تبصرہ: ‘واہمہ وجود کا’ – راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں

مبصر: عرفان وحید

ایک عرصے سے کہا جارہا ہے کہ قدامتیں رخصت ہورہی ہیں، اور نئے زمانے میں فرسودہ روایتیں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ لیکن فی زمانہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کاریگرانِ شعر کا ایک انبوہِ عظیم حرف و صوت کا ایک بے ہنگم شور مچانے میں اپنی توانائیاں صرف کررہا ہے۔ ان کے نزدیک شاعری محض اوزان کی  ہم آہنگی اور قافیہ پیمائی کا نام ہے۔ ایسے وقت میں نئی نسل کے کچھ شاعروں نے اس جمود کو قائم رکھنے سے انکار کردیا۔ اسی قافلے میں ایک نمایاں نام سالم سلیم کا بھی ہے۔  سالم کی شاعری پڑھیے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ہجوم میں یہ نوجوان اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہے۔ اس نے لیک سے ہٹ کر اپنا ایک الگ راستہ منتخب کیا ہےاور وہ اردو شاعری کو نئے،  حیرت انگیز اور توانا استعارات کی دنیا سے روشناس کروارہا ہے۔ اس کے انوکھے شعری تلازمے، اس کی لفظیات، معانی کی دنیا اس شاعری سے بالکل مختلف ہے جس سے اردو کا عام قاری اب تک روشناس تھا۔ میرے اس دعوے کی دلیل وہ اشعار ہیں جو میں نے اس تبصرے کے آخر میں نقل کیے ہیں۔

شمس الرحمان فاروقی نے کہیں لکھا ہے کہ ’’اچھے شاعر کی خوبی یہ نہیں ہے کہ ہم اس کے کارنامے کو چند لفظوں میں بیان کرسکیں ۔ اچھے شاعر کی خوبی یہ ہے کہ وہ آپ سے تقاضا کرے کہ آپ اسے بھرپور پڑھیں ، اس کے نشیب و فراز سے گزریں ، اس کی گہرائیوں میں اتریں اور پھر دیکھیں کہ اس دریا میں کتنے اور کتنی طرح کے موتی ہیں۔‘‘ سالم بھی ایسے ہی ایک شاعر ہیں جن کی شاعری ایک مجلس اور ایک قرأت کا نہیں بلکہ متعدد قرأتوں کا تقاضا کرتی ہے۔ سالم کی خوبی یہ ہے کہ اس نے اپنی شاعری میں معنی کی دنیا آباد کرنے کے لیے بھاری بھرکم الفاظ اور گنجلک ترکیبوں کا سہارا نہیں لیا ہے بلکہ بہت سیدھی سادی زبان و بیان کے ذریعے وہ اپنی بات کہتا ہے۔ لیکن اس کے شعروں میں مخفی معنی کی پرتیں  آہستہ آہستہ کھلتی ہیں اور قاری کو عجیب سرشاری دے جاتی ہیں۔ یہی سالم کا امتیاز ہے۔ 

سالم نے اپنا فلسفہ شعری ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’شاعری میرے لیے لفظ کی رفاقت میں اپنا استعارہ تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ ساری کائنات استعارات کے ایک باہم مربوط سلسلے سے عبارت ہے۔ سو شاعری کو بھی مادی کائنات میں سے آدمی برآمد کرنے کا استعاراتی عمل کہا جاسکتا ہے۔ ‘‘

سالم کی شاعری خود کلامی کی شاعری ہے، احساسِ ذات اور اندروں کی جستجو نے انھیں ایک میٹھا اور دھیما لہجہ عطا کیا ہے۔ اپنی شاعری کے سلسلے میں خود رقم طراز ہیں:

’’اپنا آپ تلاش کرنے کی خواہش جب شدت اختیار کرلیتی ہے تو حرف لفظوں میں اور لفظ مصرعوں میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔‘‘

ایسے تجربے کے لیے داخل کی ہنگامہ پرور دنیا اتنی شور انگیز ہوتی ہے کہ خارج کی آوازوں سے بے نیاز ہوجاتی ہے۔ شاعر ذات اور وجود کے مطالعے میں ایک بسیط کائنات کو رقصاں پاتا ہے اور اسی کے وقوعے اس کے لیے تخلیقی توانائی مہیا کرتے ہیں۔ سالم کہتے ہیں:

’’کوئی بھی تخلیقی واقعہ آج تک میرے لیے تخلیقی محرک نہ بن سکا، میں تو وقوعے کی داخلیت پر اپنی پونجی صرف کرتا ہوں اور واقعہ میرے اندر سے پھوٹنےلگتا ہے۔‘‘

وہ مزید لکھتے ہیں:

’’یہ غزلیں شاید میں نے نہیں کہی ہیں۔ بلکہ میرے لہو میں کوئی سرگرم ہے جو میرے مصرعوں کو آہنگ اور موزونہت دیتا ہے۔ لہو میں رواں اس شے کو آپ سالم بھی سمجھ سکتے ہیں اور سلیم بھی۔ یہ شاعری انھیں دونوں کی پیکار طلبی اور اذیت کوشی کا نتیجہ ہے۔‘‘

