خواتین کے مسائل اور حل : موجودہ حالات کے تناظر میں

سہیل بشیر کار

دین اسلام پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں ایک بڑا اعتراض خواتین کے حقوق کو لے کر ہے۔ اگرچہ ان اعتراضات کا علمی جائزہ اہل علم نے ہمیشہ لیا ہے، لیکن اُن اعتراضات کا محاکمہ اکثر مرد مفکرین نے کیا ہے۔ ادھر  گزشتہ کئی سالوں میں مسلمانوں کے ہاں ایک بڑی تعداد میں خواتین اس سلسلے میں آگے آئی ہیں؛ جنہوں نے ان اعتراضات کا جائزہ بھی لیا ہے، اور جواب بھی دیا ہے۔ ازاں جملہ باقاعدہ عملی پروگرام بھی نہ صرف پیش کئے ہیں بلکہ عملاً کامیابی سے منعقد بھی کیے ہیں۔ اہل علم خواتین کی طرف سے جو جوابات دیںۓ گیۓ یا پروگرام عملا لیے گیے ہیں ان کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ چند روز قبل معلوم ہوا کہ بہن بشریٰ ناہید نے "خواتین کے مسائل اور حل” نام سے ایک کتابچہ لکھا ہے، کتاب کی مصنفہ گراونڈ لیول ورکر ہے اور ظاہر ہے مسائل کے ساتھ اکثر واسطہ بھی پڑھتا ہوگا اس لیے کتابچہ کو دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا۔ کتاب دیکھنے سے قبل یہی اندازہ تھا کہ وہی مضامین ہونگے جن پر اکثر بات ہوتی ہے اور مصنفہ نے کئی نئے تجربات سے جواب دیا ہوگا لیکن فہرست پر نظر پڑی تو پایا کہ اس میں مختلف مضامین پر لکھا گیا ہے۔ بہن بشریٰ ناہید نے 32 صفحات کے کتابچہ کو پانچ  عنوانات کے تحت تقسیم کیا ہے :

1) بھارت کی اخلاقی صورت حال اور خواتین۔ 2) ڈے کلچر۔ 3) بچوں  اور مردوں میں بڑھتا نشے کا رجحان اور خواتین کے مسائل و ذمے داریاں۔ 4) مطلقہ کی معاشرتی و معاشی زندگی۔ 5) ومن امپاورمنٹ  ہر مضمون میں مصنفہ کی کوشش رہی ہے کہ ڈاٹا پیش کیا جائے اور مضامین میں جہاں مسائل بیان کیے گئے ہیں وہی ان کا اسلامی حل بھی پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے بارے میں اس موضوع کے ماہر اور برصغیر کے فقیہ ڈاکٹر رضی اسلام ندوی لکھتے ہیں: "یہ مضامین بہت سلیس اسلوب اور عام فہم انداز میں لکھے گئے ہیں اور ان میں اہم سماجی مسائل کو زیرِ بحث لایا گیا ہے _ اہم بات یہ ہے کہ ایک حسّاس اور درمند دل رکھنے والی خاتون نے ان پر خامہ فرسائی کی ہے۔ "

مصنفہ کتابچہ کے پہلے باب "بھارت کی اخلاقی صورتحال اور خواتین ” میں لکھتی ہے کہ جہاں ہندوستان نے ترقی کے کئی منازل طے کیے ہیں وہی ان ترقیوں کے نام پر بہت سے اخلاقی بگاڑ بھی پیدا ہوئے ہیں خاص طور پر خواتین کو لیکر، ایک طرف خواتین کی ترقی کی بات ہو رہی ہے وہی مردوں اور خواتین کے تناسب میں بہت فرق ہے اور مصنفہ ڈاٹا کے ذریعے بتاتی ہے کہ یہ مسائل پسماندہ طبقات میں ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ شہروں میں بھی ہے۔ بشریٰ لکھتی ہیں: "عام طور پر پر یہ رجحان پایا جا تا ہے کہ اس طرح کی اخلاقی پستی صرف نچلی ذات’ پسماندہ طبقات اور نا خواندہ لوگوں میں ہی زیادہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پونہ ڈومبیولی امراؤ تی وغیرہ جیسے شہروں میں آباد تعلیم یافتہ طبقات میں مرد و خواتین کا تناسب 743/1000 ,847/1000 اتنا کم ہے اور یہ عدم توازن دختر کشی کے باعث ہے۔ "(صفحہ 6) معاصر خواتین کے  مسائل کے بارے میں لکھتی ہیں: "ملک میں عصمت دری کے کئی واقعات درج ہی نہیں ہوتے۔ ملک بھر میں بچوں پر ریپ کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں اوسط 18 ہزار سے زائد عصمت دری کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ صرف ممبئی شہر میں خواتین پر ہونے والے تشدد مثلاً چھیڑ خانی، عصمت دری، جہیز کی بنا پر ہونے والی اموات کا تناسب تشویشناک ہے۔ زیادہ تر واقعات تو بد نامی کے خوف سے درج ہی نہیں کئے جاتے ہیں۔ "(صفحہ 6)

