آئن سٹائن: تعارف اور حالات زندگی (قسط سوم)

ادریس آزاد

1905کو آئن سٹائن کا معجزاتی سال (Miracle Year کہاجاتاہے۔ اگرچہ اس سے پہلے آئن سٹائن اپنا پہلا تحقیق مقالہ، ’’کیپِلیرِٹی مظہر کے نتائج‘‘ 1901میں پیشکرچکاتھاجوایک بہت ہی اعلیٰ پائے کے جرنل’’اینالین ڈیرفزیک‘‘ (Annalen der Physik) میں شائع ہوچکاتھا۔

لیکن 30اپریل 1905کو آئن سٹائن نے پہلا قابلِ ذکرمقالہ مکمل کیا ، جس پر ’’یونیورسٹی آف زیورِک‘‘ نے اُسے پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری کردیاِس مقالے کا عنوان تھا، ’’مالیکیولرڈائمینشنز کا نیا تعین‘‘(A New Determination of Molecular Dimensions)۔

1905 کے سال کو آئن سٹائن کا معجزاتی سال اس لیے کہا جاتاہے کہ اِسی ایک سال میں آئن سٹائن نے یکے بعد دیگرے چار ایسے مقالے لکھے جو تاریخِ علم انسانی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہ صرف اَمر ہوگئے بلکہ آنے والی تمام دنیاؤں،علوم، افکار، جغرافیوں، سرحدات اور تاریخوں کا دھارا ہی بدل دیا۔ 1905کے سال آئن سٹائن نے چار مختلف موضوعات پر پیپرلکھے۔

۱۔ فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ (The Photoelectric Effect)

۲۔براؤنین موشن(Brownian Motion)

۳۔سپیشل ریلٹوٹی (Special Relativity)

۴۔اِکولینس آف ماس اینڈ انرجی (The Equivalence f Mass and Energy)

ان میں سے ہرایک نظریہ گویا کوئی ہوشربائی طلسم تھا یا کوئی سنہرا جادُو جو اُس نے دنیائے علم و حکمت پر پھونک دیا اور جس کے اثر سے’’ متلاشیان حقائق ِ اشیا  ٔ ‘‘آج تک نہیں نکل سکے۔ ان چار مقالوں کے شائع ہونے کی دیر تھی کہ آئن سٹائن محض چھبیس سال کی عمر میں ہی آسمانِ علم وحکمت پر کسی روشن ستارے کی طرح جگمگانے لگ گیا۔

اکیڈمک کیرئر

1908تک آئن سٹائن کو صف ِ اوّل کا سائنسدان تسلیم کرلیاگیاتھااور اُس نے پیٹنٹ آفس کی کلرکی چھوڑ کر یونیورسٹی آف برن میں لیکچررشپ شروع کردی تھی۔

اگلے سال یونیورسٹی آف زیورِک میں ’’الیکٹروڈائنامکس‘‘ اور ’’ریلٹوٹی پرنسپل‘‘ پر ایک لیکچر دینے کے نتیجہ میں آئن سٹائن کو لیکچرر شپ کے عہدے سے ترقی دے کر ایک ہی سال میں ایسویسی ایٹ پروفیسر بنادیاگیا۔

1911میں آئن سٹائن جرمنی کے شہر پراہا (Prague)  کی’’چارلس فرڈیننڈ یونیورسٹی‘‘ میں فُل پروفیسری کے عہدے پر ترقی پاگیا۔

اس عہدے کوقبول کرنے کے لیے آئن سٹائن کو آسٹروہنگیرین سلطنت کی شہریت بھی قبول کرناپڑی۔

چنانچہ آئن سٹائن کاغذی طور پر آسٹریا کا شہری بھی تھا۔پراہا میں اپنے قیام کے دوران آئن سٹائن نے گیارہ ریسرچ پیپر لکھے

اُن میں سے پانچ پیپر ’’ریڈی ایشن کی ریاضی‘‘ اور ’’سالڈز (Solids)کی کوانٹم تھیوری‘‘ پر لکھےگئے تھے۔

جولائی 1912  میں آئن سٹائن واپس اپنے مادرِ علمی زیورک لوٹ آیا۔1912 سے 1914 تک آئن سٹائن سوس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، زیورِک میں تھیوریٹکل فزکس کا پروفیسر رہاجہاں اُس نے اینالیٹکل میکانکس اور تھرموڈائنامکس پڑھائی۔

