اچھی جنگ اور بری جنگ : منافق مغرب کے دہرے معیار

مغرب کے بنائے ہوئے قوانین مغرب پر لاگو نہیں ہوتے!

فرحت حسین مہدوی

روس کے صبر کا پیمانہ نیٹو کی 30 سالہ عہدشکنیوں کے بعد لبریز ہو ہی گیا اور آخرکار نیٹو کی شیخیوں سے متاثر ہونے والے یوکرین کے یہودی صدر [جن کی کابینہ اسرائیلی قومیت کے حامل 11 وزراء و مشاورین بھی یہودی ہیں] کی اشتعال انگیزیاں رنگ لا ہی گئیں اور روسی افواج نے یوکرین میں کاروائیوں کا آغاز کیا؛ اور دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلم اقوام پر جنگ اور دہشت گردی مسلط کرنے والے نیٹو ممالک کی ناک تلے آگے کے شعلے بھڑک اٹھے گوکہ انہیں اس کی توقع نہ تھی بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ 1991ع‍ کے بعد سے اب تک کی مغربی جارحیتوں کے آگے خاموشی اختیار کرنے والا روس کبھی بھی مغرب سے پنگا نہیں لے گا۔ لیکن روسی ریچھ شاید تیس سالہ سرمائی نیند سے اچانک جاگ اٹھا، مغرب کی توقعات کے مرکز یوکرین پر ہلہ بول دیا اور یوں جنگ کی آگ یورپ اور امریکہ (مغرب) کی ناک تلے بھڑک اٹھی۔

مغرب نے کچھ ہی دن پہلے کی اپنی ہی شیخیوں کو چھوڑ کر دنیا والوں کے جذبات ابھارنے کے لئے "میں غریب ہوں، میں یتیم ہو، میں مظلوم ہوں” کے نعرے لگانا شروع کئے۔ اور جنگ کے اسباب فراہم کرنے والے مغرب نے سنہرے بالوں والی (Blonde) یوکرینی حسیناؤں کی تصاویر کے بیک گراؤنڈ کے ساتھ "Peace (امن)” کے نعرے پورے مغرب میں سنائی دینے لگے اور "جنگ نامنظور (NoTO War)” جیسے ہیش ٹیگز کو سائبر اسپیس پر ٹرینڈ کروایا۔

مغرب ہی نے دنیا کے لئے قوانین لکھے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ورزش (Sports) کو سیاسی نہ بنایا جائے اور Politicise نہ کیا جائے مگر جنگ شروع ہوتے ہیں صہیونی-استکباری ورزشی اداروں جیسے فیفا، یوفا وغیرہ وغیرہ نے یورپ کے فٹبال چیمپیئنز لیگ کے فائنل مقابلوں کی میزبانی سے قبول کیا، یورپی ٹیموں کو حاصل روسی کمپنیوں کے اسپانسر شپ کو منسوخ کیا، اور روس کو تمام عالمی مقابلوں اور اولیمپکس وغیرہ سے مکمل طور پر نکال باہر کیا گیا اور دنیا والوں کو جتایا کہ اگر کوئی بھی مغربی قواعد سے نکلنا چاہے گا اسے دنیا سے خارج کردیا جائے گا اور یہ کہ یہ قوانین امتیازی ہیں اور اگر مغرب کے اشارے پر یمن، عراق، افغانستان، شام اور مقبوضہ فلسطین جیسے ممالک میں ہزاروں لاکھوں بچوں کو مارا جائے تو یہ قوانین اپنی جگہ سے ہلتے بھی نہیں ہیں۔ عالمی ادارے کہلوانے والوں نے واضح کیا کہ یہ ادارے غیر مغربی ممالک و اقوام کو غلام بنائے رکھنے کے لئے ہیں؛ چنانچہ استعماری قوتیں ان سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ البتہ مغربیوں نے ایسے حال میں کیا کہ مغربی تسلط پر مبنی عالمی نظام رخصت ہو رہا ہے اور روس نے [دنیا کی دوسری بڑی یہودی آبادی والے ملک] یوکرین پر حملہ کرکے درحقیقت استعماری عالمی نظام کے زوال کی رفتار تیز تر کردی ہے۔

یورپ امریکہ کی تحریک پر روس کو پسپائی پر مجبور کرنے کی غرض سے ماسکو کو تنگ کررہا تھا لیکن ان کا خواب چکنا چور ہؤا اور حملہ ہو گیا جبکہ یورپ کے تیل اور گیس کا پچاس فیصد حصہ روس سے آ رہا ہے؛ یورپ کی گندم اور بھاری دھاتوں کا بڑا حصہ روس سے آ رہا ہے اور اب تو مغربی استعمار نے روس کی صنعتوں، طیاروں، بین الاقوامی تجارت، بینکوں وغیرہ پر پابندیاں لگا رکھی ہیں حتی اس کو نقد رقوم کی مبینہ پر امن منتقلی کے نظام (انجمن برائے عالمی انٹربینک ٹیلی مواصلات = The Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunication [S.W.I.F.T]) سے بھی نکال باہر کیا ہے، یہ سمجھ کر اس نے یوکرین میں یورپی اور امریکی ارمانوں پر حملہ آور ہونے سے قبل ان سارے مسائل کا سامنا کرنے کے کسی نظام کا بندوبست تک نہ کیا ہوگا!

