھوں. لیکن سوال یہ ہیکہ جج یا عدالت نے کھبی نابالغ اور بالغ لڑکیوں کی خرید و فروخت اور سرمایہ داروں و زمینداروں کے بستر گرم کرنے کیلئے سپلائی مارکیٹ ‘ہیرہ منڈی’ کے خلاف فیصلہ کیوں نہیں دیا؟؟ کیا ہیرہ منڈی شرعی ہیں؟ کوئی جواب…

کیا صرف اس لئے کیونکہ ہیرا منڈی کسی مغربی ملک، ہندوستان یا یہود و نصاری نے نہیں بنائی، اس لئے وہاں کیا جانے والا عمل قابل قبول بلکہ عملا جائز ہے۔البتہ ہیرا منڈی کے مقابلہ ویلنٹائن ڈے جیسی معمولی قسم کی چیز چونکہ مغربی معاشرہ کی شروع کردہ ہے اس لئے ساری غلاظت اور کیڑے اسی میں ہیں اور یہ حرام ہے۔

ہمارے یہاں مستقل قومی عصبیت اور مستقل قومی تصادم کی منفی فضا کیوجہ سے صحیح-غلط اور اچھائی-برائی کا پیمانہ ہی یہی ہیکہ جو کوئی مسلمان کرے، مسلمان شروع کرے یا اپنائے وہ صحیح ہے. اور جو یہود و نصاری یا ہندو کریں یا شروع کریں یا اپنائیں وہ غلط ہے اور برائی ہے۔ یعنی کسی بھی عمل اور روش کے صحیح یا غلط ہونے کی بنیاد اس پر ہے کو وہ کون کررہا ہے.

یہی اسوقت دیکھنے میں آیا جب پاکستانی ایکٹریس وینا ملک نے انڈیا کے کامیڈی شو "بگ باس” میں شرکت  کی اور دیگر فی-میلز کے ساتھ شارٹ ڈریس پہنی۔ چنانچہ وینا ملک شو سے جیسے ہی پاکستان واپس ہوئیں پورے پاکستان میں ہنگامہ ہوگیا، سارے اخبارات اور چینلز پر مختلف مذہبی و عصری دانشوران کی ایک ہی آواز تھی "وینا ملک فاحشہ ہے، بے غیرت ہے، وینا ملک نے اسلام کا مذاق اڑایا، وینا ملک نے اسلام اور پاکستانیت کو داغدار کیا، وینا ملک اسلام کے نام پر دھبہ ہے۔۔۔”۔ واضح ہو کہ یہ وہی وینا ملک ہے جس نے اس سے پہلے مکمل برہنگی کی حالت میں اپنے بائیں بازو پر ISI لکھکر لیفٹ سائیڈ تصاویر کھنچوائی تھیں جو متعدد جریدوں اور سائٹس پر کئی مرتبہ شائع ہوچکی تھیں۔ اسی طرح وینا ملک نے اس بھی زیادہ شارٹس پہنکر خود پاکستان میں مختلف سیریلز کئے تھے۔ لیکن اسوقت کسی مذہبی اسکالر، دانشور، صحافی اور ٹی وی چینل یا اخبار نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ لیکن اس کے مقابلہ نسبتاً کہیں زیادہ بڑے ڈریس میں اسی وینا ملک نے جب انڈیا آکر بگ باس میں شرکت کی تو یہ گندہ، حرام اور اسلام اور پاکستان کی ناک کٹوانے اور بے عزت کرانے والا عمل ہوگیا۔

آخر ایسا کیوں؟

کیا صرف اس لئے کیونکہ یہ کام وینا ملک نے ایک غیر مسلم ہندو معاشرہ میں شروع کردہ سیریل میں کیا۔ اور ہمارا یہی پیمانہ ہے صحیح اور غلط کا۔(واضح ہو کہ یہاں وینا ملک یا اس کے اس عمل کے تائید ہرگز مقصود نہیں)-