 مصنفہ دوسرے مذاہب اور اسلام میں ان مسائل کے حل کا تقابل کرکے عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کرتی ہے کہ ان سب مسئلوں کا حل صرف اور صرف اسلام کی تعلیمات میں ہے، مصنفہ لکھتی ہیں:” مذہب اسلام نے عورت کو صرف باعزت مقام ہی نہیں دیا ہے بلکہ اس کے حقوق کا تحفظ بھی کیا ہے۔ بیواؤں کو دوسری شادی کی اجازت دے کر حرام کاری سے بچایا ہے۔ خلع کا حق دے کر زبردستی کے بندھن سے آزاد ہونے کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ بعض اوقات زبردستی  کے اس بندھن سے چھٹکارا پانے کے لئے شوہر بیوی کا قتل کر دیتا ہے یا اسے اتنا ستایا جا تا ہے کہ مجبوراََ وہ خودکشی کر لیتی ہے۔ "(صفحہ 8)

یہ جو عالمی پیمانے پر دن منانے کا سلسلہ چل پڑا ہے اس سلسلے میں کتابچہ میں دوسرا مضمون” ڈے کلچر "کے عنوان کے تحت لکھا ہے، مصنفہ کا ماننا ہے کہ اس ڈے کلچر کا بنیادی مقصد مغربی معیشت کو فروغ دینا ہے لکھتی ہیں:”درحقیقت اس ڈے کلچر کے فروغ کے پیچھے مغربی معیشت کارفرما ہے۔ مغربی ممالک مندی کا شکار ہیں۔ ان کے عوام ضروریات ولوازمات سے جڑی ہر چیز کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ عوام خرید خرید کر بھی کتنا خریدے گی اس لئے انہوں نے یہ راہ نکال لی کہ کیوں نہ ایسی چیزوں کو فروغ دیا جائے جو ہر سال خریدی جا سکے اور اس کیلئے ‘ویلینٹائن ڈے’، ‘روز ڈے’، ‘فرینڈ شپ ڈے’، ‘آئی وانٹ ٹو سے ڈے’ سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے۔ "(صفحہ 10) اس کے بعد مصنفہ اس ڈے کلچر سے پیدا ہونے والے مسائلِ کا حل دین اسلام میں بتاتی ہے۔ راقم کا ماننا ہے کہ اس ڈے کلچر کے اگرچہ بہت نقصانات ہیں لیکن اس کے کئی فوائد بھی ہیں ، جو بھی دن سائنس یا ماحولیات کے لیے منایا جاتا ہے اس دن ان موضوعات پر بہت سی انفارمیشن دی جاتی ہے جس سے نوع انسانی کو فائدہ ہوگا۔

