حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ: یادوں کے جھروکے سے!(قسط: 1) 

 محمد شاہد خان ندوی

کچھ عہد ساز شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا زمانہ اگر نصیب ہوجائے تو انسان خود کو دھنی سمجھتاہےاور بے شمار مجلسوں میں اس بات کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتا، اور اگر ان سے اکتساب فیض کا موقع بھی مل جائے تو پھر کیا کہنا،ایسےلمحات تا حیات سرمایہ افتخار بن جاتے ہیں، ان زندگیوں کی تھوڑی سی پرچھائیں بھی اگر میسر آجائے تو وہ پوری زندگی پر سایہ فگن ہو جاتی ہے، ان کی ذات سے حاصل ہونے والی معمولی سی روشنی بھی ہمیشہ زندگی کی شب دیجور میں قندیل رہبانی کا فریضہ انجام دیتی رہتی ہے اور دل فگاروں کے درد کا درماں ثابت ہوتی ہے۔ شب و روز کی ہزار کروٹوں اور وقت و حالات کی بے پناہ منتوں کے بعد خالق ارض و سماء کے حضور میں کسی نیک دل اور پاک طینت خاتون کی دعا قبول ہوتی ہے اور تب کہیں جاکر ایسی شخصیات اس کی مسعود کوکھ سے جنم لیتی ہیں، وہ ملک قابل مبارکباد، وہ عہد خود پر نازاں اور وہ خاندان اور ادارہ شان امتیازی کا حامل جہاں ایسی شخصیت اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے، یہ کہنا گرچہ غلو کے زمرہ میں داخل ہوگا لیکن بیجا قطعا نہ ہوگا کہ ہزاروں انسانوں کی خوبیاں جب کسی ایک شخص میں یکجا ہو جاتی ہیں تب کہیں جا کر خاک کے پردے سے ایسی شخصیت اٹھتی ہے جس کو حضرت مولانا علی میاں کہلانا نصیب ہوتا ہے۔

وہ عہد ساز شخصیت کے مالک تھے، زہد و تقوی، بے نفسی و بے نیازی، اخلاص و للہیت کے خمیر سے ان کی شخصیت کی نمود ہوئی تھی، ان کی زندگی پر اب تک بے شمار کتابیں اور مقالات لکھے جا چکے ہیں، خود مولانا نے اپنی زندگی کے حالات و واقعات کو ہزاروں صفحات میں قلمبند کردیا ہے، کاروان زندگی خود حضرت مولانا کی خود نوشت داستان حیات ہے، لیکن ان کی زندگی کے کتنے ہی پہلو ہنوز باقی ہیں جن کا ذکر کر کے سیکڑوں سرد دلوں میں برق حیات پہونچائی جا سکتی ہے تاکہ ایک بار پھر تازہ دم ہو کر اپنی زندگی اور معاشرہ کا رخ صحیح سمت میں ڈالا جا سکے، میری اس تحریر کا مقصد ان کی پوری زندگی اور ان کے کارناموں کا احاطہ کرنا نہیں ہے بلکہ بحیثیت مربی و استاذ ان کاہم طلبہ کے ساتھ جو مربیانہ برتاؤ تھا اور خود ذاتی طور پر میں نے جو دیکھا اور محسوس کیا ہے یہاں بس انہی باتوں کا تذکرہ مقصود ہے، ان واقعات و مشاہدات پر ایک عرصہ بیت چکا ہے، بیس بائیس سال کی مدت کچھ کم نہیں ہوتی، آج میرے حافظہ پر ایک بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے کیونکہ اسے برسوں سے جمی دبیز گرد کی پرتوں کو جھاڑ کر دوبارہ محفل سجانی ہے نیز اس عہد رفتہ کی تصویر پیش کرنی ہے جو اب تک زندگی کا سب سے دلچسپ دور رہا ہے۔ آج اپنی زندگی سے کوئی شکایت کرنا بھی مناسب نہیں رہےگا کیونکہ اللہ نے اس ادارہ کی برکت سے جو کچھ شعور و آگہی کی دولت نصیب فرمائی اور مقصد حیات کو طے کرنے میں جو مدد ملی وہ دنیا کے تمام زرق و برق کے مقابلہ میں نہایت قیمتی اور اہم ہے، آج نہ جانے طبیعت پر اس خاص شخصیت کے تئیں اتنی جذباتیت کا غلبہ کیوں ہے کہ بار بار دل نے یہ گزارش کی کہ اپنی تمام تر کم علمی اور درماندگی کے باوجود ان منتشر خیالات کو یکجا کیا جائے جن کی مہمیز سے اپنی زندگی کا کارواں قدرے سہی سمت میں چلتا رہا ہے، مجھے اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ حافظہ کے سہارے اور جذبات کی رو میں جو کچھ کہا جائے گا اس میں شاید وہ دقت اور موضوعیت برقرار نہ رہ سکے جو سوانح نگاری اور تاریخ نویسی کا ناگزیر تقاضہ ہے۔ لیکن ذاتی طور پر مجھے اس بات کا اطمینان ہے کہ اگر کوئی لغزش سرزد ہو بھی جائے گی تو امید ہے کہ میرے احباب اور ہمعصر جو ندوہ اور شیخ ندوی دونوں سے والہانہ شغف رکھتے ہیں وہ نہ صرف صحیح واقعہ کی طرف رہنمائی فرمادیں گے بلکہ اپنا ذاتی تجربہ پیش کر کے اس تصویر میں مزید کئی رنگوں کا اضافہ بھی کریں گے جس سے گلشن ندوہ کی تابناکی اپنی پوری شان وشوکت کے ساتھ جلوہ گر ہو جائے گی، اب مجھے اس کوشش میں کتنی کامیابی ملتی ہے اس کا بہتر فیصلہ تو قارئین ہی کر پائیں گے۔

