خواتین اور شوہروں کی عدم شکر گزاری (پہلی قسط)

مقبول احمد سلفی

اللہ رب العالمین کا ہم پہ بے پاں احسان وکرم ہے، اس کے منجملہ احسان میں سے شادی بھی بڑی عظیم نعمت اور بڑا احسان  ہے۔  یہ نہ صرف نسل انسانی کے تسلسل کا ذریعہ ہے بلکہ مردوعورت کے درمیان زندگی کی فطری مسکراہٹیں، قلبی سکون وراحتیں، باغ وبہار کے حسن وزیبائشیں، زمانے بھر کی خوشیاں اور ان کی حقیقی لطافتیں اس میں موجود ہیں۔  ایک مومنہ خاتون کے واسطے اسکے اولیاء کو رسول ھادی ﷺ نے یہ عظیم وصیت فرمائی ہے کہ جب دین اور اخلاق والا مرد اس کے پاس شادی کا پیغام لیکر آئے تو اسے قبول کرلے اور لڑکی کا نکاح اس دیندار مرد سے کردے، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو زمین میں بڑا فتنہ فساد پھیلے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ملاحظہ فرمائیں :

إذا خطبَ إليكم مَن ترضَونَ دينَه وخلقَه، فزوِّجوهُ إلَّا تفعلوا تَكن فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ(صحيح الترمذي:1084)

ترجمہ:اگر تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا۔

مومنہ خاتون اپنی زندگی کی شروعات دین واخلاق میں معروف مرد سے نکاح کرکے کرے، اس کے ساتھ زندگی کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔  جہاں عورت کے لئے دیندار مرد کا پیغام رد کرنا منع ہے وہیں مردوں کو بھی نیک بیویاں عقد نکاح میں لانے کا حکم ہے۔ اس طرح نیک مرد اور نیک بیوی اپنی زندگی سیرت رسول کے سائے میں گزاریں گے۔  جب بیوی سے غلطی ہوئی شوہر اس کی اصلاح کردے گااور جب شوہر سےکبھی کوتاہی ہوئی بیوی اس کی اصلاح کردے۔

ایسی ہوتی ہے مسلمان مردوعورت کی زندگی مگر اس وقت شادی میں دین کومعیار ہی نہیں بنایا جاتا جس کی وجہ ہے زمین میں فساد پھیلاہوا ہے۔  اکثر شادیاں فتنہ وفساد کا شکار ہوجاتی ہیں، ایک طرف مرد کی زندگی تباہ ہوتی تو کبھی دوسری طرف عورتوں کو مظالم کا شکار ہونا پڑتا ہے۔بے دینی پر مبنی شادیوں کی وجہ سے زمانے میں شروفساد، قہر وغضب، کشت وخون، ظلم وسرکشی اور فسق وفجور حتی کہ زناکاری وبدکاری عام ہوگئی ہے۔ طلاق کی فیصد کافی بڑھ گئی۔  سماج میں مطلقہ خواتین کی کثرت ہے اوروہ  دردرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔  اس موضوع میں ان باتوں پر روشنی ڈالنے کا مقصد نہیں ہے۔ یہاں عورتوں میں آخرت کے تئیں فکر پیدا کرنا مقصد ہے۔  نبی ﷺ کے متعدد فرامین سے پتہ چلتا ہے کہ جہنم میں خواتین کی اکثریت ہوگی۔  اس سلسلے میں پہلے چند فرامین رسول دیکھتے ہیں پھر اس کا سبب معلوم کریں گے۔

(1)حضرت ابن عباس ؓ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:

اطلعت في الجنةِ فرأيت أكثرَ أهلِها الفقراءُ . واطلعت في النارِ فرأيت أكثرَ أهلِها النساءُ . ( صحيح مسلم:2737)

ترجمہ: میں نے جنت کے اندر جھانک کر دیکھا تو میں نے اہل جنت میں اکثریت فقراء کی دیکھی اور میں نے دوزخ میں جھانک کر دیکھا تو میں نے دوزخ میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔

(2)سیدنا اسامہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

قُمتُ على بابِ الجنَّةِ، فكان عامَّةَ مَن دَخَلها المساكينُ، وأصحابُ الجَدِّ مَحبوسون، غير أنَّ أصحابَ النَّارِ قد أُمِر بهم إلى النَّارِ، وقُمتُ على بابِ النَّارِ، فإذا عامَّةُ مَن دخَلها النِّساءُ.(صحيح البخاري:5196)

ترجمہ:میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو بیشتر لوگ جو اس میں آئے تھے وہ مساکین تھے جبکہ مال دار لوگوں کو جنت کے دروازے پر روک دیا گیا تھا البتہ اہل جہنم میں جانے کا حکم دے دیا گیاتھا اور میں جہنم کے دروازے پر کھڑا ہوا تو اس میں داخل ہونے والی اکثر عورتیں تھیں۔

