آزاد نظم

حبیب بدر

اتنی سادگی ہے میری
ستم رسیدہ دنیا ہے میری
فریبیوں کے ہاتھوں اے دوست
بارہا لٹی  بستی ہے میری
…..اب جی میں آتا ہے کہ بستی چھوڑ دیں
کون مخلص اور کون ہے فریبی
سب کو آزمانا چھوڑ دیں
بس ایک ہی شعار رہے میرا
کسی پہ بھروسہ کرنا چھوڑ دیں ..
…..آخر ایسا کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟
اپنا بنا کر رلایا گیا ہوں
اپنوں کے ہاتھوں ستایا گیا ہوں
قریب ہو کر بھگایا گیا ہوں
مرغ بسمل سا تڑپایا گیاہوں
آہ کس قدر مطلبی ہیں لوگ ……
جذبات دل سے کھیل جاتے ہیں
آرزوؤں کو روندھ جاتے ہیں
تمناؤون کو کچل جاتے ہیں
فریب دے کر قریب بلاتے ہیں
پھر خود ہی بھاگ جاتے ہیں.
مگر ……سمجھ میں نہیں آتا ….
ایسے ستمگر کو کون سا نام دوں؟؟؟؟؟
نینوا اور بابل کا ساحر کہوں
یا بنگال ہند کا جادوگر کہوں
یا ساحری کو چھوڑ دوں
سراپا جھوٹ کا پتلہ کہوں
آخر پکاروں تو کس لقب سے؟؟؟؟؟؟
سارے القاب کا حقدار ہے وہ
ساحر بھی ہے فریب دینے میں ماہر بھی ہے وہ
سنگ دل ہٹلر سے بڑھ کر جابر بھی ہے وہ
قتل غیر کو ہاتھ مین لئے تلوار حاضر بھی ہے وہ
سب ایک طرف. زمانہ کا بڑا ظالم بھی ہے وہ.
مگر اے دل ……
لوگ ستمگر بنے ہیں بنے رہنے دو
ناحق خون بہائے ہیں بہاتے رہنے دو
فریب کردیتے ہیں دیتے رہنے دو
کردار کے جامہ سے نکلتے ہیں نکلتے رہنے دو
مگرجو اپنی وضعداری ہے کبھی اس کو نہ چھوڑیںگے
مر جا ئیگے ہم کبھی اس سے منھ نہ موڑیںگے
دل پر زخم لے لینگے مگر اس سے نہ بھا گینگے
انسانیت کے کام آئیں  اپنی یہ عادت ہے
اسی رستے میں مر جائیں اپنی یہ فطرت ہے
بس یہی ہے میری سادگی جو باعث عذاب ہے میرے لئے.

تبصرے بند ہیں۔