مسلم پرسنل لا پر حملے کا بہترین جواب کیا ہوسکتا ہے؟

عبدالعزیز

 اگر مسلمان طے کرلیں کہ وہ شیطان کے راستے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اللہ رب العزت کے راستے کو اپنا لیں گے تو ان کی دنیا بدل جائے گی۔ آسمانوں سے رحمتوں کی بارش ہونے لگے گی اور دشمنوں کے حملے کا سارا زور آناً فاناً ٹوٹ جائے گا۔

  ہمیں ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو راہ ہم نے اپنائی ہے سوچ سمجھ کر اپنائی ہے یا بغیر سوچے سمجھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت بلکہ نوے فیصد نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ وہ کس راستہ پر چل رہے ہیں ؟ کس کی پیروی کر رہے ہیں اور اس پیروی کے کیا نتائج ہوں گے۔ بے سوچے سمجھے چلنے کا جو نتیجہ ہورہا ہے وہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ذلت ورسوائی، کمزوری و مرعوبیت اور مظلومیت کی شکل میں ہم اس فصل خزاں کو دیکھ رہے ہیں یا پارہے ہیں ۔

  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ کے منافقوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اے لوگو! جو ایمان کے دعویدار ہو، پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ، شیطان کی پیروی نہ کرو، شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔

آج سورہ بقرہ کی یہی آیت ہم پڑھتے ہیں :

 یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنَوْا دخُلُوْ فِیْ السِّلِمِ کَآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنo (آیت208)

 مگر اس پر غور و فکر نہیں کرتے کہ آخر ہم کیوں اپنی وفاداریوں کو منقسم کرچکے ہیں ۔ بہت سا راستہ ہمیں شیطان کا پسند ہے اور کچھ راستے ہمیں اللہ تعالیٰ کا پسند ہے، ہم شیطان کی بھی پیروی کرتے ہیں اور اللہ کی پیروی کے بھی دعویدار ہیں ۔ ہمارا حال یہ ہے کہ

 مے بھی پیو ہوٹل میں مسجد میں چندہ بھی دو … شیطان ناراض بھی نہ ہو شیخ ناخوش بھی نہ ہو

 آج ہم ہندستانی مسلمانوں سے بلکہ دنیا کے سارے مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ شیطان کے راستہ کو چھوڑ دو، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اللہ کے راستہ کو اپنالو۔ یہی راستہ کامیابی کی طرف جاتا ہے، باقی سارے راستے ناکامی اور نامرادی کی طرف لے جاتے ہیں ۔

  مسلم پرسنل لا یعنی مسلمانوں کا عائلی قانون جس میں نکاح، طلاق، خلع، فسخ نکاح، خضانت، ہبہ، وصیت، وراثت وغیرہ کے قوانین شامل ہیں ۔ عائلی قانون کی ایک ایک چیز پر نگاہ دوڑائیے اور غور کیجئے کہ ہم اس پر منافقوں کی طرح عمل کر رہے ہیں یا ایک سچے پکے مسلمانوں کی طرح عمل پیرا ہیں ؟

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ ’’نکاح کو آسان بناؤ اور طلاق کو مشکل‘‘۔

نوے فیصد سے زائد مسلمانوں کی تعداد اللہ کے رسولؐ کے حکم کی بالکل خلاف ورزی کر رہی ہے۔ نکاح کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے اور طلاق کو آسان جس میں تین طلاق کو تو کھلواڑ بنا لیا گیا ہے۔ جب چاہا بغیر سوچے سمجھے تین طلاق کی گولیوں سے بیوی کو داغ دیا۔

 نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ ایک شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالی ہیں ۔ حضورؐ یہ سن کر غصے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا ’’اَیْلُعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَ اَنَابَیْنَ اَظْہَرُکُمْ‘ ‘کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے۔ حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں ۔ اس حرکت پر حضورؐ کے غصے کی کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا کیا میں اسے قتل نہ کردوں ۔ کیا آج ہم جب کسی شخص کے بارے میں سنتے ہیں کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے ڈالیں تو ہمیں غصہ آتا ہے۔ کیا اتنا غصہ آتا ہے کہ اگر وہ ملے تو اس کا منہ نوچ لیں ۔ اس سے ہمیشہ کیلئے کنارہ کش ہوجائیں ۔ اس سے ہنسنا بولنا سب کچھ ترک کردیں ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے علماء نے ایسے لوگوں کے سماجی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے کہ آج سے ہم اس پر عمل کریں گے۔ ایسے لوگ خواہ ہمارے بھائی ہی کیوں نہ ہوں ہم اس کی حرکت پر اسے لعن طعن کریں گے؟ اگر نہیں کریں گے اور اس سے اسی طرح راہ و رسم رکھیں گے جیسے پہلے ہمیں ذرا بھی غصہ نہ آئے گا تو یہ راستہ شیطان کا راستہ ہوگا۔ یہ شیطان کی پیروی ہوگی۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی نہ ہوگی۔