کتابچہ کے تیسرے باب میں بشریٰ ناہید” بچوں اور مردوں میں بڑھتا نشے کا رجحان اور خواتین کے مسائل و ذمہ داریاں "کے تحت لکھتی ہیں کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین نشہ نہیں کرتی اگر کرتی بھی ہے تو وہ ہائر کلاس کی خواتین ہیں ، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے، مصنفہ لکھتی ہیں: "ایسا سمجھا جا تا ہیکہ بھارت کی خواتین میں نشہ خوری کا مرض بہت کم پایا جا تا ہے۔ صرف ہائر کلاس کی چند خواتین اور جنگل میں رہنے والی کچھ خواتین نشہ کرنے کی عادی ہوتی ہیں۔ منشیات کے استعمال کا شوق یا عادت عموماً مردوں میں نظر آتی ہے۔ لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے اور بچے بھی اس کا شکار ہورہے ہیں۔ "(صفحہ 14) اگر اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے مصنفہ نے ڈاٹا دیا ہوتا تو مضمون اور بہتر ہو سکتا تھا، لیکن اس مضمون میں کوئی بھی ڈاٹا نہیں دیا گیا ہے، مصنفہ کا ماننا ہے کہ امت مسلمہ میں اس مرض کی بنیادی وجہ اردو شاعری میں بڑے دلکش پیرائے اور خوبصورت الفاظ کا استعمال کرکے شراب کا ذکر کرنا ہے، حالانکہ یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ جو بچے یا خواتین نشہ میں مبتلا ہوتے ہیں دیکھا گیا ہے کہ وہ اردو کے ان شعراء سے واقف ہی نہیں ہے۔ راقم نے اس سلسلے میں عملی کام بھی کیا ہے اور کسی بھی نشہ کرنے والے نوجوان میں شعراء کے اثرات دیکھنے کو مجھے نہیں ملے۔

