مجلس فخر بحرین برائے فروغِ اردو کے زیر اہتمام طرحی نشست کا انعقاد

فیضی اعظمی

وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے

ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے

اردو زبان جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی زبان ہے جو لمحوں میں آپ کو اپنا گرویدہ بنا لے، ایک ایسی زبان جو خوبصورت تعبیروں کا ایک خزینہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جسکی نشرواشاعت اور فروغ میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہیں، جس نے بہت کم عرصے میں اپنے آپ کو معیاری عالمی زبانوں کی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ آج پوری دنیا میں اردو پر کام ہو رہا ہے، یقینا آپ کو یہ جان کر حیرت بھی ہوگی اور خوشی بھی کہ چین اور جاپان میں بھی اردو پر کام ہو رہا ہے،  وہاں کے شعراء کو ہندوستان سمیت دوسرے ملکوں کے مشاعروں میں مدعو کیا جاتا ہے اور یوں ان کی تحسین کی جاتی ہے۔ یقینا یہ اردو کی ترویج میں ایک مثبت قدم ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ اردو داں طبقہ اردو کے حوالے سے پوری طرح فعال اور متحرک ہے آپ کو یاد ہوگا اردو زبان ایک وقت میں ہندوستان سے پاکستان تک محدود تھی مگر آج قطعی طور پر اردو زبان پوری دنیا میں مقبول ہے، اردو داں طبقہ خلیج عرب سے لے کر مغربی ملکوں تک متحرک ہے اور مختلف تنظیموں کے ذریعہ وقتاً فوقتاً مشاعروں اور نشستوں کی بازگشت سنائی پڑتی ہے اور اپنے پیچھے بار آور مستقبل کی خوشبو چھوڑ جاتی ہے۔

خلیجِ عرب میں واقع بحرین نے جس طرح اردو زبان کے لیے اپنی زمین کو ہموار کیا وہ اپنے آپ میں مثال ہے یہاں ہر دل عزیز تنظیم ’’مجلس فخرِ بحرین برائے فروغ اردو زبان‘‘ نے پچھلے پانچ سالوں میں اردو کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں اور اپنی خدمات کا دائرہ وسیع تر کرتے ہوئے تنظیم نے بہت سی مثبت پیش رفت بھی کی ہے۔ پچھلے پانچ برسوں سے یہ مجلس اردو زبان کے کسی اہم شاعر کو منتخب کر کے اپنا ایک سال اس شاعر کے نام معنون کرتی ہے۔ جس کے تحت سال میں کچھ طرحی نشستیں ہوتیں اور اخیر میں ایک عالمی مشاعرہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے کسی ایک شہر میں سیمینار کا انعقاد، کتابوں کی اشاعت وغیرہ کا کام بھی ہوتا۔ مجلس کے یہ سارے سلسلے آئندہ بھی جاری رہیں گے۔ ہاں مگر مجلس نے اردو زبان کے فروغ کے لیے چند بہت اہم فیصلے کیے ہیں۔ اب مجلس ہر سال اردو زبان میں امتیازی نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ کو خصوصی انعامات سے نوازے گی ساتھ ہی ساتھ بحرین کے ہر اسکول میں یکے بعد دیگرے کوئز مقابلہ، بچوں کا مشاعرہ، بیت بازی اور مضمون نویسی مجلس کی نئی ترجیحات میں شامل ہیں۔