1992 کا وہ تاریخی سال بھلا پانا میرے لئے نا ممکن ہے جب پہلی بارحضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ کے دیدار کا شرف مجھے حاصل ہوا۔ آج تک اس لمحہ کا انوکھاپن اپنی آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ قسمت کی مہربانی نیز والد محترم کا علم اور مطالعہ سے گہرا شغف ہی مجھے ندوہ کے درو دیوار تک لے آیا تھا ورنہ صحیح معنی میں ہم جیسے دور افتادہ مقامات میں بسنے والوں کو ایسا موقعہ شاید ہی نصیب ہوتا، داخلہ کی غرض سے جب ندوۃ العلماء کے احاطہ میں پہونچا تو ایک عجیب سی کیف و مستی کا عالم چہار جانب محسوس ہوا، جس ادارہ کی بنیاد امت اسلامیہ ہند کے ممتاز ترین دماغوں کی انتھک کوششوں سے تحریک ندوہ کی بدولت پڑی تھی آج خالق علم و قلم کی دستگیری سے اس کا حصہ بننا مقدر ہو رہا تھا، مزید باعث مسرت یہ بات ہوئی کہ میرے داخلہ کا اجازت نامہ خود مولانا علی میاں رحمہ اللہ کے ہاتھوں مرحمت ہوا، حضرت مولانا (ہم اہل ندوہ کے درمیان اس لفظ سے بس حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ کی ذات مراد لی جاتی تھی) حضرت مولانا نے اپنی عمر عزیز کی کل پچاسی بہاریں دیکھی تھیں اور نوے کی دہائی ان کی زندگی کی آخری دہائی تھی، اس وقت مولانا کی شہرت و مقبولیت بام عروج پر تھی، ویسے شہرت تو دنیا میں بہتوں کو نصیب ہو جاتی ہے لیکن مقبولیت سب کے حصہ میں نہیں آتی، اللہ تعالی نے حضرت مولانا کو ان دونوں نعمتوں سے مالامال کیا تھا، میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں دو عظیم شخصیات کی شہرت و مقبولیت کا وہ عالم دیکھا ہے جو شاید بیسویں صدی کے نصف اخیر میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی، ان میں سے ایک قاری صدیق صاحب رحمہ اللہ کی ذات گرامی تھی جو ہندوستان کی سطح پر بے انتہا مقبول تھے، اس طرح کی عوامی مقبولیت اس دور میں کسی اور کے حصہ میں نہیں آئی، دوسری شخصیت مولانا علی میاں صاحب رحمہ اللہ کی تھی، ان کی شہرت عالمگیر تھی، وہ ہند اور بیرون ہند پورے عالم اسلام میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت کے حامل تھے، ایسے میں اگر کسی طالب علم کو اس جیسی شخصیت سے استفادہ اور کسب فیض کا موقع نصیب ہو جائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ خود کو کتنا خوش نصیب محسوس کر رہا ہوگا۔

