آر۔ جے۔ محسن نواز : نگاہِ مرد مومن کی زندہ تفسیر

علیزے نجف

(سرائے میر اعظم گڑھ اتر پردیش)

ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ  اے۔ پی ۔ جے عبد الکلام نے ایک بار کہا تھا کہ آسمان اس پرندے کا نہیں ہوتا جس کے بازو بڑے ہوتے ہیں بلکہ آسمان اس پرندے کا ہوتا ہے جس کے بازوؤں میں حوصلوں کی اڑان ہوتی ہے ‘ بے شک یہ صد فیصد درست حقیقت  ہے کہ زندگی کو صرف حوصلوں اور عزم و ہمت سے ہی کامیاب بنایا جا سکتا ہے کیوں کہ زندگی میں مشکلات کا ہونا یقینی ہے ہر انسان کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان میں سےکچھ ایسے ہیں جو ان مشکلات کے سامنے سپر ڈال دیتے ہیں اور کچھ ایسے جو کہ حسب ضرورت ہی اپنے آپ کو عزم و ہمت کے ایندھن سے آگے بڑھاتے ہیں مطلب وہ گذارا کئے جانے کی حد تک ہی کوشش کرتے ہیں بہت کم تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو ہر طرح کے حالات کا پامردی سے نہ صرف مقابلہ کرتے ہیں بلکہ اپنی سعی مسلسل سے زندگی کے مصائب کو شکست دے کر ایک کامیاب انسان کی صورت میں اپنا لوہا منوا لیتے ہیں حالات کیسے بھی ہوں ان کے حوصلے چٹان کی طرح اپنی جگہ اٹل ہوتے ہیں یہ کامیابی و کامرانی اس وقت اور بھی زیادہ قابل ستائش بن جاتی ہے جب مختلف قسم کی disabilities کے باوجود وہ انسان اپنے عزم و حوصلے سے اپنی کامیابی کی داستان خود رقم کرتا ہے ایسے کردار ہمارے معاشرے کے لئے کسی اثاثے سے کم نہیں یہ وہ مشعل راہ ہوتے ہیں جو بہتوں کے لئے سنگ میل بن جاتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکثر لوگ ایسے کرداروں کو  ماورائے حقیقت یا دیو مالائی کہانیوں کا کوئ معجزاتی کردار  خیال کر لیتے ہیں  اس طرح سے کہ یہ ان کی قسمت تھی جس نے اسے فرش سے عرش تک پہنچا دیا ایسے خوبصورت حادثے ہم جیسوں کے ساتھ تو واقع ہونے سے رہے جب کہ یہ سارے نفسیاتی پیچ و خم ہیں جس پر کہ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارے معاشرے پہ اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ جگ ظاہر حقیقت عیاں ہو ہی جاتی ہے کہ لوگ کس قدر نفسا نفسی کی زندگی جی رہے ہیں اور کچھ لوگ حالات کے زیر قابو ہیں تو کچھ لوگ حالات کو قابو کرنے کی جدو جہد میں مصروف ہیں وہیں دوسری طرف اگر ہم گہرائی کے ساتھ مشاہدہ کریں تو  ہمارے ارد گرد  کچھ ایسے باکمال لوگ بھی نظر آئیں گے جنھوں نے کامیاب زندگی کی حصول کی راہ میں اپنی کسی بھی قسم  کی disabilities کو آڑے نہیں آنے دیا ان کی زندگی عام انسانی زندگی سے قدرے مختلف ہونے کے باوجود کامیابی کی بلندیوں کو سر کرتی نظر آ رہی ہے جو کہ انسانی قوم کے لئے ایک سنگ میل ہے ایک ایسی ہی زندہ و تابندہ مثال محسن نواز کی شخصیت ہے جو عزم و ہمت کی زندہ مثال کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے۔