مجلس فخرِ بحرین کے بانی جناب شکیل احمد صبرحدی صاحب کی فکر اور سنجیدگی نے مجلس کو عالمی پیمانے پر مقبولیت بخشی اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جڑنے کا موقع فراہم کیا۔ مجلس اب تک شہریارؔ، فراقؔ گورکھپوری، آنند نرائن ملاؔ،خلیل الرحمن اعظمیؔ سے منسوب نشستوں اور مشاعروں کا اہتمام کر چکی۔ اس سال مجلس نے اردو کے بہت اہم شاعر پنڈت برج نرائنؔ چکبست کو منتخب کیا ہے اور ان کے نام تین نشستوں کا اہتمام بھی ہوچکا، مجلس کی تیسری اور آخری طرحی نشست گزشتہ شب منعقد ہوئی جس میں بحرین کے تمام محبان اردو نے شرکت کی۔ ہمیں آپ کو یہ بتاتے ہوئے بہت فخر محسوس ہو رہا ہے کہ مجلس کی یہ نشست نہ صرف کامیاب نشست ٹھہری بلکہ کئی معنوں میں ممتاز بھی رہی، خاص اس لیے بھی تھی کہ اس بار پوری محفل فیس بک پر لائیو نشر کی گئی جسے کئی ممالک میں نہ صرف اردو کے متوالوں نے دیکھا بلکہ بھر پور داد و تحسین بھی پیش کی، باقاعدہ نشست کا آغاز محترم خرم عباسی صاحب کے تمہیدی خطبے سے ہوا، انہوں نے چند منٹوں میں مجلس کی خدمات اور اس کے اہداف کے ساتھ ساتھ بانیٔ مجلس جناب شکیل احمد صبرحدی صاحب کی نیک کوششوں کو بھی بیان کیا کہ کس طرح ان پانچ سالوں میں شکیل صاحب نے مجلس کو دنیا بھر میں یکساں طور پر مقبول کرا دیا اور اس ضمن میں ان کی خدمات کیا ہیں۔ شکیل صاحب نے ابھی گزشتہ دنوں ہندوستان میں منعقد دو  سیمیناروں الہ باد اور اعظم گڑھ میں بنفسِ نفیس شرکت کی۔

 نشست میں استقبالیہ کلمات بانیٔ مجلس اور سرپرستِ اعلیٰ جناب شکیل احمد صبرحدی صاحب نے پیش کیا اور شعراء کرام کے ساتھ ساتھ مہمانوں اور سامعین کا خیر مقدم کیا۔ اس کے علاوہ بیرون ممالک سے اپنی غزلیں ارسال کر کے نشست میں شرکت کرنے والے شعراء کا خیر مقدم کیا اور مبارک باد پیش کی۔ اس کے بعد باقاعدہ طور پر شیراز مہدی صاحب کی نظامت میں نشست کامیابی کے زینے طے کرتی گئی شیراز مہدی صاحب نے اس خوش اسلوبی کے ساتھ نظامت کے فرائض انجام دیے کہ سامعین کا تسلسل کبھی ٹوٹنے ہی نہ پایا، ان کے خوبصورت کلمات نے کئی بار محفل کو مشک زار بنا دیا۔ صدارت کی کرسی پر اردو ادب کا بڑا معتبر نام، ممتاز عالم دین، کہنہ مشق صاحبِ قلم، نکتہ سنج محقق اور باکمال شخصیت استاد محترم جناب شعیب نگرامی صاحب جلوہ افروز تھے انہوں نے شعراء کو داد و تحسین پیش کی اور ان کا حوصلہ بڑھایا ان کی موجودگی نے اس نشست کو مزید معتبر بنا دیا۔ نشست کے لیے پنڈت برج نرائن چکبست کے دو مصرعوں کی تجویز تھی تاکہ شعراء حضرات ایک مصرعء طرح یا دونوں مصرعء طرح پر کلام کہہ سکیں۔

1۔ مصرع طرح :     ہمیشہ بھولتے جاتے ہیں جو کچھ یاد کرتے ہیں

2۔ مصرع طرح :    شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے

مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اردو کے مشاعروں میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ بیرونِ بحرین سے شعرائے کرام اپنی طرحی غزلیں ارسال کر کے مشاعرے میں شرکت کرتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس بار طے شدہ مصرعے پر دنیا بھر سے کم و بیش 65 غزلیں موصول ہوئی۔ جن میں کچھ غزلوں کو محفل میں پیش کیا گیا۔ وہیں مقامی شعراء نے اپنے خوب صورت کلام سے محفل کے حسن کو دو بالا کر کے اس نشست کو یادگار بنا دیا، نشست میں جناب خورشید علیگ، جناب احمد عادل، جناب رخسار ناظم آبادی، جناب شیراز مہدی، جناب طاہر عظیم، جناب ریاض شاہد، جناب عدنان تنہا، جناب فیضی اعظمی، جناب سعید سعدی، جناب اسد اقبال، جناب کپل بترا، جناب سمیع اللہ حامد، جناب عمران فریق نے عمدہ طرحی غزلیں پیش کیں شعراء کی بہترین شاعری کو سامعین نے بہت دلجمعی سے سنا اور ایک ایک شعر پر خوب داد دی۔ منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔

خورشید علیگ

جو زخم تم نے دیا ہے مٹا نہیں سکتے

یہ راز دل ہے کسی کو بتا نہیں سکتے

وہ اجنبی ہیں مگر ہے بہت سلیقہ مند

ہم اپنی بزم سے اس کو اٹھا نہیں سکتے

احمد عادل صاحب

ہم اپنے زخم سبھی کو دکھا نہیں سکتے

جو شکوہ تم سے ہے سب کو سنا نہیں سکتے

مرے خیال کی گہرا ئی کو ذرا سمجھو

کہ صرف لفظ تو مطلب بتا نہیں سکتے

 رخسار ناظم آبادی

کسی کے سامنے منظر تو لا نہیں سکتے

جو حال دل ہے کسی کو دکھا نہیں سکتے

اگر نصیب میں لکھا ہے دربدر ہونا

تو خیر خواہ بھی مل کر بچا نہیں سکتے

شیراز مہدی

عجب ہے پر یہی ہر دور کے صیاد کرتے ہیں

جسے آزاد کرتے ہیں اسے برباد کرتے ہیں

زباں بندی کے عالم میں جو آیا جشن کا موسم

تو آنکھوں سے ہی اظہار مبارکباد کرتے ہیں

طاہر عظیم

گناہ گار تو خود کو بنا نہیں سکتے

تمہارے راز کسی کو بتا نہیں سکتے

وہ اعلی ظرف یہاں میرے ساتھ بیٹھے ہیں

جو آئنہ بھی کسی کو دکھا سکتے

ریاض شاہد

یہاں نفرت کے پیمانوں میں سکھ برباد کرتے ہیں

وہ خود کرتے نہیں یہ کام تو ہمزاد کرتے ہیں

بظاہر ہیں ادب پرور محبت بانٹتے ہیں جو

جڑوں کو کاٹنا مقصود ہو امداد کرتے ہیں

عدنان تنہا

تمہاری آرزو دل سے مٹا نہیں سکتے

متاع جاں تمہیں اپنا بنا نہیں سکتے

تمہارا حسن اگرچہ ہے معتبر لیکن

ہم اپنی ذات کو کاسہ بنا نہیں سکتے

فیضی اعظمی

وہ شعر جن میں مرے غم سما نہیں سکتے

وہ میری غزلوں کے حلقے میں آ نہیں سکتے

یہ کیسے وقت پے رندوں نے شیخ توبہ کی

شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے

 اسد اقبال

یہ فرض اب کہ مسلماں نبھا نہیں سکتے

خلاف ظلم کے آواز اُٹھا نہیں سکتے

یہ اور بات ہے شکوہ نہیں کیا تم سے

ستم جو ہم پہ ہوئے ہیں بھلا نہیں سکتے

 محمد سمیع اللہ حامد

سر محفل جو ناداں نالہ و فریاد کرتے ہیں

وہ راہ عشق میں بدعت نئی ایجاد کرتے ہیں

سہی جاتی نہیں احباب کی بے التفاتی اب

چلو ہم دل کے پنجرے سے انہیں آزاد کرتے ہیں

عمران فریق

نئی رسمیں فراقِ یار میں ایجاد کرتے ہیں

پرندیں خود پکڑتے ہیں خودی آزاد کرتے ہیں

محبت اور سیاست میں یہی دیکھا ہے ہم نے بس

وہی پھر لوٹتے ہے پہلے جو امداد کرتے ہیں

کپل بترا

جو بھول گیا راہ ہم اس کارواں کے ہیں

اس شہر کو بھی یاد نہیں ہم جہاں کے ہیں

یہ زیست کے سوال یکے بعد دیگرے

جو ختم ہی ہوتا نہیں اس امتحاں کے ہیں

نوٹ :  مجلس فخرِ بحرین برائے فروغ اردو ادب کی پنڈت برج نرائن چکبست کی یاد میں یہ تیسری اور آخری طرحی نشست تھی اس کے بعد مجلس فروری کے مہینے میں متوقع اپنے عالمی مشاعرے کی تیاری کرے گی۔

تبصرے بند ہیں۔