(3) نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ أقل ساكني الجنةِ النساءُ (صحيح مسلم:2738)

جنت میں رہنے والوں میں سب سے کم تعداد عورتوں کی ہے۔

یہ تمام احادیث صحیح ہیں، ان سے ہمیں معلوم ہوا کہ جنت میں عورتیں معمولی تعداد میں ہوں گی اور ان کی اکثریت جہنم میں جائے گی۔  یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سا سبب ہے جس کی وجہ سے مردوں کے مقابلے میں جہنم میں اکثر عورتیں ہوں گی ؟ اس سوال کا جواب ہمیں فرمان رسول میں ہی مل جا تا ہے۔

(1)حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

أُريتُ النارَ فإذا أكثرُ أهلِها النساءُ، يَكْفُرن. قيل: أيَكْفُرن باللهِ ؟ قال: يَكْفُرن العشيرَ، ويَكْفُرن الإحسانَ، لو أحسنتَ إلى إحداهُن الدهرَ، ثم رأتْ منك شيئًا، قالت: ما رأيتُ منك خيراً قطُّ.(صحيح البخاري:29)

ترجمہ: میں نے دوزخ دیکھی تو وہاں اکثر عورتیں تھیں کیونکہ وہ کفر کرتی ہیں۔لوگوں نے کہا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا:نہیں بلکہ وہ اپنے خاوند کا کفر کرتی ہیں، یعنی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہیں۔ وہ یوں کہ اگر تو ساری عمر عورت سے اچھا سلوک کرے پھر وہ معمولی سی (ناگوار) بات تجھ میں دیکھے تو کہنے لگتی ہے کہ مجھے تجھ سے کبھی آرام نہیں ملا۔

(2)ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عید الفطر کے لئے عید گاہ کی طرف نکلے اور عورتوں کے پاس گزرے تو فرمانے لگے :

يا معشر النساء تصدقن، فإني رأيتكن أكثر أهل النار . فقُلْن : وبم ذلك يا رسولَ اللهِ ؟ قال تكثرن اللعن، وتكفرن العشير(صحيح البخاري:1462)

ترجمہ:اے عورتوں کی جماعت! صدقہ و خیرات کیا کرو بیشک مجھے دکھایا گیا ہے کہ جہنم میں تمہاری اکثریت ہے تو وہ کہنے لگیں اے اللہ کے رسول وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گالی گلوچ بہت زیادہ کرتی ہو اور خاوند کی نافرمانی کرتی ہو۔

(3)حضرت اسماء بنت یزید بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

إياكنَّ و كفرانَ المُنعَّمِينَ لعلَّ إحداكنَّ تطولُ أيمتُها من أبويها، ثم يرزقُها اللهُ زوجَها و يرزقُها منه ولدًا، فتغضبُ الغضبةَ فتكفرُ، فتقول : ما رأيتُ منك خيرًا قطُّ( صحيح الأدب المفرد:800)

ترجمہ: تم اچھا سلوک کرنے والے شوہروں کی ناشکر گزاری سے بچو پھر فرمایا تم عورتوں میں سے کسی کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے والدین کے گھر لمبے عرصے تک کنواری بیٹھی رہتی ہو پھر اللہ تعالیٰ اسے شوہر دیتا ہے اور اس سے اولاد ہوتی ہے پھر کسی بات پر غصہ ہوجاتی ہو اور کفر کرتی ہو اور شوہر سے کہتی ہو کہ تم نے میرے ساتھ کوئی احسان نہیں کیا۔

(4)عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

إِنَّ الفُسَّاقَ هُمْ أهلُ النارِ . قيل : يا رسولَ اللهِ ! ومَنْ الفُسَّاقُ ؟ قال : النِّساءُ . قال رجلٌ : يا رسولَ اللهِ ! أَوَلَسْنَ أُمَّهاتِنا وأَخَوَاتِنا وأَزْوَاجَنا ؟ قال : بلى ؛ ولَكِنَّهُنَّ إذا أُعْطِينَ لمْ يَشْكُرْنَ، وإذا ابْتُلِينَ لمْ يَصْبِرْنَ(السلسلة الصحيحة:3058)

ترجمہ: فاسق لوگ جہنمی ہیں۔ پوچھاگیا: اے اللہ كے رسول ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌ یہ فاسق كون ہیں؟ آپ نے فرمایا: عورتیں۔ ایك آدمی نے كہا: اے اللہ كے رسول ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌ كیا یہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیویاں نہیں ہیں؟ آپ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: كیوں نہیں لیكن جب انہیں دیا جائے تو یہ شكر نہیں كرتیں اور جب آزمائش آئے تو صبر نہیں كرتیں۔

تبصرے بند ہیں۔