ندوہ میں داخلہ سے قبل مولانا کی کتاب قصص النبیین پڑھنے کا شرف مجھے حاصل ہو چکا تھا، کتاب پڑھتے وقت میرا گمان یہ تھا کہ اس کے مصنف ’سید ابوالحسن علی الحسنی الندوی’ علماء سلف میں سے کوئی بزرگ عالم دین ہوں گے، لیکن جب ندوہ میں داخلہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہی مولانا علی میاں ’سید ابوالحسن علی الحسنی الندوی’ ہیں تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور اس کے بعد میں اپنی استطاعت کی حد تک مولانا سے استفادہ کی کوشش کرتا رہا۔

چشم عالم نے آج تک بڑے بڑے مفکرین اور فلاسفہ دیکھے ہیں جن کے افکار و نظریات کے طلسم نے دنیا کو کئی صدیوں تک اپنی گرفت میں رکھا لیکن ان میں سے بیشتر کی ذاتی زندگی سے دنیا بے خبر ہے، ان کے فکر و فلسفہ نے دنیا کو متاثر تو کیا لیکن مردم گری کا وہ کام ان سے نہ ہو سکا جو ہونا چاہئے تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1998 میں جب ہم روزگار کی تلاش میں قطر آئے تو دیکھا کہ یہاں وزارت تعلیم کی بسوں پر ‘ وزارۃ التعلیم و التربیۃ’ لکھا ہوا ہے، لیکن چند مہینوں کے بعد دیکھا گیا کہ اب اس کی جگہ ‘وزارۃ التربیۃ و التعلیم’ لکھا جانے لگا ہے، کیونکہ ارباب حل و عقد کو محسوس ہوا کہ تربیت تعلیم پر مقدم ہے، اس حوالہ سے حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ کی شخصیت میری نظر میں انتہائی اہم ہو جاتی ہے، ویسے ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی، جہاں ایک طرف وہ دردمند داعی تھے وہیں دوسری جانب وہ گہری بصیرت کے حامل اسکالر بھی تھے، تذکرہ نویسی میں حقیقت نگاری کا اسلوب پیش کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے ایک ممتاز تاریخ داں کا فرض منصبی بھی اس خوش اسلوبی سے نبھایا کہ سید قطب جیسا نابغہ روزگار مسلم دنیا کے مؤرخین کو یہ مشورہ دینے پر مجبور ہوا کہ مغربی دنیا کے اہل فکر اور مسلم دشمنی سےآلودہ مسموم ذہنیت کے رد میں لکھنے والوں کو علم و استدلال پر مبنی تاریخ نویسی کا جدید طرز ’سید ابوالحسن علی الحسنی الندوی’سے سیکھنا چاہئے۔ تاریخ کے موضوع پر لکھی گئی ان کی معرکۃ الآرا تصنیف ‘ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین’ کا یہی امتیازی پہلو تھا جس کی بنا پر الاخوان المسلمون نے مصری نوجوانوں کی فکری تربیت کے لئے اس کتاب کو داخل نصاب کیا تھا اور جس کا اندازہ حضرت مولانا کو تب ہوا جب بیسویں صدی کے نصف اخیر میں آپ نے مشرق وسطی کا سفر کیا، جہاں تک عربی زبان و ادب پر آپ کےعبور کا سوال ہے تو اس پر کچھ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں، بس اتنا کہنا کافی ہوگا کہ ملک شام کے شیخ بہجہ البیطار اور شیخ علی طنطاوی جیسے جہابذہء علم و ادب نے ہمیشہ کے لئے آپ کی قدرت لسانی پر مہر اعتبار ثبت کر دی ہے، اس کے علاوہ عرب دنیا میں آپ کی تحریروں کی بے حد مقبولیت آپ اس کی دلیل ہے، ان علمی و فکری امتیازات کے علاوہ آپ ایک ہنرمند منتظم، تحریک ندوہ کے سچے ترجمان اور روح ولی اللہی کے امین تھے، لیکن ان سب سے زیادہ اہم وصف ان کا یہ تھا کہ وہ ایک انتہائی عظیم اور کامیاب مربی تھے، مجھے اپنی زندگی میں متعدد نامور شخصیات کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا لیکن افسوس کہ انہیں قریب سے دیکھنے کے بعد میری طبیعت میں ان کے تئیں محبت و عقیدت میں اضافہ کے بجائے ایک طرح کا تنفر پیدا ہوا کیونکہ اکثر ان کے قول و فعل میں تضاد پایا گیا، لیکن مولانا علی میاں رحمہ اللہ واحد شخصیت ہیں کہ جب انہیں قریب سے دیکھا تو ان سے محبت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔

میں نے آج تک ندوہ کی تین شخصیات کے بارے میں ان کے کسی بھی ادنی سے ادنی شاگرد کو نکتہ چینی کرتے ہوئے نہیں پایا، ان میں ایک شخصیت مولانا ابو العرفان صاحب رحمہ اللہ کی تھی، دوسری شخصیت مولانا نور عظیم ندوی مرحوم کی تھی اور تیسری شخصیت جو ان دونوں شخصیات کی بھی مربی و محسن تھی وہ حضرت مولاناعلی میاں رحمہ اللہ کی تھی اور یہ کسی بھی مربی کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    مولانا علی میاں کی جماعت اسلامی سے علیحدگی کے اسباب
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    جماعت اسلامی کی تشکیل کے وقت جن ممتاز اصحاب علم و فضل نے مولانا مودودی کا ساتھ دیا تھا،ان میں تین اہل علم بہت ہی نمایاں ہیں۔ایک مولانا محمد منظور نعمانی جو دیوبند کے فارغ التحصیل تھے اور حضرت کشمیری کے ممتاز شاگردوں میں شمار ہوتے تھے،دوسرے مولانا امین احسن اصلاحٰی جو مدرسۃ الاصلاح سرائے میر (اعظم گڑھ۔۔۔۔ہند) کے ممتاز فاضل اور مولانا فراہی کے مایہ ناز شاگردوں میں تھے،تیسرے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی جو اصلا گو کہ ندوۃ العلماء کے فیض یافتہ تھے لیکن دیوبند میں حضرت مدنی اور لاہور میں حضرت لاہوری سے باضابطہ تلمذ کا شرف حاصل کرچکے تھے۔
    باعث تعجب ہے کہ یہ تینوں ممتاز اصحاب علم و فضل جماعت اسلامی سے یکے بعد دیگرے الگ ہوگئے اور مختلف اسباب کی بنا پر انہوں نے اپنا راستہ مولانا مودودی سے جدا کیا۔
    اس سلسلے میں مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب ؒ نے اپنے الگ ہونے کے جو تین اسباب بیان فرمائے ہیں ،وہ کچھ یوں ہیں:
    1…جماعت کے افراد میں مودودی صاحب کے متعلق غلو کا پیدا ہونا،ان کے علاوہ کسی اور مفکر،مصنف اور داعی کے متعلق کوئی بلند خیال قائم کرنے،اس پر اعتماد کرنے،اس کی تحریروں سے استفادہ کی صلاحیت سے روز بروز دور ہونا،یہ احساس کہ کہ اس سے بہتر کسی نے اسلام کو سمجھا اور پیش نہیں کیا اور کلی دین کے داعی وہی ہیں۔
    2…تنقید کے عنصر کا بڑھ جانا اور علماء اور دینی حلقوں کے بارے میں زبانوں کا بے باک ہونا۔
    3…دین کے ذوق و عمل میں کوئی ترقی،اصلاح نفس کے سلسلے میں کسی نمایاں جذبے کا نہ ہونا اور تعلق مع اللہ میں ترقی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کرنا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کاروان زندگی 1…244)

تبصرے بند ہیں۔