 اسلام میں طلاق کی اجازت ہے اگرچہ اس کو پسند نہیں کیا گیا ہے، طلاق کے نتیجے میں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مطلقہ کافی مشکلات کا سامنا کرتی ہے، موجودہ معاشرہ میں طلاق یافتہ خواتین کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام سے تعصب رکھنے والے لوگ اس حوالے سے اعتراضات کرتے ہیں۔ کتاب کا چوتھا باب "مطلقہ کی معاشرتی و معاشی زندگی” کے عنوان کے تحت ہے، مصنفہ کہتی ہے کہ آج کل پرنٹ و سوشل میڈیا کی وجہ سے طلاق کے واقعات پر تبصرے فوراً پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں، اور اس طرح خواتین کے حقوق کے نام پر اسلام دشمن عناصر منفی پروپگنڈہ کرتے ہیں حالانکہ جن جوڑوں کے درمیان طلاق ہوتی ہے ان میں اکثر خواتین ہی طلاق چاہتی ہے مصنفہ لکھتی ہیں: "اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گذشتہ چند سالوں میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور زیادہ تر طلاق کی مانگ خود بیوی کی طرف سے ہورہی ہے۔ تامل ناڈو کی خواتین نے ہائی کورٹ میں RT I داخل کیا تو معلوم ہوا کہ تقریبا90 فیصد طلاق کا مطالبہ خودخواتین کی جانب سے ہوتا ہے۔ "اس کے بعد مصنفہ طلاق کے اسباب پر مختصر مگر جامع وجوہات بیان کرتی ہے۔ اس کے بعد اسلامی تعلیمات پر روشنی ڈالی ہے، عام طور پر مطلقہ کے نان و نفقہ کے حوالے سے بھی پروپگنڈہ کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام اس مسئلے کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ مصنفہ لکھتی ہیں:” طلاق کو عورت پر ظلم بتا کر اسلامی قوانین کے خلاف مرد سے نان و نفقہ کی حقدار ٹھہرایا جاتا ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے طلاق شدہ عورت ایام عدت گذارنے کے بعد اس کے باپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر باپ حیات نہ ہوتو بھائی اور بھائی بھی نہ ہوتو چاچا یا کوئی قریبی رشتہ دار اس کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائے گا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو یہ نہ بتادوں کہ افضل صدقہ کیا ہے؟ اس بیٹی پر صدقہ کرنا جوتمہاری طرف مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب واپس لوٹ آئی اور تمہارے سوا کوئی اس کا نہ ہو ( ابن ماجہ راوی حضرت سراقہ بن مالک )”(صفحہ 21)اتناہی نہیں مزید لکھتی ہیں” مطلقہ پر اس کے محرم رشتےدارخرچ کرتے ہیں تو یہ کوئی احسان نہیں بلکہ یہ ان کا فرض ہے ‘ ان کی ذمہ داری ہے اس کی ادائیگی پراجر ہے اور عدم ادائیگی پر باز پرس "(صفحہ 22)،مصنفہ اس مسئلہ کے حل کے لیے اسلام پسندوں پر زور دیتی ہے کہ وہ طلاق یافتہ خاتون کو باعزت زندگی گزارنے میں اپنا حق ادا کریں، اس سلسلے میں وہ مطلقہ یا بیوہ کو معاشی طور پر مستحکم ہونے پر زور دیتی ہے، ساتھ ہی وہ ان وجوہات کا جائزہ بھی لیتی ہے جن سے یہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ مصنفہ رقمطراز ہے: "عام طور پر مطلقہ اور بیوہ کے گھر والے اس کا دوسرا گھر بسانے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو خود مذکورہ خاتون اس کے لئے تیار نہیں ہوتیں بعد میں پچھتاتی ہے۔ شاید اس کے انکار کے پیچھے جو سوچ کارفرما ہوتی ہے اس کے لئے مسلم معاشرہ ہی ذمہ دار ہوسکتا ہے۔ یعنی بیوہ اور مطلقہ کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھنا۔ ان کی دوسری شادی کو بے شرمی پر محمول کرنا کسی مرد کی ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری بیوی بننے کو پہلی پر ظلم قرار دینا وغیرہ۔ اگر واقعی  یہ ظلم ہوتا تو سرور کائنات ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ کی حیات مبارکہ سے اس کی مثالیں نہ ملتیں۔ طلاق اور نکاح ثانی نہ صرف دور صحابیات بلکہ بعد کے ادوار میں بھی معمول کی بات رہی ، پھر رفتہ رفتہ اس کو معیوب سمجھا جانے لگا۔”(صفحہ 23)مزید لکھتی ہیں:” خود مرد کے نکاح ثانی کو ہوس پرستی یا بے حیائی سمجھا جانا جس کی وجہ سے مطلقہ اور بیوہ کے ساتھ نکاح ثانی سے بہت سے مرد رک جاتے ہیں۔ اگر چہ کہ وہ ثواب کی نیت سے بھی نیکی کرنا چاہتے ہوں لیکن معاشرے کا خوف آڑے آتا ہے۔ بعض اوقات مرد بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کر بھی لیتے ہیں لیکن اس کو رشتہ داروں سے پوشیدہ رکھتے ہیں گویا کہ انہوں نے کوئی ناجائز فعل انجام دیا ہے۔ مسلم معاشرے کی یہی سوچ باقی رہی تو مطلقه و بیوہ خواتین دوباره ازدواجی زندگی کا سکون حاصل کرنے سے محروم رہیں گی۔ کیونکہ اس طرح کی خواتین سے کنوارے لڑ کے تو نکاح کرنے سے رہے۔ اگر کئے بھی تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ عموماً لڑکوں کو کم سن اور حسین و جمیل لڑکی سے شادی کرنے کی خواہش ہوتی ہے "(صفحہ 23) اس مضمون میں مصنفہ امت مسلمہ کے افراد کو بار بار اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینے کی تلقین کرتی ہے۔