اِسی عرصہ میں اس نے ’’کانٹی نیووَم میکانکس‘‘، ’’حرارت کی مالیکولر تھیوری‘‘اور’’کششِ ثقل کے مسئلہ‘‘ کا مطالعہ کیا۔بطورِ خاص گریوٹی کے مسئلہ پر اس نے اپنے دوست مارسل گروسمین کے ساتھ مل کر کام کیا۔

1914 میں آئن سٹائن ، ’’کائزر وِل ہیلم انسٹی ٹیوٹ فار فزکس‘‘(Kaiser Wilhelm Institute for Physics)   کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے جرمنی واپس آگیا۔ساتھ ہی اب وہ ’’ہمبولٹ یونیورسٹی آف برلن‘‘ (Humboldt University of Berlin)  میں  پروفیسر بھی تھا۔جلد ہی وہ ’’پرشیَن اکیڈمی آف سائنس‘‘ (Prussian Academy of Sciences) کا ممبر بن گیا اور پھر1916میں وہ ’’جرمن فزیکل سوسائٹی‘‘ کا صدر بھی بنادیا گیا۔

’’جرمن فزیکل سوسائٹی‘‘ کی صدارت آئن سٹائن کے پاس 1918تک رہی۔

1911میں آئن سٹائن جن اکتشافات سے گزرا تھا انہوں نے بعد میں عظیم نظریۂ عمومی اضافیت یعنی تھیوری آف جنرل ریلٹوٹی کی شکل اختیارکرلی تھی۔ اُن اکتشافات میں آئن سٹائن نے ایک مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر سپیس اور ٹائم فی الواقعہ کسی فیبرک کی طرح آپس میں ایک دوسرے کے اندر سِلے ہوئے ہیں تو یقینا دوسرے ستاروں سے آنے والی روشنی کی شعاعیں راستے میں جگہ جگہ مُڑجاتی ہونگی۔

1919 میں ’’سرارتھرایڈنگٹن‘‘ (Arthur Eddington) نے آئن سٹائن کے خیال کی تصدیق کردی۔ جب اُس نے 29مئی 1919کے روز ایک سورج گرہن کی تصویریں حاصل کیں اور اپنے نتائج شائع کیے تو اعلان کیا کہ آئن سٹائن کا خیال درست تھا۔

دوسرے ستاروں سے آنے والی روشنی کی شعاع فی الواقعہ راستے میں مُڑجاتی ہے۔

7 نومبر1919کے برٹش اخبار’’دی ٹائمز‘‘ نے شہ سُرخی لگائی،

’’سائنس میں انقلاب، کائنات کا نیا نظریہ، نیوٹن کے تصورات کو پھینک دیاگیا‘‘

چنانچہ 1919کے سال آئن سٹائن دنیا کا مشہورسائنسدان بن گیا۔

1920 میں آئن سٹائن کو ’’رائل نیدرلینڈز اکیڈمی آف آرٹس اینڈ سائنس‘‘ کا غیرملکی ممبربنایاگیا۔

1922میں آئن سٹائن کو نوبل پرائز دیا گیا۔ یہ نوبل پرائز’’ 1921کا فزکس کا نوبل پرائز‘‘ تھا

یہ پرائز آئن سٹائن کی نظری فزکس کے لیے خدمات بالخصوص’’فوٹوالیکٹرک ایفکٹ‘‘ کی دریافت پر دیا گیا۔یہ وہ دور تھا جب آئن سٹائن کی ’’تھیوری آف جنرل ریلٹوٹی‘‘ شدید تنقید کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔

آج سوچا جائے تو بڑا عجیب محسوس ہوتاہے۔ جنرل تھیوری ایک ایسا نظریہ تھا جس نے کائنات کے بارے میں انسان کے تمام سابقہ علم کوبیک جنبشِ قلم مسترد کرکے کائنات کے بارے میں ایک بالکل مختلف اور نیا نظریہ پیش کردیا۔ اب کائنات کوئی جامدوساکت وجود نہ تھی بلکہ اب کائنات بے پناہ متحرک گویا زندہ تھی۔

آئن سٹائن کے  نظریات کُلّی طور پر اعتراضات کی زد میں تھے۔ اس پر مستزاد آئن سٹائن نے روشنی کے بارے میں جو تصور قائم کررکھا تھا وہ بھی ابھی نئی دنیا کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا 1924 تک سائنسدانوں نے آئن سٹائن کے فوٹانز کو تسلیم نہ کیا یہاں تک کہ ایک ہندوستانی (بنگالی) سائنسدان ’’ست ییندراناتھ بوز‘‘ نے ’’پلانک سپیکٹرم‘‘ کی ریاضی سے ثابت کردیا کہ آئن سٹائن کا ’’تصورِ فوٹان‘‘ درست ہے

