آزادی کی تحریک میں، میں بھی تھی 

مظفر احسن رحمانی

ہندوستان کی آزادی میں ہمارے کارہائے نمایاں کو کوئی فراموش نہیں کرسکتا، میں وہ ہوں  جس نے مجاہدین کے حوصلوں کو ہمیشہ بڑھایا اور جوان رکھا تھا، پیچھے مڑکر کبھی ہم نے نہیں دیکھا اور ہر پیچھے ہٹنے والوں کے قد م آگے بڑھائے ہیں، ریگزاروں میں، سنگلاخ وادیوں میں، کوہساروں اور پہاڑوں کے دامن میں ، جلتے شعلوں میں، دلی کی تنگ گلیوں میں، کشمیر کی خوبصورت وادیوں میں، لال قلعے کی فصیلوں پر، تاج محل کے میناروں پر، ہم موجود رہ  کر حوصلوں کو مہمیز کرتے رہے، اگر ہمارا وجود نہیں ہوتا تو سونے کی چڑیوں کے لئے  مشہور ہمارا ملک ہندوستان آزادی کے لئے کچھ اور دن جوجھتا رہتا.

 آپ ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں، مجھے آپ "اردو ” کہتے ہیں۔  وہی اردو جس نے چھوٹوں کو بڑا بنادیا اور بڑوں کو سرخاب کا پرلگادیا۔

جس طرح  ہندوستان کی آزادی میں دوسری زبانوں  نے حصہ لیا وہیں ہم  بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ میں نے ہی  ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ دیا، جس نعرے پر آج بھی آپ توجہ دیں تو لگے گا کہ یہ نعرہ مستانہ آزادی کے متوالوں میں جنون پیدا کرنے والا تھا  اور محبان وطن کے لئے علامہ اقبال کو  ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘   لکھنے کے لئے ہمارا ہی سہارا لینا پڑا میں بہت پیاری ہوں مجھے بول کر دیکھئے، سن کر، لکھ کر دیکئھے  تب محسوس کرپائیں گے کہ میرے بغیر اس ملک کی آزادی کا تصور ادھورا تھا  جدوجہد آزادی میں  آزادی کی تحریکات کو آگے بڑھانے میں ہم نے  نمایاں کرداراداکیا   "حب وطن "کے عنوان سے مولانا الطاف حسین حالیؔ کو جب  ایک طویل نظم لکھنا ہوا تو انہوں نے ہمارا ہی سہارا لیا۔

نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے  ہندوستان والو

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

جذبہ حریت پیدا کرنے والا یہ  شعر اگر ہماری مدد کے بغیر لکھا جاتا تو یہ اپنی معنویت کھودیتا۔

علامہ اقبال ؒ نے ہندوستانی عوام میں آزادی کا جذبہ  پیداکرنے اور اپنی  شاعری کے ذریعہ  ہندوستان کو آزادی دلانے کے لئے بے انتہا کوشش میں ہم نے مستقل ساتھ دیا ۔

بسمل عظیم آبادی جو  نہایت ہی حساس اور  جذباتی انسان کے ساتھ  ایک انقلابی شاعر تھے، انہوں نے

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنابازوئے قاتل میں ہے 

کے ذریعہ جب انگریزوں کو کھلا چیلنج دیا تو اس وقت میری بانجھیں کھل گئیں کہ واہ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اپنی آنچل کی ٹھنڈی چھاوں  میں آزادی کے متوالوں کو ایک ایسا پیغام دیا ہے جس کی وجہ کر ملک کو آزاد کئے بغیر دم نہیں لیں گے  ظفر علی خاں اور جوش کی شاعری نے ہمارے ذریعہ  جس طرح انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کو للکارا اس کی مثال شاید ہی کسی ہندوستانی زبان کی شاعری میں ملے۔

 ایک نظر آپ بھی ہمیں پڑھ کر اپنی انگیٹھی سلگا لیجئے

متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے

کہ خونِ دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے 

زندگی ان کی ہے دین ان کا ہے، دنیا ان کی ہے

جن کی جانیں قوم کی عزت پہ قرباں ہوگئیں

ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی

واللہ کبھی خدمت انگریز نہ کرتے 

 ہم نے پریم چند کو بھی اکسایا کہ وہ  اپنے ناولوں اور افسانوں میں انگریزوں کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائیں  اور ظالم و جابر حکومت کے خلاف آزادی کا نعرہ بلند کریں، انہوں نے سیاسی جدوجہد کی مکمل عکاسی کرتے ہوئے  گوشہ عاقبت، میدان عمل، چوگان ہستی، جیسی ناول لکھ کر پورے ملک کو آزادی کے لئے تیار کردیا

مولانا ابوالکلام آزاد کا کیا پوچھنا انہوں نے جہاں ہمارے بال وپر سنوارے وہیں انہون نے اپنی بیش قیمت مضامین اور  اپنی تقاریر کے ذریعہ مسلمانوں میں آزادی کا شعور بیدار کیا اور انہیں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی ترغیب دی۔ مسلمانوں کو بتلایا کہ ملک کی ترقی اور آزادی کی ذمہ داری تو ان کے سروں پر خدائے ذوالجلال کی طرف سے ہے دنیا میں صداقت کے لئے جہاد اور انسانوں کو انسانی غلامی سے نجات دلانا تو اسلام کا قدرتی مشن ہے انہوں نے ” الہلال "میں لکھا   ’’یادرکھئے کہ ہندوؤں کے لئے آزاد ی کیلئے جدوجہد کرنا داخل حب الوطنی ہے مگر آپ کیلئے ایک فرض دینی اور داخل جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ‘‘

ہم نے  آزادی کے لئے ماحول کو سازگار کیا اور  آزادی کے متوالوں کے دلوں میں احساس اورجذبہ بیدار کیا اور اس مقصد کیلئے مشکل سے مشکل قربانیوں کا حوصلہ پیداکیا ساتھ ہی ہندوستانیوں کے دلوں میں سرفروشی، جاں بازی اور حب الوطنی کے شعلوں کو اس طرح منور کیا کہ حصول آزادی تک ان کے جوش و جذبہ میں کبھی کمی نہ آنے دیا

جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خوں ہم نے دیا

اب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں 

 لیکن ایک افسوس ناک پہلو پر میں توجہ دلانا چاہونگی کہ آج آہستہ آہستہ لوگ ہمیں بھولتے جارہے ہیں، اس طرح ہمیں  بھلادینا اس ملک کے لئے بہت اچھا نہیں ہے

ہمیں لوگوں نے بانٹ لیا اور کہ دیا کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے جب کہ میں لشکری ہوں ہر ایک نے ہمارا استقبال کیا تھا، یاد دلانا چاہونگی کہ میں کل کی طرح آج بھی ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کی زبان ہوں اور جب تک یہ سنسار ہے  ہم انشاء اللہ ان  کی زبان بن کر رہیں گے۔

آج سب مل کر عہد کریں کہ آپ اپنی فکر کو بدلیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