خواتین تقریباً آدھی آبادی ہے، ظاہر ہے اتنی بڑی آبادی کا کمزور رہنا کوئی بھی ترقی یافتہ معاشرہ متحمل نہیں ہو سکتا ہے، دین اسلام دین فطرت ہے ظاہر ہے اسلام کیلئے تعلیمات اس سلسلے میں واضح ہے، دور نبوی میں ہی وومن امپاورمنٹ کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے لیکن وقار کے ساتھ اور ایسے طریقے اپنائے گیے جن سے خواتین کی عزت بھی محفوظ رہے۔ وومن امپاورمنٹ کے خوشنما نام پر خواتین کا خوب استحصال کیا جارہا ہے، اکثر خواتین جو اسلام کی تعلیمات سے واقف نہیں ان پروپگنڈوں کا شکار ہوتی ہیں، "وومن امپاورمنٹ” نام سے مصنفہ نے  اپنی کتاب کا پانچواں باب لکھا ہے، اس باب میں ان کا ماننا ہے کہ اسلام خواتین کو علمی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے امپاور کرتا ہے، اس باب میں مصنفہ موجودہ صورتحال میں تینوں عنوانات کے تحت مثبت اور منفی دونوں پہلو بیان کرتی ہے, علمی صورتحال کے حوالے سے جو مثبت چیزیں سامنے آرہی ہے مصنفہ ان کے بارے میں لکھتی ہے: "عصر حاضر میں خواتین کی علمی صورتحال کا جائزہ لیا جاۓ تو ماضی کی بہ نسبت علمی اعتبار سے خواتین کچھ حد تک امپاور ضرور ہوئی ہیں۔ مسلم ہو یا غیر مسلم بالعموم تعلیمی نتائج میں بہ نسبت لڑکوں کے لڑکیوں کا تناسب زیادہ رہتا ہے۔ ” (صفحہ 25) البتہ تعلیمی بیداری کی لہر میں کچھ منفی چیزیں بھی آئی ہے خاص کر مغربی تہذیب کا غلبہ اس کے بعد مصنفہ نے حصول علم کے زرائع سے اسلامی نقط نظر بھی پیش کیا ہے، اس سلسلے میں وہ امت مسلمہ کے اکابرین کو چند عملی اقدامات کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے:” ریاستی سطح پر ہم خواتین کے لئے تعلیمی میدان میں ڈاکٹر اور ٹیچنگ فیلڈ کے لئے زیادہ نشستوں کا مطالبہ رکھ سکتے ہیں تاکہ مستقل لیڈی ڈاکٹر اور ٹیچر ہو جس سے لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا

آسان ہو جاۓ۔ میٹر نیٹی ہاسپٹل وغیرہ میں لیڈی ڈاکٹر کی کمی نہ ہو۔ خواتین کی تنظیموں ومختلف تحریکات نے جس میں خواتین بھی شامل ہیں، خواتین سے متعلق ایشوز پر لکھنے اور بولنے کی مہارت پیدا کر نے اور کمپیوٹرلٹریٹ بنانے کے لئے ٹرینگ کورسیس کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اہل خیر حضرات نے لڑکیوں کے لئے پروفیشل کورسیس کے انسٹی ٹیوٹ کھولنے چاہئے۔ جہاں اسلامی تعلیمات پرعمل کرتے ہوۓ تعلیم حاصل کرنالڑکیوں کے لئے آسان ہو جائے۔ "(صفحہ 27) معاشی صورتحال کے تحت مصنفہ معاشی جدوجہد کی وکالت کرتی ہے لیکن معاشی جدوجہد عورت کو اپنے بنیادی فرائض سے غافل نہ کر دے، اسی طرح انہوں نے معاشی میدان میں خواتین کے لیے کچھ عملی اقدامات پر توجہ دلائی ہے:” ۱) خواتین کے لئے غیر سودی بچت گٹ شروع کئے جائیں۔ (۲) وقف بورڈ کی جانب سے مستحق خواتین کو ملنے والے تعاون سے ضرورت مند خواتین کو آگاہ کیا جائے۔ (۳) بیٹیوں اور بہنوں کو پوری دیانت داری کے ساتھ ورثہ دیا جاۓ۔ (۴) میڈیکل اور ٹیچنگ فیلڈ میں لڑکیوں کی جاب کو حکومت کی جانب سے جو طئے شدہ ریزرویشن ہیں اس میں مسلم خواتین کے لئے سب کوٹہ رکھا جاۓ۔ (۵) مسلم تنظیموں کی جانب سے مستحق خواتین کو بلا تفریق مذہب وملت و ظیفے مختص کئے جائیں۔ (۲) مسلم مردوں کو عورتوں کے مہر ادا کرنے کے سلسلے میں متوجہ کیا جاۓ (اگر مہر ادا کرنے میں بہت عرصہ لگا دیا ہے تو رائج الوقت قیمت کے حساب سے رقم ادا کی جاۓ ) "(صفحہ 28) البتہ راقم کے نزدیک انہوں نے جو یہ لکھا ہے” اگر مہر ادا کرنے میں بہت عرصہ لگا دیا ہے تو رائج الوقت قیمت کے حساب سے رقم ادا کی جاۓ” میرے نزدیک ٹھیک نہیں؛ اس سے سود کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ مہر اگر باقی رکھنا ہے یا ادا کرنا ہے اس کو سونے کی شکل میں دیا یا رکھا جائے، معاشرتی صورتحال کے حوالے سے سب سے زیادہ مسائل ہے، مصنفہ نے بہت سے مثبت پہلو کا ذکر کیا ہے اس کے کچھ منفی پہلو کو بھی زیر بحث لایا ہے، ان کا ماننا ہے کہ وومن امپاورمنٹ کے اگرچہ بڑے بڑے دعوے ہیں لیکن یہ کڑوی حقیقت ہے کہ خواتین اب بھی زمانہ جاہلیت کی طرح آج بھی مظلومیت کی شکار ہے، دختر کشی، زنا بالجبر، جہیز، وراثت سے محرومی آج بھی خواتین کے مسائل ہیں ، اسی طرح خواتین کے حق میں جو قوانین بنائے جاتے ہیں ان پر بھی عمل نہیں کیا جاتا، بدقسمتی سے دیندار طبقہ کے گھروں میں بھی بہت سے مسائل ہیں۔ مصنفہ لکھتی ہیں :”مسلم گھرانے ہی نہیں بلکہ بعض دیندارلوگوں کے یہاں بھی بیوی، بہو، ساس جیسے سسرالی رشتوں کو لے کر بے اعتدالی اور ان کے ایک دوسرے کے تئیں حقوق وفرائض میں توازن نظر نہیں آتا۔ کسی رشتہ کے ساتھ بے جا رعایت اور کسی رشتہ کی حق تلفی ہوجاتی ہیں۔ مثلا کہیں ہندوستانی بہو بنا کر ساس، سسر، دیور، جیٹھ کی خدمت میں لگادیا جاتا ہے تو کہیں ساس سسر کی خدمت بہو پر فرض نہیں کہہ کر غیر ضروری چھوٹ دی جاتی ہے اور اس اخلاقی فرض سے بھی بہو آزاد ہو جاتی ہے۔ بعض لڑکیاں شوہر کے والدین کی ذمہ داری بیٹے پر ہے بہو پر نہیں کہہ کر ان کی ذمہ داری سے دامن بچاتی ہیں۔ "صفحہ 30) آخر میں وہ امت مسلمہ سے کچھ عملی اقدامات کی طرف توجہ دلاتی ہے” ملت کے ہر گھر نے اپنے گھر کو صحیح معنوں میں اسلامی خاندان بنانے کی فکر وکوشش کرنا چاہیئے جس