1921 میں آئن سٹائن رائل سوسائٹی آف سائنسزلندن کا غیر ملکی ممبر منتخب ہوگیا۔1925 میں آئن سٹائن کو رائل سوسائٹی کی طرف سے ’’کوپلی ایوارڈ‘‘(Copley Medal) دیا گیا۔

2اپریل 1921 کو آئن سٹائن پہلی بار نیویارک گیا جہاں اُسے سرکاری طور پر خوش آمدید کہا گیا۔آئن سٹائن کا یہ دورہ تین ہفتوں کا تھاجس میں جگہ جگہ لیکچرز اور استقبالیوں کا اہتمام تھا۔ان لیکچرز میں ’’کولمبیا یونیورسٹی کے لیکچرز‘‘ اور ’’پرنسٹن یونیورسٹی کے لیکچرز‘‘ کا ایک سلسلہ تھا۔

اسی دورے میں آئن سٹائن وائٹ ہاؤس بھی گیا جہاں ’’نیشنل اکیڈمی آف سائنس‘‘ کے نمائندوںکے ساتھ آئن سٹائن نے کچھ وقت گزارا۔

یورپ واپسی پر بھی آئن سٹائن برطانوی حکومت کا سرکاری مہمان تھا۔لندن میں برٹش سٹیٹس مین اورفلسفی ’’وِسکاؤنٹ ہالڈین‘‘ (Viscount Haldane)  کو آئن سٹائن کا خصوصی میزبان مقرر کیا گیا۔ انگلستان میں بھی آئن سٹائن کی مختلف سائنسدانوں، فلسفیوں، سیاستدانوں اورمشہورلوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ رہا۔اِسی دوران’’ کِنگز کالج لندن‘‘ میں آئن سٹائن نے ایک لیکچر بھی دیا۔

جولائی1921میں آئن سٹائن نے ایک آرٹیکل شائع کیا جس کا عنوان تھا، ’’مائی فرسٹ امپریشن آف دہ یوایس اے‘‘جس میں آئن سٹائن نے امریکیوں کے کچھ وصائف مختصراً بیان کیے۔

آئن سٹائن نے لکھا کہ،

’’ایک وزٹر کے لیے جو بات خوشگوار ہے وہ امریکیوں کا زندگی کےبارے میں مثبت رویّہ ہے امریکیوں کا انداز دوستانہ ہے، وہ خوداعتمادی کے مالک ، پُراُمید اور حسدسے پاک لوگ ہیں‘‘

1922 میں آئن سٹائن نے ایشیا خصوصاًفلسطین کا سفر کیا۔وہ سنگاپور، سیلون اورجاپان بھی گیا۔جاپان میں آئن سٹائن نے بڑے بڑے سیمیناروں میں لیکچرز دیےجن میں ہزاروں کی تعداد میں جاپانی شہری شریک ہوئے۔ اپنے پہلے عوامی لیکچر کے بعدآئن سٹائنشاہِ جاپان کا مہمان ہوا جہاں وہ شاہِ جاپان اور ملکہ ٔجاپان سے ملا۔ 1922آئن سٹائن کو نوبل پرائز ملنے کا سال بھی ہے۔

چونکہ آئن سٹائن مشرق کے طویل دورے پر نکلا ہوا تھا اس لیے آئن سٹائن نوبل پرائز وصول کرنے خود نہ آسکا۔

فلسطین میں آئن سٹائن نے بارہ دن قیام کیا۔یہاں آئن سٹائن کا شاہانہ طریقے پر استقبال کیا گیا۔ برٹش ہائی کمشنر کی رہائش گاہ پر آئن سٹائن کو توپوں کی سلامی دی گئی۔ یہ ایک سائنسدان کا استقبال تھا، کسی حکمران یا تاجور کا استقبال نہ تھا۔ ہزاروں لوگ آئن سٹائن کو دیکھنے اور سننے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اپنی تقریر میں آئن سٹائن نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ’’یہود اب دنیا میں ایک طاقت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں‘‘۔

1930 میں آئن سٹائن دوبارہ امریکہ گیا۔اس بار آئن سٹائن دوماہ کے ویزے پر  ’’کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘‘ کے ریسرچ فیلوکی حیثیت سے امریکہ وارد ہوا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