محسن نواز جن کی پیدائش پاکستان کے شہر سرگودھا میں ہوئی ان کی پیدائش بالکل نارمل بچے کی طرح ہوئی ان کے اعضائے رئیسہ بلکل صحتمند تھے وہ دو بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے ابھی وہ دو سال ہی کے تھے جب پولیو کی وجہ سے ان کے دونون پیر مفلوج ہو گئے یہ ایک ایسا حادثہ تھا جو کہ اس بچے اور اس کے ماں باپ کے لئے کسی اندوہناک سانحے سے کم نہیں تھا اور بیٹا بھی جو کہ اکلوتا تھا لیکن سچ ہے کہ قدرت کے فیصلے سے فرار کب ممکن ہے اور زندگی ایسے ہی ناقابل قیاس حادثے سے گندھی ہوئی  ہے  اس کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے انتہائی علاج و معالجہ کے باوجود محسن اپنے پیروں پہ کھڑے نہ ہو سکے یہی وجہ تھی کہ محسن نواز کا بچپن عام بچوں سے قدرے مختلف رہا ہے انھیں اللہ نے بےشمار ذہنی صلاحیتوں سے نوازا تھا تعلیم ان کے لئے دلچسپ مشغلے کی طرح تھی ان کے سیکھنے کی صلاحیت کمال کی تھی اور جدوجہد اور عزم و لگن ایک اضافی کی خوبی کی صورت ان کی شخصیت کا خاصہ تھی  ان کے ماں باپ نے ہمیشہ انھیں encourage کیا اور بہنیں دست راست کی طرح ان کے ساتھ ساتھ تھیں اس family co- operation کی مدد سے انھوں نے اپنی اس کمی کو مثبت ذہن کے ساتھ قبول کر لیا اور اس پیرالائزیشن سے رفتہ رفتہ ہم آہنگ ہونے اور پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے اسی اثنا میں تیرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ایک دوسرا جانکاہ حادثہ رونما ہوا اور وہ تھا بصارت کا کھو جانا واقعی یہ اپنے آپ میں ایک بڑی محرومی تھی ایک بچے کے لئے جس نے اپنے حوصلوں کو شکستگی کی دھند سے ابھی نکالا ہی تھا اگر اس وقت کے ان کے احساسات و جذبات کو ہم تصور کریں تو واقعی یہ ایک ناقابل تلافی دکھ تھا کہتے ہیں نا قدرت کے فیصلے کی اپنی ہی مصلحت ہوتی ہے جس کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے اور قدرت کے پاس اس کا نعم البدل بھی موجود ہوتا ہے اور تلافی کے امکانات بھی اور صورتحال کچھ بھی ہو اگر حوصلے چٹان ہو جائیں تو معجزوں کو واقع ہونا ہی پڑتا ہے۔

اگر ہمت کرے پھر کیا نہیں انسان کے بس میں
یہ ہے کم ہمتی جو بےبسی معلوم ہوتی ہے 

جب یہ محرومی ان کے حصے میں آئی تو ابتداء ً وہ بہت ہرٹ ہوئے اور شاید کہیں نہ کہیں انھوں نے خود کو بےبسی کے دہانے پہ محسوس کیا جو کہ فطری ردعمل تھا انسان اپنی فطرت کے اعتبار صرف پانا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کھونے پہ کبھی راضی نہیں ہوتا۔