’’واہمہ وجود کا‘‘ سالم کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو صرف غزلوں پر مشتمل ہے۔ کتاب دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ دورِ حاضر کے اردو ادب کے سب سے بڑے محسن ادارے ’’ریختہ فاؤنڈیشن‘‘ نے شائع کی ہے۔ کل صفحات  126 ہیں اور ان میں  موجود غزلوں کی کل تعداد 94 ہے۔ کتاب کی قیمت دو سو روپے ہے اور حسب ذیل لنک سے آن لائن آرڈر کی جاسکتی ہے:

واہمہ وجود کا، سالم سلیم

ہرچند کہ ان 94 غزلوں میں وہ غزلیں بھی شامل ہیں جن میں صرف تین یا چار اشعار ہیں اور جنھیں غزل کہنا مناسب نہیں معلوم ہوتا، اس لیے کہ غزل میں اشعار کی تعداد عام طور پر کم از کم پانچ ہوتی ہے: مطلع اور مقطع، جنھیں یوں بھی شعر میں نہیں گنا جاتا، اور تین مزید اشعار۔ غالب نے بھی اپنے دیوان میں تین یا چار اشعار پر مشتمل کلام کو متفرقات میں رکھا ہے، بہتر ہوتا کہ سالم بھی ایسا ہی کرتے، جیسا کہ انھوں نے کتاب کے آخر میں بعض مفرد اشعار کو رکھا ہے۔ لیکن پھر بھی، ایسی غزلوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سالم نے اپنے اس مجموعے پر کڑی ادارتی نظر سے نظر ثانی کی ہے اور معیار کی اتنی سختی سے پابندی کی ہے کہ اپنے اونچے معیار سے کم تر نظر آنے والے ہر شعر کو اس مجموعے سے دور رکھا ہے، شاید یہی وجہ کہ بعض غزلوں میں اشعار کی تعداد مروجہ تعداد سے کم پڑ گئی۔ لیکن اس سے مجموعے کا معیار بھی دوچند ہوگیا۔

اب آئیے دیکھتے چلیں زیر نظر مجموعے سے چند منتخب اشعار۔ سالم کو پڑھیے تو ہر غزل شاہکار نظر آتی ہے۔ اس صورت میں اشعار کا انتخاب کرنا ایک مشکل کام ہے۔ ہمواریٔ کلام کا یہ عالم ہے کہ آپ سالم کا مجموعہ دائیں سے بائیں پڑھتے چلے جائیں، یا بائیں سے دائیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہر صفحے پر طلسم معانی کی ایک حسین دنیا نظر آتی ہے۔

 ذیل میں نقل کیے گئے اشعار محض نمونہ ہیں، اور شاعر کی خلاقی اور فطانت کا ثبوت بھی، ورنہ ایسے جواہر ریزے ان کے پورے مجموعے میں بکھرے پڑے ہیں۔

وہ ہاتھ دیتے ہیں ترتیب میرے اجزا کو
پھر اس کے بعد مجھے رائیگاں بناتے ہیں

جز ہمارے کون آخر دیکھتا اس کام کو
روح کے اندر کوئی کارِ بدن ہوتا ہوا

کیا ہوگیا کہ بیٹھ گئی خاک بھی مری
کیا بات ہے کہ اپنے ہی اوپر کھڑا ہوں میں

اک ہاتھ میں ہے آئنۂ ذات و کائنات
اک ہاتھ میں لیے ہوئے پتھر کھڑا ہوں میں

یہ تم نہیں کوئی دھند ہے سرابوں کی
یہ ہم نہیں ہیں کوئی واہمہ وجود کا ہے

یہ میری خامشی بھی لے جائے گی کہاں تک
میں آج صرف اس کی آواز تک رہا تھا

ابھی تک چیخ وہ نکلی نہیں کیا
حویلی میں تو دروازے بہت تھے

میں گھٹتا جارہا ہوں اپنے اندر
تمھیں اتنا زیادہ کر لیا ہے

کون ہے یہ جو مجھے گھورتا رہتا ہے بہت
دیکھتا رہتا ہوں آئینے کو حیرانی سے

ہمارے پاؤں سے کوئی زمیں لپٹی ہوئی ہے
ہمارے سر پہ کوئی آسماں پھیلا ہوا ہے

حصار ذات سے کوئی مجھے بھی تو چھڑائے
مکاں میں قید مجھ میں لامکاں پھیلا ہوا ہے

کارِبیکاری میں ہیں مصروف زور و شور سے
اب کہاں فرصت ہمیں آرام کرنے کے لیے

سالم سلیم کے مزید اشعار پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔ 

کتاب واہمہ وجود کا حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

ریختہ پر سالم کی غزلیں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

تبصرے بند ہیں۔