  بیوی کو تین طلاق دیکر جب ہم شرمسار ہوتے ہیں اور پچھتاوا محسوس کرتے ہیں تو حلالہ جیسے حرام فعل کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ ایسی غلط اور ناجائز اور شرمناک تدبیر کی اسلام میں ذرا بھی گنجائش نہیں ہے۔ جو لوگ اکٹھی تین طلاق کو ایک مان کر راستہ نکالتے ہیں ۔ اس کا جواز قرآن و حدیث میں ملتا ہے۔ اسی لئے اگر کوئی عالم یا مفتی یہ راستہ بتاتا ہے تو اس کو فراخ دلی سے قبول کرنا چاہئے نہ کہ مسلک کی تنگ دلی کو اپنانا چاہئے اور ناجائز اور حرام کام کی طرف اکسانا چاہئے۔

 نکاح کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے بلکہ نکاح کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی سراسر اسلام ، قرآن اور شریعت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ جہیز اور لین دین میں بالکل ایک تجارت کی طرح معاملہ کیا جاتا ہے۔ ایک لڑکی اور اس کے باپ سے نکاح سے پہلے جہیز اور تلک کی بے شرمی سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔ مطالبہ پورا نہ ہونے پر نکاح کی مجلس سے دولھا اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ نکاح کو تجارت کی منڈی بنالیا گیا ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ

’’اَعظم النِّکاح بَرْکَۃً اَیسرہ مؤنۃً‘‘ (مسند احمد) ’’سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو‘‘۔

آج لوگ بالکل اس کے برعکس عمل کر رہے ہیں ۔ برات اور ولیمہ کے نام پر ایسی فضول خرچیاں کرتے ہیں کہ شیطان کو بھی شرم آجاتی ہوگی مگر فضول خرچی کرنے والے کی بے حیائی اور ڈھٹائی کا یہ حال ہوتا ہے کہ نام و نمود کیلئے اس کا چرچا کرتا ہے۔ اخبارات میں تصویریں چھپواتا ہے اور نئی نویلی دلہن کو برسر عام کرکے واہ واہی لینے کی کوشش کرتا ہے  ؎

یہ وہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود

  ضرورت ہے کہ جس طرح تین طلاق کے غلط اور بلا عذر استعمال کرنے سے سماجی بائیکاٹ کا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے اعلان کیا گیا اسی طرح شادی بیاہ میں فضول خرچ اور اسراف کرنے والوں کے خلاف بھی سوشل بائیکاٹ (سماجی بائیکاٹ) کا اعلان کیا جائے اور ایسی شادیوں اور ولیمے میں شرکت سے اجتناب کیا جائے جس میں فضول خرچی ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ شیطان کے بھائیوں کی ہمیں کسی حال میں بھی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئے۔

 اسی طرح جو لوگ اپنی بہنوں یا بیٹیوں کا وراثت میں حصہ نہیں دیتے ان کو بھی سماج میں نکو بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ جو لوگ صحیح وصیت کو عدالتوں میں چیلنج کرتے ہیں اور وصی کی منشا اور مرضی کے خلاف اس کی جائداد کو ہڑپ کرنا چاہتے ہیں ان کو بھی عوام کے اندر لعن طعن کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے ایمان اور اسلام کا تقاضہ ہے کہ اگر ہم بروں کا ہاتھ نہ پکڑسکیں تو کم سے کم زبان سے برائی کو براسمجھیں یا کم سے کم دل میں محسوس کریں اور اس کو ختم کرنے کی اسکیم اور منصوبے بنائیں ۔

جب تک معاشرہ میں بروں کے خلاف سخت رویہ نہیں اپنایا جائے گا برائی معاشرہ سے ختم نہیں ہوگی۔ خاندانی نظام میں جب تک نکاح کو آسان نہیں بنایا جائے گا ، نکاح سے پیدا شدہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اللہ کے رسولؐ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں اس کا کوئی تصور نہیں تھا کہ مطلقہ یا بیوہ عورت گھر میں بیٹھی رہے۔ ایک عورت کی کسی وجہ سے طلاق ہوگئی یا بیوہ ہوگئی تو اس کی شادی ہوجاتی تھی۔ تیسری شادی ہوجاتی اور چوتھی شادی ہوجاتی تھی۔ عمر کے کم ہونے یا زیادہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ کم عمر لڑکیوں کی شادی بڑی عمر کے مردوں سے ہوجاتی تھی اور زیادہ عمر کی عورتوں کی شادی نو عمر لڑکوں سے ہوجاتی تھی۔

اس معاملہ میں کوئی روک ٹوک یا دشواری نہیں ہوتی تھی۔ ایسی بے شمار مثالیں اللہ کے رسولؐ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں ملتی ہیں مگر آج ایک بیوہ اور مطلقہ کی شادی مشکل ترین مسئلہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں مگر ہمارا معاشرہ غیر اسلامی ہے۔ جس کی وجہ سے بے شمار معاشرتی مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔ اگر ہم نے دین کا راستہ نہیں اپنایا اور اللہ کے راستے پر مکمل طور پر چلنے کا عہدو پیمان نہیں کیا تو معاشرہ دن بہ دن خراب سے خراب تر ہوتا چلا جائے گا اور ساری تدبیریں اور تبلیغیں اس بے شرم، سنگ دل اوربے رحم معاشرہ کیلئے اکارت اور رائیگاں ثابت ہوں گی۔ شیطان کے راستے کو ہمیشہ ہمیشہ چھوڑے بغیر معاشرہ کی تعمیر و ترقی، اصلاح و درستگی کا خواب نہ کبھی شرمندۂ تعبیر ہوا ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