عزم و ہمت کا شاہکار یہ انسان جسے ہم محسن نواز کہتے ہیں انھوں نے اس مشکل کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا  اگرچہ یہ آسان نہیں تھا کیوں کہ disable لوگوں کے جذبات کو لوگ کس طرح مجروح کرتے ہیں اس سے ہم میں سے ہر کوئی ناواقف ہوگا جبکہ یہ multi disable تھے ایسے میں ان کی دلگرفتگی جائز تھی وہ خود کہتے ہیں کہ لوگ مجھے اس حالت میں دیکھ کر میری ماں سے اظہار تاسف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ ایک خاتون نے ان کی ماں سے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ دعا کریں کہ اللہ اس بچے کو آپ کی زندگی میں ہی اپنے پاس بلا لے محسن نواز کہتے ہیں کہ میں گھر کے دوسرے حصے میں ان خانوں کی گفتگو سن رہا تھا اور اس نے میرے دل کی دنیا تہہ و بالا کر دی  میں مرنا نہیں چاہتا تھا  میں بھرپور طریقے سے زندگی جینا چاہتا تھا جو کہ میرا حق تھا لوگوں کے ایسے انداز اور جملے مجھے اذیت میں ڈال دیتے تھے  اور میں نے اس دن تہیہ کر لیا کہ میں اپنی زندگی کو ضائع نہیں ہونے دوں گا اسے بامقصد بناؤں گا کیوں کہ خدا نے کسی کو بھی بےکار پیدا نہیں کیا ہے یقننا میری تخلیق بھی ایک مقصد کے تحت ہی ہوئی ہے مجھے اس کو دریافت کرنا ہوگا اس کے بعد ان کی زندگی کا رخ یکسر بدل گیا ۔ محسن نواز نے اپنے آپ کو اس محرومی کے اندھیرے میں گم نہیں ہونے دیا بلکہ اپنی صلاحیتوں کی روشنی سے نہ صرف انھوں نے خود کو دنیا کا سامنا کرنے کے لئے تیار کیا بلکہ انسانی قوم کا ایک عظیم سرمایہ بن گئے حادثے واقع ہوتے گئے اور محسن نواز ردعمل معمولی سے غیر معمولی ہوتا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ میں نے سات سال کی عمر میں ادب و سیاست کو پڑھنا شروع کر دیا تھا اور ریڈیو کے پروگرام بہت شوق سے سنتا تھا جب کہ اس عمر کے بچے کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ سیاست اور ادب کسے کہتے ہیں میں نے اس عمر سے ہی اپنے آپ کو تعمیری کاموں  کی طرف مائل کر دیا تھا جب بینائی کی چلے جانے سے میری دنیا گھر تک  ہی محدود ہوگئ تو میں بہت ہی دکھی اور غمزدہ رہنے لگا ایسے میں میری تنہائی کی ایک دوست بانسری تھی جس کے ساز میری دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا کرتے تھے  اور دوسرا ریڈیو جس کے ذریعے میں باہر کی دنیا سے جڑا ہوا تھا ایسے مایوس کن ماحول میں میرے ماں باپ اور بہنیں میری غمگسار اور ہمنوا تھیں انھوں نے مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑا ان کی مدد سے اور اپنی ہمت ، لگن اور صلاحیتوں کے ذریعے میں اپنی زندگی کو ایک با مقصد رخ دینے میں کامیاب ہو گیا۔