 سے وہ نہ صرف اپنے رشتہ داروں، پڑوسیوں اور تحریکی و دینی حلقوں بلکہ برادران وطن کو بھی حقیقی اور مثالی اسلامی خاندان کی جیتی جاگتی تصویر نظر آۓ اور وہ جان لے خواتین کا امپاورمنٹ اور ان کے تمام مسائل کا حل صرف اسلام میں ہی ہے۔ "(صفحہ 32)

کل ملا کر مصنفہ نے ان موضوعات پر قلم اٹھایا ہے جن پر کم لکھا گیا ہے، اور ان پانچ مضامین کو خوبصورت ترتیب دی ہے اخلاقیاتی صورتحال سے شروع کرکے وومن امپاورمنٹ پر اختتام کیا ہے۔ کتاب کی زبان آسان ہے۔ چونکہ کتاب کا مخاطب زیادہ جوان ہے اور کتاب میں کہیں گنجلک نہیں، اردو کے مشکل الفاظ کی جگہ انگریزی الفاظ استعمال کیے ہیں؛ جس کے جہاں اپنے مسائل ہے وہیں بہت سے فوائد بھی ہیں۔ اچھی کتاب کی ایڈیٹنگ کسی پروفشنل سے کرانے کی ضرورت ہے، پیج سٹنگ میں بھی غلطیاں ہے، کہیں کہیں پروف کی غلطیاں راہ پاگئی ہیں ، البتہ کتاب اپنے موضوع پر منفرد ہے۔ امید ہے کہ اس کتاب سے استفادہ کیا جائے گا اور مصنفہ مسلسل لکھا کرے گی۔

کتاب حاصل کرنے کا فون نمبر 8855055769

 مبصر کا رابطہ :9906653927

تبصرے بند ہیں۔