آئیے ہمسفرِ صفہ بنیں!

وردہ صدیقی

اللہ رب العزت نے جہاں انسانوں کو پیدا فرمایا وہاں ان کی ہدایت کے لئے انبیا ء کرام کو اپنا پیغام رساں بنا کر مبعوث فرمایا۔ تاکہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ اللہ نے انہیں کس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے  اور زندگی کیسے گزارنی ہے؟

انسان کی زندگی کا مقصد اللہ وحدہ لاشریک اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور نبی کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرنا ہے۔ جو ایمان لے آیا وہ شخص کامیاب ہوگیا مگر اسلام صرف کلمہ پڑھنے تک محدود نہیں بلکہ ہر کلمہ گو پر لازم ہے کہ ان احکامات کو جاننے کی کوشش کرے جو اللہ کے نبی لے کر آئیں ہیں۔ علم دین حاصل کرے۔

 علم دین حاصل کرنے والوں کی شان قران مجید میں یوں بیان ہوئی۔۔

ترجمہ: کہہ دیجئیے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے کیا (دونوں )برابر ہوسکتے ہیں۔(القرآن)

 علماء  و فقہا ء کے نزدیک اس بات پر اتفاق ہے کہ مرد وعورت پر اتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے جس سے وہ حلال وحرام، پاکی وناپاکی میں فرق و تمیز کر سکے۔

” فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ جو شخص علم کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اللہ  اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں”(رواہ مسلم )

طالب علم کی فضیلت

نبی پاک ﷺنے فرمایا: طالب علم کو فرشتے ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں اور اپنے پروں کے سایہ میں اسے لے لیتے ہیں۔ (رواہ احمد )

اللہ تعالیٰ جس کو پسند فرما لیتے ہیں اسے نبی کا وارث بنا دیتے ہیں۔ اس پر حدیث مبارکہ گواہ ہے۔ ” اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا معاملہ اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں (رواہ الطبرانی)

آج کے دور میں دین کا علم سیکھنے کے لئے ہمیں علما ء و صلحا ء کی صحبت میں آنا پڑے گا، ان کے پاس جانا ہوگا، مساجد ومدارس میں وقت لگانا ہوگا، تاکہ ہم جان سکیں کہ ہمارا رب ہم سے کیا چاہتا ہے۔

کلمہ پڑھنے کے بعد کون کون سے احکام فرض ہوجاتے ہیں؟، کیا واجب ہے کیا مکروہ۔ ۔۔۔۔؟ کیا حلال ہے کیا حرام۔۔۔۔۔۔۔؟ زندگی کیسے گزارنی ہے ؟؟ اللہ کی رضا اور جنت کن اعمال سے ملے گی اور وہ کون سے اعمال ہیں جو اللہ کے غضب کو دعوت دیتے اور جہنم میں پہنچانے والے ہیں؟۔ ان سب باتوں کا علم ہمیں دینی مدارس میں جانے اور وہاں تعلیم حاصل کرنے سے ہوگا۔

  دراصل دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں۔ جب تک یہ ہیں فیضانِ نبوت جاری وساری رہے گا کوئی ان کو مٹا نہیں سکتا۔

  اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

  یہ اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ دباو گے

تاریخ گواہ ہے کہ ان کو مٹانے والے خود مٹ گئے ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا مگر مدرسے آج بھی پوری آب وتاب سے قائم ودائم ہیں۔ کیوں نا ہوں کہ ان کے بانی خود حضرت محمدﷺہیں، مکہ میں دار ارقم پہلا مدرسہ بنا، مدینہ آکر مسجد نبوی میں اصحاب صفہ نے پہلا مدرسہ سجایا۔ یہاں سے علم کا نور لے کر شاگردان محمدﷺ دنیا کے کونے کونے میں پہنچے اور قال اللہ اور قال رسول کی صدائیں بلند کیں۔

آپﷺ کے عظیم شاگردوں کے بعد ان کے شاگرد تابعین، تبع تابعین، علماء وصلحا ء نے درجہ بدرجہ اس سلسلے کو آگے بڑھایا اور یہ دین آج زندہ ہے ان علما ء کے صدقے سے۔۔۔۔ جنہوں نے علوم نبوت کی اشاعت و تبلیغ، درس و تدریس کے لئے مسلسل جدوجہد کی اور اس کوشش میں بہت سی مشقتیں اٹھائیں۔ ۔۔۔۔ تکلیفیں سہی۔۔۔۔ آزمائشیں برداشت کیں۔ ۔۔ لیکن وہ ڈٹے رہے اور اس سلسلے کے ساتھ جڑے رہے اور اپنی زنذگیاں اسی جدوجہد میں گزار دیں۔