انھوں نے سات سال کی عمر سے کہانیاں لکھنی شروع کی تھیں جو کہ اس وقت کے میگزین میں شائع ہوتی تھیں انھوں نے ایک موقع پہ کہا کہ میری کہانیاں شائع ہوتی مجھے بہت خوشی ہوتی تھیں لیکن اس وقت میں اداس ہو جاتا جب بصارت کے چلے جانے کی وجہ سے میں اسے پڑھنے سے قاصر ہو گیا تھا  رفتہ رفتہ ان کی یہ صلاحیت پروان چڑھتی گئ  اور نہایت ہی ہمت اور حوصلے کے ساتھ زندگی کے چلینجز کا سامنا کیا اور ساتھ اپنی پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری رکھا اپنے والد کی  مدد سے type writer کے ذریعے سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا  اور پھر بعد میں  Braille system کی مدد سے وہ لکھتے بھی رہے academic content کو وہ cassettes میں ریکارڈ کروا کر سنتے تھے  ان کے اندر اللہ نے کمال کی صلاحیتیں رکھی تھیں ان کی خود اعتمادی ایمان و ایقان spirit of learning جیسی خصوصیات نے ان کی شخصیت کو گہن نہیں لگنے دیا اور  ان کی ذات کی ایک خوبی ان کی پرفسوں آواز تھی جو کہیں نہ کہیں ان کی شناخت کی وجہ بھی بنی جس نے ان کو محسن نواز سے RJ Mohsin Nawaz بنا دیا ان کی آواز میں ایک سحر ایک تاثیر تھی ریڈیو کے سننے کے دوران وہ بطور کالر فون کرتے تو ان کی آواز کی انفرادیت سامعین کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی تھی یہیں پہ ہی وہ اپنی شریک حیات ماریہ سے ملے وہ کہتے ہیں کہ ماریہ میری زندگی میں کسی خوشگوار ہوا کے جھونکے کی طرح شامل ہوئیں ابتداء ً ہم ایک بہترین دوست تھے وہ کہتے ہیں کہ ایک موقع پہ ماریہ نے مجھ سے کہا کہ  آپ کی زندگی کا بھی کوئ ساتھی ہونا چاہئے جو زندگی کے نشیب و فراز میں آپ کے قدم سے قدم ملا کے چل سکے ماریہ نے اس سلسلے میں عملی کوششیں بھی کیں حسب منشاء نتائج نہیں ملنے کے بعد انھوں نے خود فیصلہ کیا کہ یہ فریضہ مجھ سے بہتر کوئن نہیں نبھا سکتا یوں وہ ان کے ساتھ شریک سفر ہوگئیں وہ ان کے لئے ایک بہترین کاؤنسلر بھی تھیں اور غمگسار بھی جنھوں نے ان کی زندگی کو مکمل کردیا اور ان کو دو بچوں کی نعمت سے نوازا ماریہ نے واقعی ان کی بیوی اور دوست ہونے کا حق ادا عملی صورت میں ادا کیا اور معاشرے کو یہ پیغام دیا کہ multi disable لوگ معاشرے پہ بوجھ نہیں بلکہ وہ بھی ایک عام فرد کی طرح اپنی صلاحیتوں سے معاشرے تعمیر و تشکیل میں اپنا نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اپنی بےپایہ محنت کی وجہ سے محسن نواز ترقی کے منازل طئے کرتے گئے وہ باقاعدہ ریڈیو پروگرام FM 103  بھی کرنے لگے اور ماریہ بھی وصال کے نام سے ریڈیو پروگرام میں محسن نواز کے ساتھ برابر کے ساتھ شریک ہوتیں  انھوں نے اس کے ذریعے بہتیرے نامور اور باکمال لوگوں کے انٹرویوز لئے اور سامعین کو محظوظ کیا اس  وقت وہ willing ways  میں P.R. excutive director کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں وہ ایک بہترین motivational speaker بھی ہیں اور کاؤنسلر بھی ہیں۔

میں نے بیشتر پروگرام میں ان کے خیالات و نظریات سنے ہیں بےشک ان کے خیال کی گہرائی اور نفسیاتی آگاہی قابل تعریف ہے انھوں نے نہ صرف خود زندگی کو جیا بلکہ بےشمار لوگوں کی مایوس زندگی میں امید کی کرن جلائی ہے۔

Multi disabilities کے ہوتے ہوئے انھوں نے جس طرح سے زندگی کے چیلنجز کا سامنا کیا ہے ان کی اس صلاحیت اور سماجی خدمات کا اعتراف نہ صرف ملکی سطح پہ کیا گیا ہے بلکہ غیر ملکی سطح پہ بھی ان کی ایک منفرد پہچان ہے وہ دنیا کے پہلے ایسے آر۔جے ہیں جو multi disable ہونے کے باوجود کامیابی   کے ساتھ اپنے فرائض انجام دئیے اور انھیں ان کی خدمات کے اعتراف میں متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے  willing ways کے بانی ڈاکٹر صداقت علی نے ایک بار محسن نواز  کے بارے میں کہا تھا کہ میں نے کبھی بھی انھیں سست اور اداس نہیں دیکھا محسن ہمیشہ ہی نظم و ضبط  کے پابند ہشاش بشاش نظر آئے  محسن نواز ڈاکٹر صداقت علی کے لئے بالکل ایک دست راست کی طرح ہیں  انھوں نے ہمیں یہ سمجھایا کہ ایک بڑے ادارے میں اپنی جگہ بنانے کے لئے جسمانی سالمیت سے زیادہ ذہنی قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔

محسن نواز کی پوری زندگی ہمارے لئے ایک مہمیز کن سبق سے کم نہیں ہمیں نہ صرف ایسے لوگوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہئے بلکہ خود کو بھی کارہائے نمایاں انجام دینے  کی طرف مائل کرنا چاہئے زندگی ایک نعمت ہے اس نعمت کا بہترین استعمال اسے بامقصد بنا کے ہی کیا جا سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