دراصل یہی ذہنی دیوالیہ پن ہوتا ہے اس وقت جب کوئی معاشرہ اور امت نظریہ و اصول سے آزاد ہوکر ایک قوم بن جاتی ہے اور علاقائی شناخت اختیار کرلیتی ہے اور نتیجتا دیگر انسانی معاشروں اور اقوام کیساتھ ہمہ وقت قومی تصادم کیساتھ زندگی گزارتی ہے اور یکچشم (one-eyed) ہوجاتی ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا پاکستان کا تشخص ایک ویلنٹائن ڈے کی وجہ سے خطرے میں پڑجاتا ھے؟ آج سے 20 سال پہلے جب ویلنٹائن ڈے جیسی ‘خرافات’ پاکستان میں نہیں آئی تھیں، کیا اس وقت سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا؟

ان عدالتوں ہی کی حالت دیکھ لیں۔ پانامہ کیس کو شروع ہوئے 14 ہفتے ہوچکے اور ابھی تک یہی جج ثبوتوں پر پکوڑے رکھ کر کھا رہے ہیں۔ اس دوران سابق چیف جسٹس نے 3 ہفتے عدالت کو سردیوں کی چھٹیوں پر بھیج دیا، پھر نیا بنچ تشکیل دیا گیا، پھر ایک جج کو دل کا عارضہ ہوگیا اور 15 دن سے عدالتی کاروائی رکی رہی۔ یہ کیس پاکستانی عوام کے اربوں روپے لوٹنے کا کیس تھا اور ججوں کی دلچسپی کا عالم یہ کہ ساری دنیا میں جس خبر پر حکمرانوں کو گھر جانا پڑا، اس خبر کو ججوں نے سنے بغیر ہی رد کردیا۔ اربوں روپئے کے کرپشن میں ملوث حکمرانوں کے کیس میں کسی فیصلہ کے بغیر ہی 14 ہفتے ضائع کرنے والی عدلیہ کو 14 فروری لیکن کھٹک گئی۔

دودھ میں ملاوٹ کی ہوش ربا تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہوئی اور جج خاموش انگلیاں مروڑتے رھے کیونکہ ٹیٹرا پیک، نیسلے اور حمزے کی کمپنیوں نے کروڑوں روپے کے تحائف دے دئے تھے۔

پاکستان کی سڑکوں پر بم دھماکے ہورہے ہیں، 95 فیصد پاکستانی خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور ملاوٹ زدہ کھانا کھانے پر مجبور ہیں، 80 فیصد آبادی کو صاف پینے کے پانی کی سہولت میسر نہیں، جہاں جانور بھی تربیت حاصل نہ کریں، ایسے سرکاری تعلیمی اداروں میں عوام اپنے بچے پڑھانے پر مجبور ہیں۔

ایسے ملک کے جج کو نظر آیا بھی تو ایک ویلنٹائن ڈے۔ قومیت کے اسیر اور ہزار سال سے مستقل قومی تصادم کی فضا میں رہنے والے دانشور اور جج بھی یکچشم ہی ہوجاتے ہیں۔ چناچہ دیگر اقوام و معاشروں کی اصولی تائید اور انکے ساتھ اصولی اختلاف کے بجائے قومی بنیادوں پر مخالفت کیوجہ سے ہی ان معاشروں کے معمولی اعمال بھی خطرناک اور جارحانہ برائی تصور کئے جاتے ہیں اور قوم و معاشرہ کی ساری توانائیاں ایک مستقل منفی متصادم ماحول بنائے رکھنے پر صرف کیجاتی ہیں جبکہ خود اپنے اندر موجود مستقل بھیانک خرابیوں اور مہلک اجتماعی برائیوں سے کلی صرف نظر کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔

اگر ہم لوگوں کی ترجیحات قومیت اور قومی عصبیانہ اور مستقل قومی تصادمانہ روش سے آزاد نہ ہوئیں تو ہماری حالت اس سے بھی بدتر (اسفل سافلین) ہی ہوتی جائے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