 ایسے ہی ایک مشہور شخصیت پیر طریقت رہبر شریعت امام الزاہدین والعارفین حضرت مولانا قاضی زاھد الحسینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے کی کڑیوں سے کڑی ملاتے ہوئے وقت اور حالات کے پیش نظر اٹک شہر میں تشنگان علوم اسلامیہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے خصوصاً بنات کے مدرسے کی بنیاد رکھی۔یہ سلسلہ یوں ہی جاری تھا کہ اس علم وعمل کے آفتاب نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ نور اللہ مرقدہ۔

حضرت کی وفات کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ فخر العلما والصلحاء حضرت مولانا قاضی ارشد الحسینی دامت برکاتھم العالیہ نے دعوت و تبلیغ، درس وارشاد کی اس ذمہ داری کو بحسن خوبی اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ حضرت مولانا قاضی ارشد الحسینی دامت برکاتھم العالیہ نے اپنے فرزند ارجمند نور نظر شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی اسعد الحسینی دامت برکاتھم و فیوضھم کے جامعہ علوم الاسلامیہ بنوری ٹائون کراچی سے سندفراغت حاصل کرنے کے بعد دوبارہ نئے سرے سے وفاق المدارس العربیہ کی ترتیب کے ساتھ اس سلسلے کوشروع کیا۔ اس کے لئے ایک بہترین بلڈنگ بھی مختص کی جس میں درس نظامی کے تمام درجات، دراسات، حفظ، ناظرہ بالتجوید اور اسکول کالجز و یونیورسٹیز کی طالبات کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے روزہ کورس کروائے گئے جس سے سینکٹروں طالبات نے استفادہ حاصل کیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ حضرت کے جامعہ حمیدہ للبنات کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ کتب احادیث کو سال کے اندر اندر مکمل کرنے پر زور نہیں ہوتا بلکہ روایتی انداز سے ہٹ کر کے محققانہ و محدثانہ انداز میں احادیث مبارکہ پڑھائی جاتی ہیں۔ کبھی حدیث ومحدث پر تحقیقات کروائی جاتی ہیں تو کہیں مسائل کے استنباط کا سلیقہ سیکھایا جاتا ہے۔

پیچیدہ مسائل کو مختصر اور جامع انداز میں طالبات سے اس انداز میں حل کروایا جاتا ہے کہ ذہن میں موجود اشکالات کی گتھلیاں خود بخود حل ہوجاتی ہیں۔ فراغت کے بعد عملی میدان میں اتار کر مکمل سر پرستی کی جاتی ہے یہی وجہ ہے اس جامعہ کی کئی فارغ التحصیل طالبات مختلف جگہوں پر دین کا کام کررہی ہیں۔

 میں نے بھی دورہ حدیث شریف اسی گلشن سے کیا۔ عملی طور پر میں نے اسے ایسا ہی پایا۔ زمانہ طالب علمی کا یہ دور میرا بہت ہی سنہرا دور رہا جہاں اساتذہ کرام نے علم کی مالا و حکمت کے تاج پہنائے وہاں عمل کے زیور سے بھی آراستہ کیا۔ عمل واخلاق میں اس کا کوئی ثانی نہیں دیکھا۔ معلمات کا انداز گفتگو اور مہتممہ صاحبہ کی ادا سے جھلکتا عمل دوسروں کوبھی عمل کی دعوت دیتا ہے۔

 آج ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ دینی علوم خصوصاً احکامات قرآنیہ اور ارشادات نبویہ اور فقہی مسائل سے ناواقفیت و جہالت پائی جاتی ہے۔ علم وعمل اور بہترین اخلاق مفقود ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی تحصیل و تعلیم و تعلم کی بیحد ضرورت ہے اور اسی ضرورت کے پیش نظر جامعہ حمیدہ للبنات اٹک شہر کا یہ ادارہ اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ آئیے علوم نبوت سیکھئے۔۔۔۔ دینی مسائل و احکامات جانئیے۔۔۔۔ علم کے نور سے اپنے سینے کو منور کیجئے۔ آپ کی رہنمائی کے لئے یہ ادارہ ہمہ وقت چاک وچوبند موجود ہے۔ جامعہ حمیدہ کے نئے سال کے داخلے جاری ہیں۔ نہایت محدود داخلے ہوتے ہیں لہذا پہلے آئیں پہلے پائیں  پر عمل کرتے ہوئے جلدی کیجئے۔ آج ہی اس نیک کام کی جانب قدم بڑھائیے۔

اللہ پاک مدارس دینیہ کی حفاظت فرمائے اور گلشن حسینہ جامعہ حمیدہ للبنات کی دینی وملی خدمات کو قبول فرمائے (آمین )

تبصرے بند ہیں۔