چنانچہ یہ عین حقیقت ہے کہ مغربیوں، بالخصوص یورپیوں نے پابندیاں لگا کر اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے، چنانچہ روس کسی وقت بھی یہ کہہ کر انہیں تیل، گیس، گندم اور دھاتیں بیچنے سے انکار کر سکتا ہے، کہ تم جب ہمیں ہمارے مال التجارہ کی قیمت ادا نہیں کرسکتے ہو تمہارے اپنے ہی قوانین کی وجہ سے تو ہمیں بھی یہ ساری چیزیں اپنے دشمنوں کی فلاح و بہبود کے لئے مفت دینے سے معاف کیا جائے۔

چنانچہ مغربی ممالک المیئے کے دو قدموں کے فاصلے پر اب بے بسی کی انتہاؤں پر شریف انسانوں کی بولی بولنے لگے ہیں اور کہتے ہیں کہ "یہ جنگ غیر منصفانہ ہے”؛ اور دوسری طرف سے البتہ وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، نسخے بھی تجویز کررہے ہیں، اسلحہ بھی بھیج رہے ہیں تنبیہی اقدامات بھی کر رہے ہیں، اپنے ذرائع ابلاغ کو بھی اس جنگ میں "یوکرین یوکرین” کے الفاظ دہرانے اور روس کو برا بھلا کہنے کا مشن سونپے ہوئے ہیں، اور روس کے ذرائع ابلاغ پر بھی قدغنیں لگا رہے ہیں۔ روس نے سلامتی کونسل میں امریکہ کی پیش کردہ قرارداد کو ویٹو کیا تو اب پوری مغربی دنیا مل کر اس قرارداد کو جنرل اسمبلی میں منظور کروانا چاہتے ہیں؛ سلامتی کونسل سے روس کی رکنیت ختم کرنے کی باتیں بھی کررہے ہیں، دوسری طرف سے عاجزی کے ثبوت دیتے ہوئے یوکرین کے لئے مگر مچھ کے آنسو بھی بہا رہے ہیں، اور امریکی صدر لوگوں سے یوکرین کے لئے دعا کرنے کی اپیلیں بھی کررہے ہیں۔ بہرحال کچھ لوگ دوراندیش ہیں جو روس پر آج کی مغربی پابندیوں کو مغرب کی موت قرار دے رہے ہیں لیکن انہیں بھی دوسروں کے ہاں ملانا پڑ رہا ہے۔

عالم مغرب تو پورا اترا ہؤا ہے اس جنگ میں جس میں وہ گولی چلانے سے عاجز ہے لیکن اقتصادی جنگ میں پیشقدمی کررہا ہے، تو عالم مشرق میں جاپان اور کوریا ہی نہیں سنگاپور بھی روس پر پابندیاں لگانے کے چکر میں الجھا ہؤا ہے، یہ سمجھے بوجھے بغیر کہ یہاں مٹھائی نہیں بٹ رہی ہے بلکہ مستقبل کی ایک بڑی جنگ کی بنیاد رکھی جارہی ہے جس میں یہ پسے ہوئے چھوٹے ممالک یا پھر دوسری عالمی جنگ کے پٹے ہوئے ممالک پھر بھی پٹ جائیں گے۔

بہرحال کچھ دوراندیش حکمران بھی ہیں، وہی جنہیں ان ہی مغربی طاقتوں کے ہاتھوں پٹنے کا تجربہ ہے جیسے جاپان اور جرمنی، وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد ان کو شمالی ریچھ کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑیں گے، جو حد سے زیادہ دشمنی کررہے ہیں وہ بھی ناکامی کی صورت میں افسوسناک صورت حال سے دوچار ہونگے، شاید کچھ کو تو خودکشی کا سہارا بھی لینا پڑے۔

عالم اسلام سے بھی ملا جلا رد عمل آ رہا ہے، کچھ تیل بیچ رہے ہیں اور اس جنگ کو غنیمت سمجھ رہے ہیں تیل کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے اور کچھ حیران و پریشان ہیں۔ وہ اشرف غنی اور زلنسکی کا انجام دیکھ کر مغرب پر اعتماد بھی نہیں کرپا رہے ہیں اور استعماریوں کے طوفان بدتمیزی سے بھی متاثر ہیں، اور ساتھ ساتھ روس کے انتقامی اقدامات سے بھی خائف ہیں۔

یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ روس کے سامنے مغرب کی شکست کی صورت میں چین بھی اس صورت حال کو تائیوان پر چڑھ دوڑنے کا مناسب موقع قرار دے سکتا ہے۔

یمن میں کیا انسان نہیں رہتے؟

بہرصورت ایک طرف سے مغرب نے روس کے اسپورٹس پر پابندی لگائی، روس کے سول طیاروں پر اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں، روس کے بینکوں پر پابندیاں لگا دی ہیں، یوکرین کو ہتھیار بھی دے رہے ہیں، یوکرین کے لئے رو بھی رہے ہیں جنگ کی انسانی صورت حال کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنی نسل پرستی سے بھی باز نہیں آ رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یوکرین کے باشندے مہذب ہیں، نیلی آنکھوں والے سفید فام (Blonde) ہیں، چنانچہ یہ درست نہیں ہے کہ انہیں عراقیوں یا افغانیوں کے برابر سمجھا جائے، اور انہیں عراق، افغانستان اور یمن و شام کے عوام کی طرح جنگ اور تباہ کاریوں کا حقدار سمجھا جائے، گو کہ وہ نہیں کہتے کہ ان ممالک میں تباہ کاریاں مغرب ہی کی شر انگیزیوں کا نتیجہ ہیں۔ وہ یوکرین کو پیسے بھی بھیج رہے ہیں، خوراک بھی اور ہتھیار بھی لیکن یمن جو جارحیت کا نشانہ بنا ہؤا ہے نت نئی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے۔

چنانچہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ بری جنگ ہے اور روس کے خلاف مغرب کے اقدامات درست ہیں۔ اور یمن کے خلاف مغربی-صہیونی-عربی جنگ اچھی جنگ ہے۔

شاید کسی کو یاد ہی نہیں ہے کہ اگلے مہینے یمن پر مسلط کردہ مغربی-یہودی-عربی جارحیت کے سات سال پورے ہو رہے ہیں؛ جہاں نہتے انسانوں کا قتل عام ہورہا ہے، ان کے اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا گیا ہے، علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں انسانوں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔

بچوں اور عورتوں کے قاتل، یمن کے ڈھانچوں کو منہدم کرنے والے، یمن کا محاصرہ کرکے کروڑوں کو بھوک سے دوچار کرنے والے، یمن کے اسپتال تباہ کرکے کروڑوں کو لا علاج بیماریوں میں مبتلا کرنے والے اور یمن کی فضائی، زمینی اور بحری ناکہ بندی کرنے والے، اقوام متحدہ کو رشوت دے کر اسے خاموش کرا چکے ہیں اور عالمی اداروں کے چشم و چراغ ہیں اور مغربی ممالک کے بھی، انہیں ہتھیار بھی فراہم کیا جاتا ہے، یمن کی تباہی میں کردار ادا کرنے والوں کو انعام بھی دیا جاتا ہے اور یمن کے بچوں کے قاتلوں کو اپنے محلات میں بھی بٹھاتے ہیں۔

امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا کی مدد سے سعودیوں کی سرکردگی میں کچھ عرب قبائلی ریاستوں نے ایک چھوٹے اور غریب ملک یمن پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ کس قدر غیر منصفانہ جنگ ہے یہ، جس میں لاکھوں بچوں اور عورتوں اور بوڑھوں اور بڑوں کا قتل عام ہورہا ہے لیکن مغرب اس جنگ کے غیر منصفانہ نہیں کہتا بلکہ یہ ایک اچھی جنگ ہے!

یمن کے عوام کی مظلومیت کے لئے کسی نے بھی ہیش ٹیگ ٹرینڈ نہیں کئے، جارح سعودی اور نہیانی ریاستوں پر کوئی پابندی نہیں لگی، انہیں کسی بھی سپورٹس پروگرام کی میزبانی سے محروم نہیں کیا گیا اور ان ریاستوں کے تیل اور گیس کی برآمدات جاری ہیں۔

اس لئے کہ دہرے معیاروں کی پابند مغربی حکومتیں اس جنگ کو اپنے مفاد میں سمجھتے ہیں اور اس کو اچھی جنگ کا لقب دیتے ہیں، کیونکہ اس جنگ سے مغرب کے اثر و رسوخ کا تحفظ مقصود ہے اور دوسری طرف سے جارح عرب ریاستوں کھربوں کا ہتھیار بھی تو مغرب سے خرید رہے ہیں؛ یہ ایک اچھی جنگ ہے کیونکہ مغرب سمجھتا ہے کہ اس جنگ کے ذریعے ایران کو مصروف رکھا جا سکتا ہے۔

اور ہاں! اصولی طور پر ہر وہ جنگ اچھی جنگ ہے جس کے فریقین مسلمان ہوں! شاید اس لئے بھی کہ ان کی آنکھیں نیلی اور بال سنہرے نہیں ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